آرمی چیف نے قوم کی امید جگادی
پچھلے ایک برس سے ملک میں شدید غیریقینی کی کیفیت چلی آرہی ہے ۔ سیاسی انتشار نے قوم کو ہیجان میں مبتلا کرکے رکھ دیا ۔ معاشی عفریت نے کیا امیر ،کیا غریب، ہر ایک کی جان اپنے شکنجے میں لے لی۔ ہر طرف ایک سونامی پھنکار رہا تھا۔ یہ پروپیگنڈا اپنی انتہا پر تھا کہ ملک سری لنکا کی طرح دیوالیہ ہوجائے گا اور اس دیوالیہ پن سے چھٹکارا پانے کے لیے پاکستان کو اپنے ایٹمی اثاثے غیرملکی طاقتوں کے ہاتھوں میں گروی رکھنے پڑیں گے۔ یہ سن سن کر عوام کے کان پک گئے اور ذہن ماﺅف ہوگئے۔ لوگ سوچ رہے تھے کہ پاکستان تو ایک خدائی معجزہ تھا لیکن پہلے پچیس برسوں میں تو یہ دولخت ہوگیا اور اگلے پچاس سال بعد بقیہ پاکستان کی چولیں ہلتی نظر آرہی ہیں۔ عجب ستم ظریفی یہ ہے کہ یہ سارا پراپیگنڈا اکیلا عمران کررہا تھا اور میدان میں اس کو جواب دینے کے لیے کوئی بھی اترنے کو تیار نہیں تھا۔ وہ کبھی امریکا کو رگڑا دیتا کہ اس نے میری حکومت کا دھڑن تختہ کیا۔ کبھی وہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو ان حالات کا ذمہ دار ٹھہراتا۔ کبھی ان کو نیوٹرل ہونے کا طعنہ دیتا رہا، کبھی میرجعفر اور میرقاسم کے القابات سے پکارتا ، کبھی انھیں امریکا کی کٹھ پتلی قرار دیتا۔ کبھی وہ انھیں سہولت کارکہہ کر ان کی تحقیر و تذلیل کرتا۔ اس کے منہ میں جو کچھ آتا، وہ بلاسوچے سمجھے بول دیتا۔ عمران خان نے کئی مرتبہ ریاست کے سکیورٹی اداروں پربے سروپا الزامات لگائے ہیں جن کا کبھی کوئی ثبوت سامنے نہیں آیا، خان صاحب نے بس اپنی ذات کی کوتاہیاں چھپانے کے لیے ریاستی اداروں کو نشانہ بنایا۔
ووٹ آف نو کانفیڈنس ایک قانونی اور جمہوری عمل تھا لیکن جب خان صاحب کو اس کے ذریعے حکومت سے ہٹا دیا گیا تو خان صاحب نے ریاستی اداروں پر الزامات لگانا شروع کر دیے۔ 9مئی 2023ءکے افسوس ناک سانحے کی وجہ بھی خان صاحب تھے جن کے کہنے پر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پاک فوج کے گھروں اور اداروں پر حملہ کیا۔ خان صاحب نے اس کے علاوہ پاک فوج پر من گھڑت الزامات لگائے کہ ارشد شریف، جمیل فاروقی، اعظم سواتی پر حملوں میں پاک فوج کا ہاتھ ہے، اس جھوٹے الزام کو وہ اب تک ثابت نہیں کر پائے۔ ایسے ہی خان صاحب انٹرنیشنل میڈیا کو پاکستان کے سکیورٹی اداروں کے مخالف بیانات دیتے رہتے ہیں جن کا کوئی سر پیر نہیں ہوتا اور نہ ہی حقیقت سے کوئی تعلق۔ میں نے اپنے کالموں میں اس حقیقت کو مسلسل اجاگر کیا کہ موجودہ پاکستان کسی لحاظ سے بھی 1971ءکا مشرقی پاکستان نہیں۔ میں نے واضح طور پر لکھا کہ مشرقی پاکستان میں ہماری تیس ہزار فوج نے حالات پر قابو پالیا اور وہاں ضمنی انتخابات کرواکر نئی منتخب عوامی حکومت قائم کردی گئی تھی۔ 71ءکا مشرقی پاکستان مغربی صوبے سے ایک ہزار میل کی دوری پر واقع تھا جہاں ہم مزید کوئی کمک نہیں پہنچاسکتے تھے مگر پھر بھی پاک فوج نے حالات پر قابو پالیا۔
آج پاکستان میں بھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں فوج کی تعداد تیس ہزار نہیں بلکہ لاکھوں میں ہے۔ اس فوج نے پچھلے بیس سالہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ امریکا اور نیٹو ممالک کی افواج تک دہشت گردوں پر قابو نہیں پاسکیں مگر پاک فوج نے قربانیوں پہ قربانیاں دے کر دہشت گردوں سے اٹے ہوئے قبائلی علاقے میں ضرب عضب کے نتیجے میں دہشت گردوں کو کچل کر رکھ دیا۔ یوں پاک فوج کی کامیابیوں کا گراف بلندیوں کو چھونے لگا اور ساتھ ہی پاک فوج کے دشمنوں نے اپنی چالوں پر نظرثانی کی۔ بھارتی تجزیہ کاروں نے کھل کر کہا کہ ہمیں پاک فوج اور عوام میں دراڑ ڈالنے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی چاہیے۔ تبدیل شدہ حکمت عملی یہ تھی کہ اب بھارتی فوج کو کہیں استعمال نہ کیا جائے بلکہ پاکستان کے اندر سے غداروں کو خریدا جائے اور انھیں پاک فوج کے مقابل لاکھڑا کیا جائے۔ ستم ظریفی یہ کہ یہ ناپاک سازش عمران خان کے ہاتھوں تکمیل تک پہنچتی دکھائی دے رہی ہے۔ 9 مئی کا سانحہ انھی عالمی سازشوں کا ہی شاخسانہ تھا۔ 9 مئی کے بعد جو پہلی کورکمانڈر کانفرنس منعقدہوئی ، اس کے بعد آئی ایس پی آر نے ایک اعلامیے میں بڑی دلسوزی سے یہ کہا کہ جو کام بیرونی دشمن قوتیں گزشتہ پچھتر برسوں میں نہ کرسکیں، اسے سیاسی لالچ میں ایک ملکی طبقے نے انجام دے ڈالا۔ پھر حکومت کی طرف سے یہ اعلان سامنے آیا کہ جن لوگوں نے 9 مئی کو عسکری تنصیبات پر حملے کیے اور جنھوں نے اس کے لیے عوام کو اکسایا انھیں آرمی ایکٹ کے تحت مقدمے چلاکر سزائیں دی جائیں گی۔ اس طرح حکومت اور فوج ایک پیج پر اکٹھی ہوگئیں۔
9مئی کی سازش کا اصل مقصد یہ تھا کہ فوج کو بلوا روکنے کے لیے طاقت کے استعمال پر اکسایا جائے۔ زمان پارک میں بننے والے منصوبے کی رو سے سوچا یہ گیا تھا کہ سات یا دس ہزار بلوائیوں کو قید و بند میں ڈالنے کی بجائے فوج ان پر گولی چلانے پر مجبور ہوجائے گی اور یوں پاکستان کے گلی کوچے ہزاروں لاشوں سے اٹ جائیں گے۔ زمان پارک کے منصوبے اور سازش کا مفروضہ یہ تھا کہ پھر لاشوں کی سیاست کرکے مظلومیت کا رونا رویا جائے گا اور امریکی اور نیٹو افواج کو پاکستان میں اترنے پر مجبور کردیا جائے گا لیکن زمان پارک کی توقعات کے برعکس ہوا ، فوج نے صبروتحمل اور برداشت کا مظاہرہ کیا اور یوں زمان پارک کی اصل سازش ناکام ہوگئی۔ آج پاکستان میں بے یقینی کے بادل چھٹ چکے ہیں۔ سیاسی انتشار اپنی موت آپ مرچکا ہے۔ ملک اورپاک فوج کے خلاف مذموم منصوبہ بنانے والے کٹہرے میں کھڑے ہیں۔ 9 مئی کے ویڈیو مناظر مجرموں کے خلاف منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہ ویڈیو مناظر تحریک انصاف کے سوشل میڈیا کی طرف سے منظرعام پر آئے تھے۔ اس طرح 9 مئی کا کوئی بھی مجرم اپنی معصومیت کی دہائی نہیں دے سکتا۔
جنرل عاصم منیر نئے آرمی چیف بنے تو ملک کی تقدیر نے بھی نئی انگڑائی لی۔ قوم جنرل عاصم منیر کو ایک مسیحا کے روپ میں دیکھ رہی ہے۔ انھوں نے امیدوں کے نئے چراغ روشن کیے۔ پاکستان کے پچیس کروڑ عوام اس ہیجان سے نجات پاچکے ہیں جو زمان پارک سے بڑی تگ و دو کے بعد برپا کیا گیا تھا۔ چند روز قبل حکومت نے نئے مالی سال کا بجٹ پیش کیا۔ وفاقی وزیرخزانہ اسحاق ڈار نے جس پرسکون لہجے میں بجٹ تقریر کی اور جس خندہ پیشانی سے قوم نے اس بجٹ کا خیرمقدم کیا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب حکومت ِ وقت بھی تنے ہوئے اعصاب سے نجات پاچکی ہے۔ پوری قوم نے نئی امیدوں کے ساتھ ایک نئے مالی سال کی طرف نیا قدم بڑھایا ہے۔ اس کے لیے میں ذاتی طور پر جنرل عاصم منیر کو خراج تحسین پیش کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔
٭٭٭٭