ڈونلڈ ٹرمپ، عمران خان اور بورس جانسن!!!!
گذشتہ دنوں انگلینڈ کے سابق وزیراعظم بورس جانس نے پارلیمنٹ کی رکنیت سے استعفیٰ دیا اور اب امریکہ کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ گرفتار ہوئے ہیں جب کہ پاکستان میں ایک مرتبہ پھر عمران خان کی گرفتاری کی اطلاعات بھی سامنے آ رہی ہیں۔ ان تینوں حکمرانوں میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں بالخصوص ڈونلڈ ٹرمپ، عمران خان اور بورس جانسن کے بیانات ہمیشہ ہی زیر بحث رہے۔ تینوں ہی اقتدار کے خاتمے کے بعد مشکلات کا شکار ہیں اور تینوں کو ہی مختلف الزامات کا بھی سامنا ہے۔ ایک وقت ایسا بھی تھا کہ جو یہ تینوں چاہتے تھے وہی ہوتا تھا لیکن آج حالات مکمل طور پر مختلف ہیں۔ تینوں کا مشکل وقت چل رہا ہے۔ کورونا کے دوران سابق وزیراعظم بورس جانسن کو سرکاری رہائش گاہ میں پارٹی کرنے کے الزام کا سامنا تھا ۔ مارچ میں پارلیمنٹ کو دئیے گئے شواہد میں بورس جانسن نے پارلیمنٹ کو گمراہ کرنے کا اعتراف بھی کیا تھا تاہم اب انہوں نے یو ٹرن لیتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کیا ہے کہ تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی کا ابتدا ءسے مقصد ہی انہیں قصور وار ٹھہراتے ہوئے سیاست سے باہر کرنے کی سازش کی گئی ہے۔ تحقیقات کے لیے قائم کمیٹی نے رکن پارلیمنٹ بورس جانسن پر دس روز سے زائد ایوان میں داخلے کی پابندی لگانے کی سفارش کی تو سابق وزیراعظم جذباتی انداز میں رکنیت سے مستعفی ہوتے ہوئے کنزرویٹو پارٹی کے وزیراعظم رشی سونک کو بھی نشانے پر لیا۔ دوسری طرف سابق امریکی صدر بھی حکومت ختم ہونے کے بعد سے آج تک مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ امریکا کے سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو میامی میں فیڈرل کورٹ ہاﺅس میں خفیہ دستاویزات کیس میں پیشی کے موقع پر گرفتار کیا گیا۔ وہ فیڈرل الزامات کا سامنا کرنے والے پہلے سابق امریکی صدر ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ پر وائٹ ہاﺅس چھوڑنے کے بعد خفیہ سرکاری دستاویزات اپنے پاس رکھنے کا الزام ہے۔
انتہائی حساس دستاویزات میں ایٹمی پروگرام، حملوں کی منصوبہ بندی اور کسی بھی حملے ہی صورت میں امریکا کی کمزوریوں کی اہم باتیں بھی فائلوں میں موجود تھیں۔ بورس جانسن کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی الزامات کی تردید کی ہے۔ اس کے بعد پاکستان کے سابق وزیراعظم عمران خان کا نمبر آتا ہے وہ بھی مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور ایک مرتبہ پھر ان کی گرفتاری کی خبروں میں تیزی آتی جا رہی ہے۔ عمران خان کو بھی مختلف مقدمات کا سامنا ہے۔ عدالتوں میں پیشیاں بھگت رہے ہیں جب کہ مختلف مقدمات میں تفتیش کا عمل بھی جاری ہے۔ وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ کے مطابق "پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے تفتیش میں اعتراف کیا ہے کہ اپنے قتل کی سازش سے متعلق جتنے بھی بیانات ہیں ان کی کوئی بنیاد اور ثبوت نہیں۔" واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ نے فوج کے سینیئر افسر، وزیراعظم اور وزیر داخلہ پر قتل کا الزام لگایا تھا لیکن جے آئی ٹی کے سامنے انہوں نے اعتراف کیا کہ بیانات کی کوئی بنیاد اور ثبوت نہیں ہے۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ عمران خان نے اعتراف کیا ہے کہ اس سازش بارے انہوں نے کسی سے سنا تھا ۔ عمران خان نے الزامات لگاتے ہوئے یہ نہیں سوچا کہ وہ دو ہزار چودہ یا سولہ نہیں دو ہزار تیئیس میں ہیں۔ حالات بدل چکے ہیں۔ وہ اپنی اصل طاقت کھو چکے اور اصل حمایت سے بھی محروم ہو چکے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ جیسے وہ آج بھی خود کو انیس سو بانوے کے عالمی کپ جیتنے والے ایک کپتان کی طرح دیکھتے ہیں۔ اگر حقیقت پسندی سے کام لیتے تو یہاں تک نہ پہنچتے۔ وہ ایک اوور میں چھ باﺅنسرز کرنا چاہتے ہیں لیکن امپائر کا فیصلہ کچھ اور امپائر انہیں غیر ضروری ڈھیل دینے کے بجائے ہر دوسرے تیسرے باﺅنسر کو "نو بال" قرار دے رہا ہے لیکن عمران خان سمجھنے سے قاصر ہیں وہ آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ امپائر ان کے ساتھ ہے۔ چونکہ ان کی عادت ایسی بن چکی ہے۔ وہ پارلیمنٹ، پی ٹی وی پر حملوں کے ذمہ دار سمجھے جاتے ہیں لیکن اس وقت انہیں مخالفین کو ہر وقت باﺅنسرز کی اجازت تھی آج کھیل کے قواعد و ضوابط اور قوانین بدل چکے ہیں لیکن خان صاحب کھیل کے بدلے ہوئے تقاضوں کے بجائے رعایتی اصولوں پر ہی کھیلنا چاہتے ہیں۔ جب کہ احساس یہ ہوتا ہے کہ اب معاملہ لیول پلینگ فیلڈ کی طرف بڑھ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو مقدمات کا سامنا ہے۔ انہوں نے کئی فاش غلطیاں تو کی ہیں لیکن ریاستی اداروں کو نشانے پر لینا بہت بڑی غلطی ہے۔ بالخصوص اپنے ہی لوگوں پر قتل کا الزام عائد کرنا اور دنیا کو مسلسل جھوٹ بتاتے رہنا کہ یہاں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہو رہی ہیں ۔ یہاں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہے، آوازوں کو دبایا جا رہا ہے۔ جبکہ ریاست ایسے تمام الزامات کی واضح الفاظ میں تردید کر چکی ہے لیکن عمران خان آج بھی اسی بنیاد پر غلط بیانی کرتے ہوئے اپنے بیرونی دوستوں کو پاکستان کے خلاف اکسانے کی کوششوں میں مصروف ہیں ۔ اپنے دور میں پارلیمنٹ میں جانے کو ہتک محسوس کرنے والے آج اسی پارلیمنٹ سے رعایتیں بھی چاہتے ہیں۔ دفاعی اداروں کے اہم افسران پر سنگین الزامات عائد کرنے کے بعد ان سے مذاکرات کی بھی امید کیے بیٹھے ہیں ۔ اپنے شرپسندوں کی گرفتاریوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں قرار دینے والے عمران خان ملک کی ساکھ اور تشخص کو نقصان پہنچانے اور بغاوت کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی رکوانے کے لیے ایک مرتبہ پھر غلط بیانی کا سہارا لینے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ کسی کو فائدہ پہنچا رہے تھے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے لیکن حکومت ختم ہونے کے بعد انہوں نے موجودہ حکومت کو امپورٹڈ قرار دیا اور اپنی حکومت ختم کرنے کی سازش کا ذمہ دار امریکہ کو ٹھہراتے ہوئے اپنے ووٹرز کو یہ بتاتے رہے کہ پی ٹی آئی حکومت کے خاتمے کی سازش امریکہ میں تیار ہوئی۔ انہوں نے سازش کی اور یہاں سے لوگوں نے مدد کی لیکن اب حیران کن طور پر وہی سازشی عمران خان کے سب سے بڑے حمایتی بنے ہوئے ہیں ۔ انہیں فلسطین اور کشمیر میں کٹتی ہوئی گردنیں، لٹتی عزتیں، بچوں کا بہتا خون تو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں نظر نہیں آتا لیکن پاکستان میں بغاوت کرنے والوں کی گرفتاریوں پر ان کے پیٹ میں مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ امریکہ نے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے بات کی ہے۔
آخر میں محسن نقوی کا کلام
اب یہ سوچوں تو بھنور ذہن میں پڑ جاتے ہیں
کیسے چہرے ہیں جو ملتے ہی بچھڑ جاتے ہیں
کیوں ترے درد کو دیں تہمت ویرانءدل
زلزلوں میں تو بھرے شہر اجڑ جاتے ہیں
موسم زرد میں اک دل کو بچاو¿ں کیسے
ایسی رت میں تو گھنے پیڑ بھی جھڑ جاتے ہیں
اب کوئی کیا مرے قدموں کے نشاں ڈھونڈے گا
تیز آندھی میں تو خیمے بھی اکھڑ جاتے ہیں
شغل ارباب ہنر پوچھتے کیا ہو کہ یہ لوگ
پتھروں میں بھی کبھی آئنے جڑ جاتے ہیں
سوچ کا آئنہ دھندلا ہو تو پھر وقت کے ساتھ
چاند چہروں کے خد و خال بگڑ جاتے ہیں
شدت غم میں بھی زندہ ہوں تو حیرت کیسی
کچھ دیئے تند ہواو¿ں سے بھی لڑ جاتے ہیں
وہ بھی کیا لوگ ہیں محسن جو وفا کی خاطر
خود تراشیدہ اصولوں پہ بھی اڑ جاتے ہیں