حقوق کا تحفظ ہم نہیں تو کون کرے گا، اسلام آباد ہائیکورٹ
اسلام آباد (وقائع نگار) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے عدالتی حکم کے باوجود شیریں مزاری کی دوبارہ گرفتاری پر دائر توہین عدالت درخواست میں انسپکٹر جنرل اسلام آباد ڈاکٹر اکبر ناصرخان کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے دوبارہ جواب جمع کرانے کا حکم دیدیا۔ وکیل نے کہا کہ گذشتہ سماعت پر آئی جی کی جانب سے جواب جمع کرا دیا گیا تھا، جب آرڈر کیا گیا تھا اس وقت پولیس کا کوئی آفیشل موجود نہیں تھا۔ عدالت نے آئی جی کا جواب عدالت کے سامنے پڑھنے کی ہدایت کردی، جواب میں آئی جی اسلام آباد نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہاکہ عدالت نے شیریں مزاری کو گرفتاری سے روکا ہوا علم نہ تھا، 17مئی کے عدالتی حکم سے متعلق لاعلم تھا، کسی ماتحت کو بھی عدالتی حکم کا معلوم نہیں تھا، راولپنڈی پولیس نے ڈی سی راولپنڈی کے حکم پر ڈاکٹر شیریں مزاری کو حراست میں لیا، عدالتی احکامات کے بارے میں لاعلم ہونے کی وجہ سے راولپنڈی پولیس کی معاونت کی ذمہ داری پوری کی، عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کا سوچ بھی نہیں سکتا، درخواست گزار نے اپنی پٹیشن میں بھی کہیں نہیں لکھا کہ پولیس کو عدالتی حکم پہنچایا گیا، انصاف کے تقاضوں کو دیکھتے ہوئے توہین عدالت کی درخواست خارج کی جائے، جواب کے ساتھ دیگر پولیس اہلکاروں کے بیان حلفی بھی منسلک کیے گئے۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ تاثر ہے اسلام آباد پولیس پنڈی ڈی سی کے آرڈر کو ہائی کورٹ کے آرڈر سے اوپر سمجھتی ہے، یہ بڑا ایشو شامل ہے اس کو لائٹ نہ لیں، اٹارنی صاحب یہ آئی جی کے جواب کو دیکھیں، جب شیریں مزاری کو گرفتار کیا گیا انہوں نے آرڈر کی مصدقہ کاپی دکھائی، عدالت گرفتاری سے روک رہی ہے، پولیس ہائیکورٹ کی بجائے پنڈی ڈی سی کے آرڈر کی پیروی کر رہی ہے۔ اس موقع پر آئی جی اسلام آباد نے کہاکہ میں کچھ کہنا چاہتا ہوں، جس پر عدالت نے آئی جی اسلام آباد کو بولنے سے روک دیا۔ آئی جی اسلام آباد نے کہا کہ میں اپنے افسروں کو پروٹیکٹ کروں گا، ہمیں اس کورٹ کے آرڈرز سے متعلق معلوم نہیں تھا۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہی کام کیا کریں اور عدالتی احکامات کی خلاف ورزی کرکے کہیں میں پروٹیکٹ کروں گا۔ عدالت نے آئی جی اسلام آباد کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے حکم دیا کہ آئی جی صاحب ترمیمی جواب جمع کرائیں۔ جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ اگر لوگوں کے حقوق کا تحفظ ہم نہیں کریں گے تو کون کرے گا، جب عدالت کا حکم موجود تھا تو اسلام آباد پولیس کو پنجاب پولیس کو روکنا چاہیے تھا، یہ کیسے ہو سکتا ہے آپ یہ کہیں کہ ہم نے گرفتار نہیں کیا، ہم نے صرف سہولت فراہم کی، اگر ایک دفعہ توہین عدالت کی کارروائی شروع ہو گئی تو وہ پھر اپنے حتمی فیصلے تک پہنچے گی۔ وکیل نے کہاکہ ہمارے پاس پوری ویڈیو ریکارڈنگ موجود ہے، ہم نے عدالتی حکم دکھایا تو اسلام آباد پولیس نے کچھ وقت لیا پھر کہا گرفتاری کرنی ہے۔ عدالت نے آئی جی کے جواب پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہاکہ آئی جی سنا ہے آپ پڑھے لکھے ہیں، پوسٹ گریجویٹ بھی ہیں، آئی جی صاحب ترمیمی جواب 22 جون تک جمع کرائیں۔