بجٹ 2023-24 ، خدوخال
2022ء میں جب عمران نیازی کی حکومت ایوان میں اپنی اکثریت کھو بیٹھی تو شہباز شریف کی قیادت میں PDM کی جماعتوں نے ایک کولیشن گورنمنٹ بنائی اور وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اس حکومت کا دوسرا بجٹ 9 جون کو پیش کیا۔ جب تحریک انصاف کی حکومت گئی تو ملک کی حالت اور معیشت بری طرح لڑکھڑا رہی تھی۔ گزشتہ دور میں اپنائی گئی غلط معاشی پالیسیوں کے باعث کرنٹ اکائونٹ خسارہ 175 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا اور زرِمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گر رہے تھے اور پی ٹی آئی کی حکومت نے اس نازک صورتحال میں حکمت عملی کے ذریعے ملک کو ڈیفالٹ کی طرف لے جا رہی تھی۔ پیٹرول اور بجلی کی قیمتوں میں سبسڈی کے ذریعے کمی کر دی گئی اور ایسے ایسے اقدامات اٹھائے گئے جو کہ آئی ایم ایف کی شرائط کی صریحاً خلاف ورزی تھی اور یہی نہیں بلکہ سابقہ حکومت کے وزیر خزانہ نے دو صوبائی وزراء خزانہ پر شدید دبائو ڈالا کہ وہ اپنا قومی فریضہ انجام دینے کی بجائے IMF کے پروگرام کو سبوتاڑ کریں جب کہ عمران نیازی کو جب 2018ء میں حکومت ملی تو معیشت کی شرح نمو 7.1 فیصد تھی اور افراط زر کی شرح 4 فیصد تھی۔ کھانے پینے کی اشیاء میں مہنگائی کا سالانہ اضافہ 2 فیصد تھا۔ پالیسی ریٹ 5.5 فیصد اور سٹاک ایکچینج سائوتھ ایشیا میں نمبر ون اور پوری دنیا میں پانچویں نمبر پر تھی۔
پاکستانی روپیہ مستحکم ہورہا تھا اور زرمبادلہ کے ذخائر 24 ارب ڈالر کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکے تھے۔ ملک کو سولہ سولہ گھنٹے کی لوڈشیڈنگ سے نجات حاصل ہو گئی تھی، ملک کی معاشی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ انفراسٹکچر جسے دور کرنے کے لئے اس شعبے میں ہائی ویز کی تعمیر، ماسس ٹرانزٹ سسٹم اور روزگار کی فراہمی کو آسان بنانے کے آسان قرضوں کی فراہمی کا عمل شروع ہو چکا تھا۔ مالی سال 2017-18ء میں وفاقی ترقیاتی بجٹ کا ہدف پہلی مرتبہ 1001 ارب روپے رکھا گیا تھا جو دوبارہ نہیں دیکھا جاسکا جبکہ 2021-22 کے بجٹ کا خسارہ GDP کے 7.9 فیصد کے برابر جب کہ پرائمری خسارہ GDP کے 3.1 فیصد کی خطرناک ترین حد تک پہنچ گیا تھا۔ چنانچہ اب اس بجٹ میں جو اہم چیزیں نظر آرہی ہیں وہ آئی ایم ایف کے پروگرام کی بحالی کیلئے تمام تر اقدامات کر لئے گئے ہیں، اس موقع پر وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا یہ کہنا تھا کہ موجودہ حکومت سیاست نہیں ریاست بچائو کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اپنی سیاسی ساکھ کی قربانی دے کر معیشت کی بحالی کو ترجیح دی گئی ہے۔
نمایاں خدوخال میں آئی ایم ایف کی شرائط پر عملدرآمد کے علاوہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے تحت دیئے جانے والے کیش ٹرانسفر کی شرح میں 5 فیصد اضافہ کیا گیا اور پہلے 360 ارب روپے کے بجٹ کو بڑھا کر 400 ارب کیا گیا اور اب 450 ارب روپے تک بڑھانے کی تجویز دی گئی ہے۔ پنجاب اور کے پی میں مفت آٹے کی تقسیم اور یوٹیلٹی سٹورز کے ذریعے 26 ارب روپے کی سبسڈی دی گئی۔ پچھلے ایک ماہ میں حکومت نے دو بار پیٹرولیم کی قیمتوں میں کمی کی جو 20 روپے ہوئی۔ ڈیزل کی قیمت میں 35 روپے اور لائٹ ڈیزل کی قیمت میں 17 روپے کی کمی کی گئی۔ علاوہ ازیں جولائی 2022ء سے اب تک حکومت ماضی کے تقریباً 12 ارب ڈالر کے بین الاقوامی قرضہ جات کی ادائیگی کر چکی ہے۔ اور اہم بات ہمارے زرعی شعبے پر سیلاب کے تباہ کن اثرات اور مجموعی مشکلات کو دور کرنے کیلئے جو حکومت نے 2 ہزار ارب روپے سے زائد کا کسان پیکج دیا، اس کے بہت اچھے نتائج معیشت پر برآمد ہوئے۔ گندم کی Bumper Crop کی وجہ سے 20 ملین ٹن سے زیادہ پیداوار ہوئی جو کسان کی آمدن میں اضافے کا باعث بنی۔ پنجاب میں زرعی شعبے میں 1500 سے 2000 ارب روپے اضافی منتقل ہوئے۔
حکومت اب اس بجٹ میں بھی یہ مراعات جاری رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ صنعتی شعبے پر اگلے سال کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائیگا جس سے Inventory Build Up میں کمی اور ملک میں خام مال کی بہتر دستیابی کی وجہ سے LSM میں بھی بہتری آئیگی۔ اسکے باوجود معیشت کو بہت چیلنجز کا سامنا ہے۔ چنانچہ اگلے مالی سال کیلئے ترقی کا ہدف 3.5 (GDP) فیصد رکھا گیا ہے۔ حالانکہ ملک جلد الیکشن کی طرف جانیوالا ہے۔ مگر وزیر خزانہ نے کہا کہ اْنہوں نے الیکشن بجٹ کی بجائے یہ بجٹ ایک ذمہ دارانہ بجٹ کے طور پر ترتیب دیا ہے۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں مختلف مد کو ملا کر 30 فیصد اضافہ کیا گیا جب کہ پنشن میں 17 فیصد اضافہ کیا گیا۔
بجٹ 2023-24ء کا اگر ایک تقابلی جائزہ لیا جائے تو اس میں جو تجاویز پیش کی گئیں، بالخصوص انتہائی اہم شعبوں میں ٹیکسز ختم کئے گئے ہیں۔ اس سے فوری طور پر تو نہیں مگر آنیوالے سالوں میں ملک صنعتی پیداوار اور زرعی شعبے میں خاصی ترقی کریگا اور بہتر روزگار کے مواقع بھی پیدا ہونگے۔ مگر ان سب چیزوں میں سے اہم چیز ہمارا پرابلم چیک اینڈ بیلنس کا ہے۔ یوٹیلٹی سٹورز ہوں یا دیگر تاجر حضرات، ٹرانسپورٹرز ہوں یا پھر سبزی فروٹ بیچنے والے، عوام کی بے پناہ شکایات ہیں کہ اگر حکومت کوئی اچھا اقدام اٹھاتی ہے تو اس کا فائدہ ہمیں کہیں نہیں پہنچتا۔ یوٹیلٹی سٹورز پر سامان کی دستیابی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ وہاں پر کوئی چیز ملتی ہی نہیں۔ لوگ لائنوں میں کھڑے رہتے ہیں۔ حکومت اگر بجٹ میں ریلیف دے رہی ہے تو پھر چیک اینڈ بیلنس کے سسٹم کو بھی مربوط بنیادوں پر استوار کرے تاکہ عوام اس کا ثمر حاصل کر سکیں۔