بھارت کا ایمان متزلزل ہوگیا
فوجی تقسیم میں تقریباً پونے دو لاکھ ٹن فوجی ساز و سامان پاکستان کو حصے میں ملا جو سارے کا سارا پورے ہندوستان میں بکھرا ہوا تھا۔پاکستان کے حصے کا فوجی سامان دیکھ کر بھارت کا ایمان متزلزل ہوگیا۔یہ سامان ہضم کرنے کے لیے مختلف بہانے تراشے۔ یہ سامان پاکستان پہنچانے کے لیے کم از کم تین سومکمل ٹرینوں کی ضرورت تھی لیکن ان میں سے محض تین بوگیاں یہاں پہنچیں جن میں سامان کی بجائے ناکارہ سکریپ اور زائد المیعاد دوسری جنگ عظیم سے بچے ہوئے وبائی امراض کے ٹیکے اور استعمال شدہ گندی پٹیاں وغیرہ شامل تھیں۔ یہی حالت تو پ خانے اور ٹینکوں کی تھی۔ ہمیں چند ناکارہ ٹینک ملے جو مکمل طور پر قابل استعمال نہ تھے۔ نہ ہی ان ٹینکوں کے پرزے ملے۔
پاکستان آرمی کے پہلے کمانڈر انچیف اس ناانصافی اور حالت زار سے اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ وہ خصوصی طور پر بھارتی فوج کے برٹش کمانڈر انچیف فیلڈ مارشل آکنلک کے پاس گئے اور اپنے حصے کے سامان کے لیے بہت کوشش کی۔ فیلڈ مارشل آکنلک نے سامان نہ پہنچنے کی شکایت اس وقت کے وزیر اعظم پنڈت جواہر لعل نہرو اور سپریم کمانڈر لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے زبانی طور پر اور تحریری طور پر کی لیکن ان دونوں میں سے کوئی بھی ٹس سے مس نہ ہوا۔ جنرل میسروی اس رویے سے بہت دلبرداشتہ ہوا اور اس کی شکایت صوبہ سرحد کے گورنز سر جارج کننگھم سے کی جواپنی 6 اکتوبر 1947ء کی ڈائری میں لکھتا ہے، ’پاکستان آرمی کے کمانڈرانچیف جنرل فرینک میسروی نے مجھے بتایا ہے کہ پاکستانی فوج بالکل بے سروسامان ہے حتیٰ کہ رائفلوں تک سے محروم ہے اس کے حصے کا تمام فوجی سامان بھارت ہڑپ کر گیا ہے اور بھارتی سکھوں کو مزید مسلح کرنے کے لیے روزانہ بیلجیم کی ساختہ رائفلوں کے بھرے ہوئے جہاز مشرقی پنجاب پہنچ رہے ہیں۔‘ جنرل میسردی نے اس مقصد کے لیے ہز میجسٹی کی حکومت سے استدعا کی کہ جس نے دوسری جنگ عظیم کا بچا ہوا سامان پاکستان بھجوایا جس سے پاکستان فوج کو مسلح کیا گیا۔
آج ان برطانوی آفیسرز پر خصوصاً کشمیر کی جنگ کے حوالے سے بہت سے الزامات لگائے جاتے ہیں جو میرے خیال میں سراسر زیادتی ہے۔ یہ آفیسرز اپنی مرضی سے پاکستان آئے جبکہ ان پر کوئی دباؤ نہ تھا۔ پھر پاکستان فوج کی تنظیم کرنے، تربیت دینے اور اسلحہ سے لیس کرنے میں ان لوگوں نے بہت اہم کردار ادا کیا۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو پاکستان فوج شاید کئی سال منظم نہ ہو سکتی۔ شاید کشمیر کی جنگ میں پاکستان فوج کونہ بھیجنے کی بڑی وجہ ہی یہ تھی کہ اس وقت فوج غیر منظم اور بغیر ضروری جنگی ہتھیاروں کے تھی۔ اس کے پاس ضروری جنگی وسائل نہ تھے۔ ایسی غیر منتظم اور بغیر ہتھیاروں کے فوج کو ایک منظم اور مکمل طور پر جدید ہتھیاروں سے لیس بھارتی فوج کے سامنے بھیجنا چاہے کتنے ہی بہادر کیوں نہ ہوں دانشمندی نہ تھی۔ ایسا کرنا فوج کو تباہ کرنے کے مترادف ہوتا۔ بدقسمتی سے ہماری یہ عادت بن چکی ہے کہ ہم اپنی ناکامیوں کے لیے ہمیشہ دوسروں کو موردِالزام ٹھہراتے ہیں۔
اس کے علاوہ پاکستان فوج کو جو سب سے زیادہ نقصان برداشت کرنا پڑا وہ فوجی تربیت گاہیں اور اسلحہ ساز فیکٹریاں تھیں۔ یہ تمام کی تمام جنوبی ہند میں واقع تھیں کیونکہ انگریز حکومت کلکتہ سے پھیلنا شروع ہوئی تھی، لہٰذا جیسے جیسے اسے فوجی تربیت گاہوں، فوجی چھاؤنیوں اور اسلحہ ساز فیکٹریوں کی ضرورت پڑی وہ اسی علاقے میں قائم کی گئیں۔ خوش قسمتی سے اسلحہ کے لیے خام مال یعنی لوہا اور کوئلہ بھی اسی علاقے میں تھا اور ٹیکنیکل لیبر بھی اسی علاقے میں۔ پھر جنگ کا رخ بھی اسی طرف تھا، لہٰذا تمام تر فوجی ترقی اسی علاقے میں ہوئی۔ تمام اسلحہ ساز فیکٹریاں اور فوجی تربیت گاہیں بھارت کے حصے میں آئیں۔ پاکستان کے حصے میں محض سٹاف کالج کوئٹہ اور آرمی سروس کو ر کا ٹر یننگ سکول کا کول آیا، لہٰذا سوچا جا سکتا ہے کہ ایک فوج جو مکمل طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو چکی ہو، ہتھیاروں کے بغیر ہو، اسلحہ ساز فیکٹریوں، اعلیٰ فوجی قیادت، تربیت گاہوں سے محروم ہو اور ایک نوزائیدہ ملک جو نہ صرف مختلف مسائل میں گھرا ہوا ہو بلکہ جس کا وجود بھی خطرے میں ہو اور سب سے بڑھ کر وہ مخلص سیاسی قیادت جس کے وجود سے پاکستان معرضِ وجود میں آتے ہی اللہ کو پیاری ہو جائے، کمانڈر انچیف بھی غیر ملکی ہو تو اس کی بے بسی، زبوں حالی اور کارکردگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
آج خدا کے فضل و کرم سے پاکستان فوج دنیا کی جدید اور قابل اعتماد فوج گنی جاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے تحت کئی ملکوں میں اپنی کارکردگی کا لوہا منوا چکی ہے۔ بہت سا ساز و سامان بھی اپنے ہی ملک میں تیار کیا جارہا ہے۔ تمام تربیت گاہیں بھی بنالی گئی ہیں جو بہت ہی معیاری اور مؤثر سمجھی جاتی ہیں۔ ایٹمی طاقت بھی حاصل کر لی گئی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی کرم نوازی ہے جس کی رحمتوں سے یہ سب کچھ ممکن ہوا۔ پاکستان فوج کو جدید بنانے میں انگریز کمانڈر انچیف کے علاوہ سب سے زیادہ کوششیں مرحوم جنرل ایوب خان نے کیں۔ ہم سیاسی طور پر جو مرضی آئے کہہ لیں لیکن پاکستان فوج کو بنانے میں اور اپنے پاؤں پر کھڑا کرنے میں مرحوم نے اہم کردار ادا کیا۔ اللہ تعالیٰ اسے غریق رحمت کرے۔ آمین! پاکستان فوج ہمیشہ اس کی مشکور رہے گی اور یہ سب کچھ بھی اس وقت ممکن ہوا جب وہ مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر تھے۔ اس سے پہلے تو پاکستان فوج ایک سوئی تک نہیں خرید سکتی تھی کیونکہ جو بھی فائل فنانس ڈیپارٹمنٹ میں جاتی اوّل تو واپس ہی نہ آتی اور اگر واپس آجاتی تو ہر تجویز کے نیچے NO لکھا ہوتا۔ فوج بہت زیادہ بد دل اور نالاں تھی۔
پاکستان فوج کو سب سے زیادہ نقصان بھی ہمارے اپنے آفیسر ز نے پہنچایا۔ اوّل یہ کہ قیام پاکستان کے وقت آفیسرز کی بہت کمی تھی اس لیے جو نیئر رینکس میں سے جو تھوڑے بہت پڑھے لکھے تھے انھیں کمیشن دے کر آفیسر ز بنایا گیا اور بہت سے آفیسرز کی مطلوبہ قابلیت اور پروفیشنل اہلیت کو جانچے بغیر ترقیاں دی گئیں۔ یہ ایک مجبوری تھی۔
اس کا نتیجہ یہ ہو کہ ہر آفیسر اعلیٰ عہدوں کے خواب دیکھنے لگا۔ جب وہ یہ حاصل نہ کر سکے تو ان میں سے کچھ سازشوں میں مصروف ہو گئے اور یوں پاکستان فوج کو بہت نقصان پہنچا۔ دوسرا بڑا نقصان بنگالی آفیسرز کا بغاوت کرنا ہے۔ اگر یہ لوگ بغاوت نہ کرتے تو بھارت ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا تھا چاہے ایٹم بم ہی کیوں نہ استعمال کرتا۔ اور تیسری بڑی بد قسمتی بار بار کے مارشل لاء اور فوجی قیادت کا سیاست میں الجھتا ہے جس سے پاکستان فوج کی کارکردگی پربہت برا اثر پڑا۔ خدا کرے کہ پاکستان فوج ایک دفعہ پھر صرف اور صرف پروفیشنل فوج بن جائے۔ آمین!
٭…٭…٭