فوج مخالف بیانیہ اور اس پر ضد!
قیام پاکستان کے چند ماہ بعد اپنی ہی فوج پر پاکستان کے چند طبقات کی طرف سے تنقید کا آغاز اپریل 1948ءمیں ہی ہوگیا تھا جب پاکستان کے بانی اور پہلے گورنر جنرل قائد اعظم محمد علی جناح نے بلوچستان میں خان آف قلات میر احمد یار خان کے چھوٹے بھائی پرنس آغا عبدلی خان بلوچ اور چند دیگر بلوچ سرداروں کی مسلح بغاوت کو کچلنے کیلئے پاک فوج کو آپریشن کا حکم دیا کیونکہ ان سرداروں نے خان آف قلات پاکستان سے بلوچستان کے الحاق کو تسلیم کرنے کی بجائے اسکے خلاف بندوق اٹھانے کا فیصلہ کیاتھا۔ یہ وہی وقت تھا جب پاک فوج ریاست جموں و کشمیر میں بھی بھارتی فوج کے خلاف برسرپیکار تھی ۔ اس پر بھی کچھ پاکستانی نہ خوشی تھے اور کشمیر کے مسئلہ پر بھارت سے جنگ کو غیر ضروری قرار دے تھے۔ اب یہ بدقسمتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کی رحلت اورقائد ملت نواب لیاقت علی خان کی شہادت کے بعد پاکستان کی باگ دوڑ ان یونینسٹ لیڈران کے ہاتھ آگئی جو تقسیم ہند سے قبل مسلم لیگ کے خلاف اس خطہ میں نہ صرف الیکشن لڑتے رہے بلکہ برطانوی ہند میں اقتدار کا حصہ بھی رہ چکے تھے ۔ان لیڈران نے ملک میں اپنے سوا کسی دوسرے کے اقتدار کو تسلیم نہ کرنے کی ایسی ریت ڈالی جو آج بھی ہماری سیاست کا لازمی جزو چلی آرہی ہے۔ خواجہ ناظم الدین ، ملک غلام محمد ، سکندر مرزا ، تین گورنر جنرل اور بطور وزیراعظم محمد علی بوگرہ، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، ابراہیم اسماعیل چندری گڑھ کے بعد ملک فیروز خان نون ملک میں جاری اقتدار کی رسہ کشی کاشکار ہو کر رخصت ہوگئے ۔ اسی عرصہ میں بھارت کی پارلیمنٹ میں برسراقتدار کانگریس جماعت کے ایک ممبر نے بھارتی وزیراعظم جو ہر لال نہرو سے سوال کیا کہ وہ کشمیر کے تنازعہ پر پاکستان کی حکومت سے بات کیوں نہیں کرتے تو اس کا جواب تھا ”کس سے بات کی جائے ، ہم بھارت میں اتنی جلدی دھوتیاں تبدیل نہیں کرتے جتنی جلدی پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہوتے ہیں“۔
75برس کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں پاکستان تسلسل کے ساتھ سیاسی عدم استحکام کا شکار چلا آرہا ہے۔ یہاں تک کہ 1971ءمیں پاکستان دولخت ہوگیا اس کے باوجود باقی ماندہ پاکستان میں اقتدار کے لیے رسہ کشی اور اس کیلئے کسی بھی حد تک جانے کا سلسلہ برقرار رہا اور اس کیلئے پاک فوج کو مورد الزام ٹھہرانا بھی فیشن بنادیاگیا ۔ پاک فوج پر اپنے الزامات کو درست ثابت کرنے کیلئے دفاع کے لیے ہر سال بجٹ میں مختص کی جانے والی رقوم کوبھی متنازع بنانے سے گریز نہیں کیا ۔حالت یہ تھی اچھے بھلے تعلیم یافتہ باشعور افراد بھی پاک فوج کےخلاف ذہن سازی میں مصروف رہے۔ 2008کے بعد سے ملک میں جمہوریت کا تسلسل ضرور برقرار ہے لیکن پاک فوج پر الزام تراشیاں کبھی ختم نہیں ہوئیں ۔ گزشتہ برس اپوزیشن جماعتوں کے باہمی اتحاد نے جب پی ٹی آئی حکومت کو سیاسی عمل کے ذریعے پارلیمنٹ میں عدم اعتماد سے دو چار کیا تو عمران خان کا فرض بنتا تھا کہ وہ ایک مقبول سیاسی لیڈر کے طورپر اپوزیشن اتحاد کی کامیابی کو تسلیم کرتے ہوئے پاک فوج کےخلاف بیانیہ لیکر سڑکوں پر آنے کی بجائے پارلیمنٹ میں رہتے اور بطور اپوزیشن لیڈر بھرپور کردار ادا کرتے ۔ لیکن انہوں نے اپنی مقبولیت میں اضافہ کیلئے پاک فوج کے خلاف محاذ کھول لیا ۔ عمران خان سے محبت کرنےوالے نوجوانوں کی اکثریت نے فوج مخالف بیانیے کو ہاتھوں ہاتھ لیا۔ سوشل میڈیا پر اس حوالے سے ٹرینڈ چلائے جانے لگے۔ نوجوان ہوں یا عمران خان کہ اندھی عقیدت میں مبتلا پی ٹی آئی کے دیگر مردو خواتین کارکن یہ سب اس حقیقت کو فراموش کر بیٹھے کہ پارلیمنٹ سے اجتماعی استعفےٰ دے کر عمران خان بہت بڑ ی سیاسی غلطی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ عمران خان اور ان کی جماعت قومی اسمبلی سے باہر ہوکر وہاں موجود دیگر سیاسی جماعتوں کے اتحاد کیلئے میدان خالی چھوڑ آئے تھے ۔ اپوزیشن اتحاد کو حکومت سازی کے علاوہ پارلیمنٹ میں قانون سازی کا مو قع عمران خان نے از خود پلیٹ میں رکھ کردیا جو ان کی غلط سیاسی چال ثابت ہوئی۔ اس غلطی کاادراک کرنے کی بجائے عمران خان کے فوج مخالف بیانیے میں مزید شدت آتی چلی گئی ۔ ماحول ایسا بنادیا گیا کہ جیسے عمران خان پاکستان کوپاک فوج سے آزادی دلانے چلے ہیں ۔ بہت سے تجزیہ کار ، دانشوراور سوشل میڈیاپر متحرک ”وی لاگر“عمران خان اور ان کے حامی نوجوانوں کو مزید ہلہ شیری دیتے نظر آئے۔ اپنی سیاسی غلطی سے رجوع کرنے کی بجائے عمران خان کے پنجاب اور کے پی کے صوبائی اسمبلیوں سے باہر آنے کے فیصلے نے پی ٹی آئی کی افسانوی مقبولیت میں اضافہ ضرورکیا لیکن عمران خان کے اس فیصلے نے پی ٹی آئی کو سیاسی طور پر یکسر غیر فعال کر کے رکھ دیا۔اس کے بعد پی ٹی آئی کا کام صرف اپنی ہی فوج کے خلاف محاذ آرائی تک محدود ہوکر رہ گیا۔ اس محاذ آرائی نے بڑھتے بڑھتے ملک بھر میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کو ملک کے سب سے بڑے سلامتی کے ادارے پاک فوج کے مدمقابل لاکھڑا کیا جس کا نتیجہ 9مئی 2023 کو پاک فوج کے مراکز اور مختلف چھاﺅنیوں میں شہدا کی یادگاروں پر برائے راست حملے کے طورپر سامنے آیا ۔ بدقسمتی سے پاک فوج کے خلاف بیانیے پر ڈٹے رہنے کی ضد نے شرپسندی کی شکل اختیار کرلی جس کی اجازت کوئی بھی مذہب معاشرہ نہیں دے سکتا جس پرقانون کا حرکت میں آنا یقینی بات تھی ۔ غلطی کا احساس ہونے پر پی ٹی آئی کی ذیلی قیاد توں کے پاس اپنی سیاسی جماعت سے لاتعلقی کے علاوہ دوسرا کوئی راستہ نہیں بچا تھا ۔وہ خزاں کے پتوں کی طرح پی ٹی آئی سے جھڑتے چلے گئے اور پھنس وہ جذباتی کارکن گئے جو 9مئی 2023کو شہدا کی یادگاروں اور لاہور میں کور کمانڈر کے گھر پر حملہ آور ہوکر توڑ پھوڑ اور جلاﺅ گھیراﺅ میں ملوث پائے گئے۔