• news

"زندگی کے رنگ"

کائنات کے وجود سے اب تک کی تاریخ کسی نہ کسی حوالہ سے انسانی آنکھ سے گزری ہے۔ کبھی کتاب ۔ کوئی دستاویزی فلم ۔ بزرگان دین کے اقوال ۔ احوال ۔ مختلف ادوار میں کئی طوفان ۔ عذاب آئے ۔ وبائیں پھوٹیں ۔ قومیں ۔ ممالک معدوم ہوئے ۔ تمام کی تفصیل "قرآن حکیم "میں موجود ہے۔ ابھی تک کوئی ایسی بات نظر سے نہیں گزری کہ ایک ہی وقت میں کل کائنات کِسی مرض ۔ آفت کی زد میں آئی ہو ۔ مستند علمائے کرام ہی اِس بابت روشنی ڈال سکتے ہیں ۔ یہ پہلی مرتبہ ہے کہ ایک ہی وقت میں کرہ ارض وبا کی لپیٹ میں آگیاتھا ۔ میں یا آپ نہیں کل دنیا نے وبا کا سامنا کیا۔ بات ہے” کرونا“ کی۔صرف پاکستان نہیں پوری دنیا نے ایک ہی وقت میں ہزاروں جانوں کا نقصان اُٹھایا اربوں روپے کا مالی نقصان برداشت کیا ۔ نامی گرامی منڈیاں تنزل کا شکار ہوگئیں لاکھوں لوگ کاروبار اور نوکری سے ہاتھ گنوا بیٹھے ۔بڑے بڑے نام فرش پر آگئے جس کے پاس جو طاقت تھی وہ بے اثر ہوگئی ۔نہ دنیاوی طاقت کام آئی نہ دولت کی ریل پھیل نے کوئی مدد کی۔ آج 2023 ہے ”کرونا“ اب بھی موجود ہے مگر کمزور پر نقصانات آج بھی جاری ہیں ۔خلائی سیاروں کو مسخر کرنے والی اقوام نے گھٹنے ٹیک دئیے ۔ کِسی کے اختیار میں کچھ نہیں ۔ ہم بے بس لاچار ضرور ہیں مگر ہمارے پاس بہت کچھ ہے ۔ یقین کے ساتھ پڑھیں ۔ سارا کھیل یقین پر ہے۔ خیر کی بات کبھی بھی شیطان کی جانب سے نہیں ہوتی ۔" قرآن مجید "شفا ہے۔ حیات ہے۔ نماز مکمل دُعا ۔ پیدائش سے آخرت تک انسانی زندگی کا پورا مستند نقشہ ۔ مسائل کا مدلل حل ۔ سب سے بڑا ناصح۔ ڈاکٹر ۔ جج ۔ دانشور ۔
وبا کے نمود سے پھیلنے تک سب مراحل ہم نے ٹی وی۔ موبائل کے آگے بیٹھ کر دیکھے ۔ ایک ماہ یہی کر کے گزار دیا ۔ مخول اُڑایا ۔ تمسخر بازی کی ۔ پھر بڑھتی شدت نے ہمارے رنگ پھیکے کر دئیے ۔ ہماری زندگی ہلدی رنگ بن گئی ۔ اتنا خوف ۔ تشویش کبھی دیکھی نہ سُنی تھی ۔ اتنی بے بسی ۔ ریڑھی فروش سے ذاتی طیاروں کے مالک لاچار ۔" کرونا "نے سب کو برابر کر دیا ۔ قبر والا ماحول بنا دیا ۔ بادشاہ ہے یا بھکاری ۔ تدفین کا طریقہ ایک ہی ہے۔ تدبیر ضروری مگر بھروسہ کے بغیر زیرو۔
ابھی تک خیر کے سوتے خشک نہیں ہوئے کہ اِس وبا کو مکمل سزا تصور کر لیں ۔ یہ چھوٹی سی تنبیہ ہو سکتی ہے وہ بھی یقینا ہمارے افعال ۔ اعمال کے سبب ۔ ہمارے گھر چاہے دو کمروں کا ہے یا ایک کمرے کا ۔ کِسی کی چھت ۔ کِسی کے صحن۔ کِسی کی منڈیر پر رکھے برتنوں میں چڑیاں ۔ پرندے دانہ چُگنے آتے ہیں ۔ پانی پیتے ہیں ۔ ہر لمحہ نئے سانسوں کی آواز ۔ نومولود بچے ۔ بڑھتی خوشحالی اُمید کے چراغ ہیں ۔ ہم کِسی حد تک مایوس ضرور ہیں مگر" اللہ کریم "ہم پر (ہماری لغزشوں کے باوجود) مہربان ہے۔ مومن کی سرشت میں ہے کہ ہر بات ۔ واقعہ میں خیر کا پہلو تلاش کرے ۔ دریافت کرے۔ بغیر ڈگری کے کوئی جج ۔ وکیل نہیں بن سکتا ۔ اِس طرح (دینی تعلیم کے بغیر) چند حدیثیں یاد کرنے یا آگے بھیجنے سے ہم مفتی ۔ عالم نہیں بن سکتے۔
"رب ذی شان "کے ہاں محنت ۔ ہنر کی قدر زیادہ ہے۔ دولت ۔ اولاد کے انبار پر بیٹھا شخص نہیں جان سکتا کہ اُس کی تقدیر اچھی ہے بعینہ غم ۔ تنگی معاش میں مبتلا انسان کبھی بھی نہیں کہہ سکتا کہ وہ مبتلا آفت ہے ۔ اُس کی تقدید بُری ہے۔ خوشحالی ۔ قلت وسائل ۔ مسکراہٹ ۔ آنسو ۔ سب کی کیفیت ۔ نوعیت کا قطعی علم صرف" اللہ کریم "کے پاس ہے۔ قضا اور تقدیر پر مباحث اور تکرار سے گریز از حد ضروری ہے۔ نچوڑ ۔ ظاہری طور پر جیسی بھی زندگی ہے (ہمارے نزدیک) راضی رہنے کا حکم ہے۔ ہدایت ہے گو ہمارے پاس آفات سے بچاو¾ کا اختیار نہیں پر
 "دُعا" ایسا وسیلہ ہے جو مہنگی ترین دوائی سے زیادہ تیز ترین مفید ہے۔ ناممکن کو ممکن بنانے کا موثر ترین نسخہ ۔ ہمیں چاہیے کہ حفاظتی سامان ۔ دواو¾ں کے ذخائر بنانے کی بجاے پہلے سے ذخیرہ ہوئے ۔ بند" قرآ ن پاک" کو حرز جاں بنالیں ۔ ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے پاس یہ "عطائے ربانی" موجود ہے ۔ اِس وبا سے کروڑوں غیر مسلم اِس کی صداقت ۔ حقانیت مان گئے ۔ ضروری ہے کہ ہم سوشل میڈیا کو بطور معلوماتی آلہ استعمال کریں اور حفاظت کے لیے" اللہ کریم" کی نازل کردہ "کتاب الہٰی "سے جُڑ جائیں ۔ 
قارئین ۔آسمان پر پہنچ پائے لوگ بھی انسانی وجود کی حتمی عمر دریافت نہیں کرسکے ۔ آئیے آج ارادہ کریں حافظ قرآن بننے کا ۔ بے حد آسان طریقہ ہے ۔ مشققت طلب نہیں ۔ ہر شخص معمول بنا لے روزانہ ایک آیت زبانی یاد کرنے کی ۔ نماز میں متعین تلاوت کے معیار پر دہرائی شروع کر دے ۔ ایک وقت یاد کرنے کا ۔ دوسرا دہرانے کا مخصوص کرلیں ۔ عمر یا زیادہ ذہانت کی ضرورت نہیں ۔ دنیا کی ساری قوتیں ۔ وسائل انسانی عزم ۔ ارادہ کے مقابل ریت ہیں ۔" اللہ ۔ تعالیٰ ۔ رحمٰن ۔ رحیم ۔ کریم "کے حکم مبارک پر مطیع ہیں ۔ صرف ہماری نیت کا ہونا ضروری ہے۔ بہت کمالیا ۔ کھا لیا ۔ گھوم پھر لیا۔ اب خود کو پیدائش کے اصل مقصد کی طرف راغب کریں ۔ زندگی کے یہ سب رنگ ہیں ۔ کیسے ہیں صرف مصور کے اختیار میں ہے ۔ حتمی نقشہ آخرت ہے ۔ نام نہیں ۔ کام رہتے ہیں اور اچھا یا بُرا قیامت تک اُسی کے حساب سے نامہ اعمال میں جزا ۔ سزا لکھی جائے گی ۔ جس کنوئیں سے لوگ پانی پیتے رہیں وہ کبھی نہیں سوکھتا ۔ لوگ پانی پینا چھوڑ دیں تو کنواں سوکھ جاتا ہے۔ یہ قدرت کا قانون ہے یہ بڑے راز کی بات ہے۔ 

ای پیپر-دی نیشن