• news

جہانگیر ترین کی پرواز، قومی اسمبلی کی قرارداد اور امریکہ ایران مذاکرات!!!!

جہانگیر ترین کے بارے میری ہمیشہ یہ رائے رہی ہے کہ وہ ملک و قوم کے لیے تعمیری کام کرنے کی اہلیت رکھتے ہیں۔ جب عمران خان وزیراعظم تھے اس وقت انہیں بھی یہ مشورہ دیا گیا کہ تعمیری سوچ کے حامل، دیگر سیاسی جماعتوں، اداروں میں اچھے تعلقات رکھنے اور بات چیت کی صلاحیت رکھنے والوں کو ساتھ رکھیں۔ یہ لوگ بات چیت سے مسائل کا حل نکالتے ہیں۔ لوگوں کو ساتھ ملانے اور کھیل بدلنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ عمران خان نے غلطی کی اور ان لوگوں پر اکتفا کیا جو آنکھ کے اشارے کو سمجھ کر مخالفین پر الزامات کی بوچھاڑ کرتے، نامناسب گفتگو کے ذریعے وقت حاصل کرتے اور لوگوں کو بیمعنی گفتگو میں الجھا کر اصل مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کرتے رہتے تھے۔ جب تک عمران خان اور پی ٹی آئی کو کہیں نہ کہیں سے حمایت ملتی رہی اس وقت تو زبانی حملوں والے بھی بڑھ چڑھ کر ساتھ دیتے رہے لیکن جیسے ہی حالات بدلے، طاقت کے مراکز بدلنے کا سفر شروع ہوا زبانی حملوں کے آل راؤنڈر بھی بھاگ گئے۔ ان حالات میں جہانگیر ترین ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آئے اور انہوں نے چند روز میں وہ ٹیم بنا لی جس کے لیے عمران خان بائیس سال جدوجہد کرتے رہے۔ بہرحال اس ٹیم کے بنانے میں بھی جہانگیر ترین کا اہم کردار تھا لیکن اقتدار میں آنے کے بعد عمران خان اور جہانگیر ترین زیادہ دیر ساتھ نہ چل سکے۔ اب عمران خان مقدمات بھگت رہے ہیں اور جہانگیر ترین نئے سیاسی سفر پر ہیں۔ انہوں نے اپنی پارٹی کے عہدیداروں کا بھی اعلان کر دیا ہے۔
جہانگیر ترین نے عبدالعلیم خان کو استحکام پاکستان پارٹی کا صدر، عامر کیانی سیکرٹری جنرل، عون چوہدری ایڈیشنل سیکرٹری جنرل اور پارٹی و پیٹرن ان چیف ترجمان ہوں گے۔استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن ان چیف جہانگیر ترین نے نئی سیاسی جماعت بنانے کے بعد لندن کی پرواز لی ہے۔ پارٹی کے قیام کے بعد جہانگیر ترین کا یہ لندن کا پہلا دورہ ہے۔ لندن میں ایک ہفتہ قیام کا ارادہ رکھنے والے جہانگیر ترین میڈیکل چیک اپ کرائیں گے۔ جب کہ اس دوران ان کی میاں نواز شریف سے ملاقات کا بھی امکان ہے۔ موجودہ حالات میں یہ ملاقات غیر معمولی تو نہیں کیونکہ ملک میں نئے سیاسی اتحاد بن رہے ہیں۔ البتہ ملاقات ہوتی ہے تو اس کے مستقبل کی سیاست پر بڑے اثرات ہو سکتے ہیں۔ جہانگیر ترین نے ہر مشکل میں عمران خان کا ساتھ دیا لیکن چیئرمین پی ٹی آئی نے حکومت میں آنے کے بعد آنکھیں پھیریں وہ خوشامدیوں اور جی حضوری کرنے والوں گھر گئے اور آج سیاسی طور پر تنہا ہوئے بیٹھے ہیں جب کہ جہانگیر ترین ایک مرتبہ پھر ملکی سیاست میں اہم کردار ادا کرنے کے لیے متحرک اور نمایاں ہیں۔
 استحکام پاکستان پارٹی کے قیام کے بعد  یہاں لوگ ووٹ بینک کا سوال اٹھاتے ہیں شاید وہ ملکی سیاست کے ذہنی حقائق سے لاعلم ہیں۔ دیہی علاقوں میں الیکٹیبلز جس جماعت کا ساتھ دیتے ہیں ووٹ اس کے بیلٹ باکس سے ہی نکلتے ہیں۔ شہری علاقوں مخں یہ رجحان کم ہے لیکن پھر بھی نسبتا مقبول سیاسی رہنماؤں کا اپنا ووٹ بینک بھی ہوتا ہے لیکن دیہی علاقوں میں تو خالصتا امیدوار کا اپنا ووٹ بینک ہوتا ہے اور ووٹرز جماعت کے بجائے اپنے سردار، چودھری، شاہ صاحب، ملک صاحب، گجر بادشاہ اور اپنے اپنے قبیلے کو ہی ووٹ کرتے ہیں۔ اس لیے ووٹ بینک کی گفتگو کرتے ہوئے اس زمینی حقیقت کو ضرور ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے۔ 
 پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی میں منظور کی گئی حکومتی قرارداد مسترد کر دی ہے۔
 قومی اسمبلی نے نو مئی کے شرپسندوں کے خلاف کیسز ملٹری ایکٹ کے تحت چلانے کی قرارداد منظور کی۔ مذمتی قرارداد کے متن کے مطابق ایک جماعت اور اس کے قائد نے نو مئی کو تمام حدود پار کرتے، آئین اور قانون کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے فوجی تنصیبات پر حملوں سے ریاستی اداروں اور ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا، آئین اور قانون کے تحت ان کے خلاف کارروائی مکمل کی جائے۔ بعد ازاں پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں منظور کی گئی قرارداد مسترد  کرتے ہوئے کہا  کہ حکومتی قرارداد نو مئی کے اصل منصوبہ سازوں کو بچانے اور چیئرمین پی ٹی آئی کو مورودِ الزام ٹھہرانے کی کوشش ہے۔
پی ٹی آئی کے پاس قرارداد کو مسترد کرنے کے علاوہ کیا راستہ ہے۔ اگر یہ قرارداد اصل ذمہ داروں کو بچانے کے لیے ہے تو نامزد افراد تفتیش کا حصہ بنیں اور ایسی کسی بھی سازش کو ناکام بنانے کے لیے عدالت سے رجوع کریں۔ قانون کا سامنا کریں۔ جن لوگوں نے توڑ پھوڑ کی ان کے اعترافی بیانات سامنے آ رہے ہیں۔ کیا پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی اس حقیقت کو جھٹلا سکتے ہیں۔ کیا اداروں کو دھمکیاں نہیں دی گئیں، کیا لوگوں کو اکسایا نہیں گیا، کیا اشتعال نہیں دلایا گیا، کیا سیاسی تحریک کو سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لیے اداروں کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا، کیا ناپختہ ذہنوں میں زہر نہیں بھرا گیا۔ قرارداد مسترد کرنے سے پہلے حقائق دیکھیں۔ بھڑکتی آگ کی ویڈیوز دیکھیں۔ شخصیت پرستی سے باہر نکلیں اور ملک کا سوچیں۔ ان حالات نئی سیاسی جماعت استحکام پاکستان پارٹی پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کیونکہ ملک کو تیزی کے ساتھ تعمیر کی ضرورت ہے۔ تعمیر کے لیے امن و امان اور غیر ضروری سیاسی بحث سے دور رہنا سب سے بہتر حکمت عملی ہے۔ 
دوسری طرف بڑی خبر اور پیشرفت امریکہ، ایران کے مابین مذاکرات کے حوالے سے ہے۔ سلطنت عمان کے ذریعے ایران نے امریکا سے جوہری معاہدے کی بحالی کیلیے مذاکرات کی تصدیق کی ہے۔
ایرانی وزارت خارجہ کے مطابق جوہری معاہدے کی ازسرنو بحالی کیلیے امریکا سے بالواسطہ بات چیت جاری ہے۔عمان کے ذریعے امریکی پابندیوں کے خاتمے پر پیغامات کا تبادلہ کیا ہے، ہم نے سفارتی عمل کو کبھی نہیں روکا نہ ہی بات چیت خفیہ تھی۔
 امریکہ اور ایران کے مابین مذاکرات کی کامیابی سے بھی خطے کے مسائل میں کمی آ سکتی ہے۔ ایران پر عائد پابندیوں میں نرمی اور معاشی سرگرمیوں میں آزادی سے پاکستان کو بھی بہت فائدہ ہو سکتا ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان روس سے تجارتی تعلقات قائم کرنے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ بالخصوص تیل کی خریداری سے توانائی بحران کو حل کرنے میں مدد مل سکتی ہے وہیں اس حوالے سے ایران کے ساتھ تجارت بھی پاکستان اور ایران میں ناصرف تعلقات کو مضبوط بنا سکتی ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دونوں ملکوں کی معیشت کو بھی فائدہ ہو سکتا ہے۔
آخر میں فیض احمد فیض کا کلام
کب  یاد  میں  تیرا ساتھ نہیں کب ہات میں تیرا ہات نہیں 
صد شکر کہ اپنی راتوں میں اب ہجر کی کوئی رات نہیں 
مشکل ہیں اگر حالات وہاں دل بیچ آئیں جاں دے آئیں 
دل والو کوچ جاناں میں کیا ایسے بھی حالات نہیں 
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے 
یہ جان تو آنی جانی ہے اِس جاں کی تو کوئی بات نہیں 
میدانِ وفا  دربار  نہیں  یاں  نام  و  نسب  کی پوچھ کہاں 
عاشق تو کسی کا نام نہیں کْچھ عِشق کسی کی ذات نہیں 
گر بازی عشق کی بازی ہے جو چاہو لگا  دو  ڈر کیسا 
گر جیت گئے تو کیا کہنا ہارے بھی تو بازی مات نہیں

ای پیپر-دی نیشن