• news

نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے

اہل دانش کے نزدیک جس طرح ہر شجر کیلیئے مخصوص زمین اور اب و ہوا سے ہٹ کر پھلنا اور پھولنا بڑا مشکل ہوتا ہے اسی طرح ایک انسان کیلئے اس ماحول جس میں وہ پیدا ہوا ہو اور جہاں اسکی پرورش ہوئی ہو اس سے دور ایک ایسے ماحول جہاں کا کلچر، تہذیب، رسم و رواج اور زبان مختلف ہو وہاں رہ کر نہ صرف اپنی بقاء کی جنگ لڑنا بلکہ وہاں کے سسٹم میں رہ کر اپنا نام پیدا کرنا بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ اس حوالے سے مغرب کے جس ملک سے اکثر میرا واسطہ اور جہاں کی لوکل کمیونٹی سے میرا اکثر رابطہ رہتا ہے وہ برطانیہ ہے جہاں اب میرے ملک پاکستان کے ایک نہیں دو نہیں سینکڑوں اور ہزاروں سپوتوں نے اپنا نام سنہری حروف میں کندہ کر لیا ہے۔ راقم کو یہ لکھنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہو رہی کہ اس ملک برطانیہ میں میرے ان رابطوں کا سب سے بڑا وسیلہ ہماری یہاں کی ایک تنظیم او پی ڈبلیو سی کی روح رواں اور متحرک شخصیت محترم نعیم نقشبندی ہیں۔ جب نعیم نقشبندی کا ذکر ہو اور پھر حاجی عابد پر بات نہ ہو تو یہ کیسے ممکن ہے۔ ان دونوں حضرات پر ‘‘یک جان دو قالب والا’’ محاورہ صادق آتا ہے۔ حاجی عابد صاحب کا slough کے علاقے میں ایک بہت بڑا بینکوئٹ ہال اور کیٹرنگ کا کاروبار ہے۔ یہ انکی اعلی ظرفی کا کمال ہے کہ وہ ہر آئے دن کسی نہ کسی بہانے اپنے ڈیرے پر دوستوں کو اکٹھا کرنے کا ایک بہانہ تیار رکھتے ہیں۔ دو دن پہلے کی بات ہے کہ اس خاکسار کو نعیم صاحب کا فون آیا کہ انکے دوست احسن گھرال نے چوہدری وجاہت کے بیٹے اور چوہدری شجاعت کے بھتیجے حسین الہی کے اعزاز میں ایک ظہرانے کا اہتمام کیا ہے۔ یہ خاکسار سیاسی جمگٹھوں سے اکثر اجتناب کرتا ہے لیکن ایک طرف نعیم نقشبندی کی محبت اور دوسری طرف اسکی یہ یقین دہانی کہ یہ محفل خالصتاً غیر سیاسی اور سوشل ہو گی مجھے اپنا ارادہ بدلنے پر مجبور کر گئی اور میں نے اس ظہرانے میں شرکت کی دعوت قبول کر لی۔
پاکستان کی سیاست میں جتنے بڑے سیاسی گھرانے چھائے ہوئے ہیں اپنے طور طریقوں، میل ملاپ اور ملنساری کی بنیاد پر ہر ایک اپنی الگ پہچان رکھتا ہے۔ غیر جانبداری سے جب اس بابت بات کی جائے تو سیاسی افق پر چوہدری خاندان ایک ایسا خاندان ہے جو جٹ برادری کے سخت مزاج روئیوں کی مشہوری کے باوجود اپنی وفا شعاری اور ملنساری کی وجہ سے اپنا کوئی ثانی نہیں رکھتا اور طرہ امتیاز یہ کہ چوہدری شجاعت کا یہ مکالمہ تو ‘‘ مٹی پاو، آوتے روٹی شوٹی کھاو’’ اب ہمارے کلچر کا ایک طرز تکلم بن چکا ہے۔ کل جب اس ظہرانے میں اس گھرانے کے نوجوان حسین الہی سے ملاقات ہوئی تو دوران گفتگو توقع کے برعکس اسکے طرز کلام کی شائستگی اور باتوں کی گہرائی مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر گئی اور صرف ایک لائن میں اگر مجھے کچھ کہنا پڑے تو اپنی تیسری آنکھ کے مشاہدے کے بل پر اتنا کہوں گا کہ آنیوالے دنوں میں یہ لڑکا اپنے خاندان کی موجودہ نسل میں سے سب سے زیادہ ترقی کرے گا۔
عرض کروں پاکستان میں تو لوگ سیاسی میدانوں میں غیر فطری طور پر اپنے خاندانوں، برادری، دولت، زور، طاقت اور نہ جانے کن کن ذرائع کو استعمال کر کے عوامی عہدوں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں لیکن یورپ کے اس معاشرے میں ایسی کسی مہم جوئی کی کوشش تو دور کی بات اسکے متعلق سوچنا بھی محال ہوتا ہے۔ آج اس ظہرانے میں میری ملاقات دو ایسے نوجوانوں سے ہوئی جنکا تعارف آپکو یہ بتائے گا کہ دل میں لگن اور محنت سے کچھ کرنے کا جذبہ ہو تو انسان کیا کچھ نہیں کر سکتا۔ قارئین پہلے جس شخص کا ذکر کرنے چلا ہوں اسکا نام امجد عباسی ہے۔ آزاد کشمیر کے ضلع پونچھ تحصیل باغ سے تعلق رکھنے والا اور کراچی یونیورسٹی سے گریجوئشن کرنیوالا یہ شخص 2007ء میں برطانیہ آتا ہے اور یہاں پر محنت مزدوری کرنے سے اپنی زندگی کا آغاز کرتا ہے۔ 2019ء میں تمام قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد اسے یہاں کی شہریت ملتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے ساڑھے تین سال کے عرصہ کے بعد 2023ء میں یہ شخص لندن کی کاونٹی Berkshire Borough میں نہ صرف پہلی مرتبہ کونسلر منتخب ہوتا ہے بلکہ پہلی دفعہ اس Borough کی تمام روایات کو توڑتے ہوئے اسکا مئیر (Mayor ) بھی منتخب ہوجاتا ہے جو ایک بہت بڑا اعزاز ہے۔ اہلِ نظر کہتے ہیں گو خدا کی بے نیازی کے قصے اکثر سننے اور دیکھنے کو ملتے ہیں لیکن اسکے ساتھ یہ بھی زندہ حقیقت ہے کہ وہ زیادہ تر بندے کی صلاحیتوں کو دیکھ کر اسے نوازتا ہے۔ اس بندے سے بات چیت کر کے جہاں میں اسکی طلسماتی شخصیت سے متاثر ہوا وہیں اس شخص میں مجھے اپنی کمیونٹی جو اس Borough کے 30فیصد افراد پر مشتمل ہے ان کیلئے کچھ کرنے کی رمق بھی نظر آئی۔ کیونکہ یہ ایک سوشل ملاقات تھی اسلئے ہم دونوں میں اس بات پر اتفاق ہوا کہ یہ خاکسار کسی دن انکے دفتر میں ان سے تفصیلی ملاقات کرے گا اور پھر اسکے جذبوں اسکے ارادوں اور اسکے منصوبوں کے متعلق جانکاری حاصل کرنے کے بعد ایک دفعہ پھر اپنے قارئین سے پاکستان کے اس سپوت بارے بات کریگا۔ دوسری شخصیت جسکے بارے بات کرنے لگا ہوں اس کا تعلق میرے شہر لاہور کے علاقہ باغبانپورہ حضرت مادھو لال حسین کے علاقے سے ہے یہ بھی ایک بہت ہی پڑھا لکھا آئی ٹی ایکسپرٹ نوجوان ہے جو ابھی حال ہی میں ہیتھرو ائیرپورٹ ٹرمینل 5 کیساتھ ایک علاقہ ہے colnbrook جہاں پر زیادہ تر فرئٹ آفس ہیں وہاں سے انکی parish کونسل کا دوسری دفعہ چیئرمین منتخب ہوا ہے اور اس نے بھی یہ تاریخ رقم کی ہے کہ ایک مسلم دوسرا پاکستانی اور پھر دوسری دفعہ منتخب ہونا یہ واقعی بہت فخر کی بات ہے۔ ان سے بھی تفصیلی ملاقات کا وعدہ ہوا ہے۔ ایسے اشخاص کے تذکرے کے ساتھ اختتام پر صرف اتنا کہونگا ‘‘ 
نہیں ہے نا امید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
 ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ

طارق امین۔۔۔۔ تیسری آنکھ`

ای پیپر-دی نیشن