نبیرہ،رَوشن جبیں بابا جعفری بھی خُلد آشیانی
معزز قارئین ! کئی سال سے مَیں، علاّمہ اقبال کے قریبی دوست اور قائداعظم کے ساتھی ، ماہرِ تعلیمات سیّد محمد علی جعفری المعروف بابا جعفری کے یوم پیدائش اور یوم وِصال پر کالم ضرور لکھتا ہُوں ۔ بابا جعفری 25 دسمبر 1866ءکو، بھارت کے صوبہ راجستھان کی ریاست ” بھرت پور “ کے قصبہ ”پہر سر “ میں پیدا ہُوئے اور 16 اپریل 1973ءکو لاہور میں اُن کا وِصال ہُوا ۔ دراصل بابا جعفری صاحب کے ایک نواسے ، ریٹائرڈ بینکر ماہر تعلیمات اور چیئرمین ” محمد علی جعفری ایجوکیشنل سوسائٹی“ سیّد محمد یوسف جعفری سے 1966ءمیں تعارف اور پھر دوستی ہوگئی ۔ جعفری صاحب چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی ” پاکستان پیپلز پارٹی “ کے بانی ¿ رُکن تھے۔ جب 16 دسمبر 1971ءکو پاکستان دولخت ہُوا تو، وہ ہمیشہ کے لئے سیاست سے تائب ہوگئے تھے۔
” اسلامیہ کالج لاہور ! “
تحریک پاکستان میں ” اسلامیہ کالج لاہور “ نے کلیدی کردار ادا کِیا تھا۔ بانی ¿ پاکستان ، قائداعظم محمد علی جناح اِس کالج میں آئے اور آپ نے طلباءسے خطاب بھی کِیا تھا۔ بابا جعفری صاحب اسلامیہ کالج کے پہلے پرنسپل تھے ۔ آپ نے ”آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس“ رنگون (برما) میں ” اسلامیان متحدہ پنجاب “ کی نمائندگی کی تھی۔ خاکسار تحریک کے بانی علاّمہ عنایت اللہ خان المشرقی ،ممتاز ادیب ، شاعر و دانشور خواجہ دِل محمد سمیت کئی دیگر اکابرین کو اسلامیہ کالج لاہور میں بابا جعفری کے شاگرد ہونے پر فخر حاصل رہا ہے ۔ آل انڈیا مسلم لیگ کے نامور راہنما چودھری خلیق اُلزمان نے اپنی کتاب "Pathway to Pakistan"۔ میںبابا جعفری کی قومی خدمات کا خصوصاً ذکر کِیا ہے۔ ”ڈائریکٹر تعلقات ِ عامہ متحدہ پنجاب “ میر نور احمد نے اپنی تالیف ” مارشل لاءسے مارشل لاءتک “ میں لکھا ہے کہ ”سکندر جناح پیکٹ“ ۔ بابا جعفری ہی کی کوششوں کا نتیجہ تھا “ ۔ تحریک پاکستان کے ایک راہنما ( قائداعظم کے قریبی ساتھی ) ملک برکت علی کے سوانح نگار ایم رفیق افضل لکھتے ہیں کہ ” ملک برکت علی ہمیشہ ہی بابا جعفری سے راہنمائی حاصل کِیا کرتے تھے! “۔ 1921ءمیں ایمپریس روڈ لاہور پر نواب محمد علی قزلباش کی قیام گاہ پر ایران کے نامور عالم دین علاّمہ عبدالکریم نجفی زنجانی سے علاّمہ اقبال اور بابا جعفری کی مشترکہ ملاقاتوں کا اُمت ِ مسلمہ میں بہت چرچا رہا۔
” سیّد عبداللہ قلندر!“
سیّد محمد یوسف جعفری سے قُربت بڑھتی گئی تو وہ بتایا کرتے تھے کہ ” ہمارے بزرگان ، سلطان شہاب اُلدّین محمد غوری کے دَور میں اپنے مُورث اعلیٰ سیّد عبداللہ قلندر کے ہمراہ ہندوستان آئے اور اُنہوں نے راجستھان کے شہر ” بیانہ “ میں سکونت اختیار کی تھی !“ تو مَیں بھی صدیوں سے اجمیر میں آباد میرے آباﺅ اجداد کے بارے بتایا کرتا تھا کہ ”اُنہوں نے خواجہ غریب نواز، نائب رسول فی الہند حضرت مُعین اُلدّین چشتی کے دست ِ مبارک پر اسلام قبول کِیا تھا ! “بابا جعفری کے چاروں بیٹوں سیّد حسن جعفری ،ایڈووکیٹ، میجر سیّد موسیٰ جعفری ،نامور شاعر اور سفارتکار سیّد محمد جعفری اور بیورو کریٹ سیّد جعفر جعفری اور دو بیٹیوں سکینہ جعفری اور فاطمہ جعفری کی اولاد نے بھی اپنے بزرگوں کی طرح بہت نام پیدا کِیا ہے۔
” سیّد محمد جعفری!“
معزز قارئین! یوں تو ،مجھے بابا جعفری صاحب کی آل اولاد (اپنے بزرگوں اور ہم عُمر) اعلیٰ تعلیم یافتہ رشتہ داروں "Serving" اور "Retired" ۔ لیفٹیننٹ اور جرنلز ، بریگیڈئیرز، میجرز ، ریٹائرڈ جج صاحبان ، سینئر وکلاء( خواتین و حضرات) ڈاکٹرز اور پروفیسرز سے ملاقاتوں سے میری بہت عزّت افزائی ہُوئی لیکن، جب مَیں سیّد محمد جعفری صاحب سے ملتا تو (شاعر ہونے کے ناتے )مَیں اُن کی متابعت کرنے لگا تھا، ( خاص طور پر مزاحیہ سیاسی شاعری میں )۔ سیّد محمد یوسف جعفری کے چھوٹے بھائی کرنل (ر) محمد ایوب جعفری اور بہنوئی سیّد علیم حیدر زیدی اور اُن کے دونوں بیٹوں ( Serving) بریگیڈئیر احسن رضا زیدی اور میجر نیئر عباس زیدی سے جب بھی مَیں ملا تو، وہ سب مجھے بہت ہی اپنے اپنے لگے ۔
”بابا جعفری سے ملاقات !“
بابا جعفری صاحب کا وِصال 16 اپریل 1973ءکو ہُوا۔ اُس سے ڈیڑھ سال پہلے سیّد محمد یوسف جعفری اُن سے ملوانے کیلئے مجھے اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ سفید ریش اور نُورانی چہرے والے بابا جعفری نے ، ایک دلفریب مسکراہٹ سے میرا استقبال کِیا۔ وہ بڑے دھیمے اور مو¿ثر انداز میں مجھے اپنے بزرگوں کی داستان سُنا رہے تھے اور مَیں سوچ رہا تھا کہ ” کیا کبھی میرے بزرگوں کی بابا جعفری کے مُورث اعلیٰ سیّد عبداللہ قلندر سے ملاقات ہُوئی ہوگی؟“۔سیّد محمد یوسف جعفری اور اُنکے چھوٹے بھائی کرنل (ر) محمد ایوب جعفری نے مجھے تحریک پاکستان کے دو نامور (گولڈ میڈلسٹ) کارکنان جسٹس سیّد جمیل حسین رضوی اور ملک حامد سرفراز سے تعارف کرایا۔ملک حامد سرفراز تو، 1977ءمیں عام انتخابات سے پہلے ائیر مارشل (ر) محمد اصغر خان کو میرے دفتر لے آئے تھے ، پھر میری جسٹس سیّد جمیل حسین رضوی کے صاحبزادے ، سینئر ایڈووکیٹ سپریم کورٹ ، سیّد ضیاءحیدر رضوی سے بھی دوستی کرادی۔
”بیرون پاکستان اولاد بابا جعفری !“
معزز قارئین ! بابا جعفری صاحب کی اولاد نے نہ صرف پاکستان بلکہ دُنیا کے بڑے بڑے ملکوں میں علاّمہ اقبال اور قائداعظم کے حوالے سے نظریہ¿ پاکستان کو فروغ دِیا ہے ، مَیں جب بھی کبھی برطانیہ ، امریکہ ، کینیڈا اور کسی دوسرے ملک میں صدور و وزرائے اعظم کی میڈیا ٹیم کے رُکن کی حیثیت سے یا اپنے بیٹوں اور بیٹیوں سے ملاقات کیلئے کہیں گیا تو مَیں اپنے دوست سیّد محمد یوسف جعفری کے حوالے وساطت سے بابا جعفری کی آل اولاد سے ملاقات ہوتی تو، مَیں اُسے ثواب سمجھتا۔
” پروفیسر سیّد علی جعفری!“
کبھی کبھی مَیں اپنے کالم میں ”روشن جبیں “ مرنے والوں کے لئے علاّمہ اقبال کا ایک شعر شامل کرتا ہُوں۔ اب بھی شامل کروں گا ۔ اب کیا کِیا جائے کہ ” "Cancer"کے مرض میں مبتلا ہو کر فرزند ِ سیّد محمد جعفری اور نبیرہ¿ بابا جعفری ،پروفیسر، سیّد علی جعفری بھی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے شہر "Boston" کے قبرستان میں روشن جبیں کہلائیں گے ؟ اگرچہ سیّد علی جعفری شاعر نہیں تھے لیکن اُنہیں اُردو اور فارسی شاعری سے بہت لگاﺅ تھا اور وہ آخر دم تک شعر و سخن کی محفلوں اور حلقوں میں بہت متحرک رہے ۔ بابا جعفری کے قریبی دوست علاّمہ اقبال نے ” والدہ¿ مرحومہ کی یاد میں“ کے عنوان سے اپنی نظم میں ایک شعر کہا تھا ابھی پیش کرتا ہُوں ۔
” مرنے والوں کی جبیں روشن ہے اس ظلمات میں!
جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں!
....O....