پاک فوج کا سخت ڈسپلن
ملک وقوم کی حفاظت اور دفاع کےلئے ضروری ہے کہ ایک مضبوط نظام دفاع قائم رکھاجائے اور عسکری صفوں کو ہمہ وقت تیار اور چاک وچوبند رکھاجائے۔ افواج پاکستان ملک وقوم کا ایک قیمتی اثاثہ ہیں جو دفاع پاکستان کےلئے ہردم تیار ہیں اور قومی دفاع کو مضبوط وموثر بنانے کےلئے تیار رہتی ہیں۔ جہاں افواج پاکستان قومی وقار وعظمت کا نشان بن کر ہر قربانی دینے کےلئے تیار رہتی ہیں وہاں عسکری اداروں نے اپنی اپنی سپاہ کو دشمن کی ہر چال کا مقابلہ کرنے کےلئے بہترین تربیت، اعلیٰ قائدین کی سپردگی اور تعمیر کردار کے علاوہ سپاہ کی شخصیت کی نشودنما بھی کرتی ہیں۔ عسکری قائدین کا چناﺅان کی شخصیت اور کردار کا تفصیلاً جائزہ لے کرکیا جاتا ہے اور ان افراد کو عسکری فرائض سرانجام دینے کےلئے چنتے ہیں جن کے اندر آنے والے وقت میں اچھے قائد بننے اور شخصیت کو نشوونما دے کر بہتر بنانے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ پاک فوج میں شامل تمام صیغے اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ دوران چناﺅ تربیت اور عملی کارکردگی سپاہ کی قائدانہ صلاحیتیں اجاگر کی جائیں اور اس کےلئے اعلیٰ کردار کا ہونا اور برقرار رکھنا ایک لازمی جزو بن جاتاہے۔ افواج پاکستان میں شمولیت کے بعد سپاہ کو نئی زندگی کا آغاز کرنا ہوتاہے اور عسکری بیرکوں میں رہائش پذیر ہونا پڑتاہے۔ جہاں مختلف پیشہ ورانہ کارروائیوں کے ساتھ ساتھ نئے طریقے سے زندگی گزارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یونٹ کی روایات اور کارکردگی کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد ایسے اقدامات اٹھانے پڑتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں یونٹ کی ناموس اور عزت واحترام میں اضافہ ہو اور سپاہ سراونچاکرکے زندگی گزار سکیں۔ عسکری زندگی میں آنے والے نئے لوگوں کو سیکھنے کے خاص عمل یعنی specialization Process سے گزرنا ہوتاہے چونکہ سول سوسائٹی سے آنے والے لوگ عسکری زندگی سے واقف نہیں ہوتے لہٰذا ان کا دماغ فوجی روایات، قوانین، پروسیجرز ، کلچر اور اس سے متعلقہ روایات ، رولز اور ریگولیشن سے ناواقف ہوتا ہے جس میں نئے طور طریقے اور رہنے کے انداز سکھائے جاتے ہیں لہٰذا عسکری اداروں میں ملٹری کے نئے انداز زندگی کو سیکھنا پڑتاہے۔ اس میں انفرادی سکلزSkills کے ساتھ ساتھ جامع زندگی کو اپنا کر عسکری زندگی کی شروعات کی جاتی ہیں۔ لیفٹیننٹ کرنل(ر) ڈاکٹر محمد انور نے عسکری زندگی کے بارے میں لکھا کہ عسکری ادارے سپاہ کی قائدانہ صلاحیتوں کو اجاگرکرنے کا خاطر خواہ موقع فراہم کرتے ہیں۔ یعنی ایک ہی وقت میں بھرتی کئے گئے گروپ کو تربیت اور ڈسپلن، نظم وضبط اور دوسری کارروائیوں کے بارے میں سکھاتے وقت اسی گروپ کے اندر باری باری لوگوں کو رہنما قائد مقرر کیاجاتاہے جس سے سپاہ کی قائدانہ صلاحیتیں، شخصیت اور کردار کے مختلف پہلو رونما ہونے کے ساتھ ساتھ، درستی اور بہتری کی طرف مائل ہوتے ہیں۔ عسکری زندگی میں جسمانی صحت پر بہت زور دیاجاتاہے بے شک صحت مند اور تندرست جسم ہی قابل، لچکدار اور تندرست ذہن کا مالک ہوتاہے۔ عسکری تربیت زیرتعلیم وتربیت سپاہ اور قائدین کو تندرست اور توانا اشخاص بناتی ہے جبکہ ایک صحت مند اور مضبوط انسان ہی متوازن شخصیت کا مالک ہوتاہے جبکہ بہتر کردار اور اعلیٰ سیرت کا انحصار بھی قائد کی متوازن شخصیت پر ہی ہوتاہے۔ بعض اوقات ڈیوٹی کو سرانجام دیتے ہوئے ایسے حالات پیدا ہوجاتے ہیں کہ عسکری سپاہ کو لگاتار کٹھن کام کرنا پڑتاہے۔ تھکاوٹ اور Exhaustion سے بدن چور ہوجاتاہے مگر عسکری سپاہ اپنا فرض نبھانے میں مشغول ہوتی ہے۔ عسکری قائدین اپنی سپاہ کے ساتھ مشکل حالات کا سامنا کرتے ہوئے اپنی ڈیوٹی نبھارہے ہوتے ہیں جن کو دیکھ کر سپاہ کا حوصلہ بلندہوتاہے اور اس طرح قائد کا اعلیٰ کردار اور پیشے سے لگن دیکھ کر سپاہ بھی ثابت قدم رہتی ہے شخصیت نشوونما پاتی ہے اور کردار بلندی کی طرف گامزن رہتاہے۔
عسکری زندگی عملی طور پر مصروف اور مہم جوئی کی زندگی ہے جس میں اپنی فیملی سے دور دوسرے علاقوں سے آنے والے لوگوں کے ساتھ سول سوسائٹی کی رنگینیوں سے دور ایک خشک اور تنہائی کی زندگی ہے ۔
عسکری زندگی میں ذاتی تیاری اور ہتھیار کی سنبھال کو اہم سمجھاجاتاہے، ہر فوجی کو ہردم تیار رہنا پڑتاہے اور دماغی طور پر ہوشیار رہنا پڑتاہے، اس لئے فوج میں خطاب کرنے جن کو کاشن دینا بھی کہاجاتاہے بڑے زور دار طریقے سے دیئے جاتے ہیں، روز مرہ کے کاموں میں ایسے الفاظ کا استعمال کیاجاتا ہے جن سے سننے والے کو چٹک اور ہوشیار رہنا پڑتاہے، ملٹری زبان کا استعمال ہی تمام عسکری افراد کو کسی بھی کام یا ٹاسک کو کرنے کے حکم کے انداز میں کیاجاتاہے۔ مقصد یہ ہوتاہے کہ سننے والا خطرے کو سمجھے اور حکم کو خطرے کا الارم سمجھ کر عمل کرے۔ تیاری میں سستی یا کوتاہی برداشت نہیں کی جاتی ہے۔ مثلاًجب ہوشیار بولا جاتا ہے تو سننے والا یا مخاطب شخص یا گروہ یک دم ہوشیار یعنی Attention ہوجاتاہے۔ عسکری احکامات یا مختصر کاشن خطرے کے وقت جلد تیارہونے کےلئے دیئے جاتے ہیں جبکہ نئی سپاہ یا سول لوگوں کو بڑا عجیب لگتاہے کہ یہ کیسے بات چیت کررہے ہیں جو ہرقسم کی تیاری برائے ایکشن پر مبنی ہوتاہے۔ اس طرح فوجی تربیت کے دوران ہر امتحان کی تیاری کو اہمیت دینا سیکھ لیتاہے اور اپنے کام کی تکمیل کےلئے ہمہ وقت دماغی اور جسمانی طور پر تیار رہتا ہے۔نظم وضبط ہرعسکری تنظیم کمانڈر بالخصوص پاک فوج میں مکمل نظم وضبط کی خاص اہمیت ہے، نظم وضبط پاکستانی افواج میں سپاہ کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا ہے۔ اسی نظم وضبط سے عسکری زندگی معاشرے سے الگ تھلگ اور نمایاں ہی نہیں نظر آتی بلکہ باقی تمام معاشرے، سیاسی یا مذہبی عوامل میں سب سے زیادہ موثر تنظیم عسکری صیغے ہی ہوتے ہیں۔ جان چلی جاتی ہے تو چلی جائے لیکن ایک سپاہی یا اس کا قائد اپنے دیے گئے حکم کو بجالانے میں تمام خطرات اور نامساعد حالات کے پیش نظر کوتاہی یا سستی نہیں کر سکتا بلکہ اپنا مشن مکمل کرنے میں لگ جاتا ہے۔ نظم وضبط ہی کی بدولت تباہی اور بربادی کے حالات کا ڈٹ کر مقابلہ کیاجاسکتا ہے۔پاک فوج کو سلام۔