جمعة المبارک‘ 26 ذیقعد‘ 1444ھ16 جون 2023ئ
پاکستانی بیف کو چینی مارکیٹ تک رسائی دیدی گئی
حکومت نے جو فیصلہ کیا ہو گا سوچ سمجھ کر ہی کیا ہو گا۔ اس سے ملک کو زرمبادلہ حاصل ہو سکتا ہے۔ مگر کیا اس کے فوائد اور نقصانات کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے یا نہیں۔ کیا فیصلہ ساز نہیں جانتے کہ ہمارے تاجر حضرات جو سب بڑے پارسا ہیں۔ صرف اس لیے یورپ،امریکہ اور دنیا کے دیگر ممالک میں بدنام ہیں کہ وہ مارکیٹ تک رسائی کے بعد ناقص اشیا اعلیٰ کوالٹی کی اشیاءمیں مکس کر فراہم کرتے ہیں۔ جس وجہ سے کی ممالک میں ہماری زرعی اجناس اور خوراک کے علاوہ پھلوں پر بھی پابندی ہے اور تو اور ملبوسات کے میدان میں یہی حال ہے۔ کاٹن ہو یا لیدر مصنوعات میں بھی دو نمبری کی جاتی ہے۔ اب اگر چین نے بیف کی اجازت دی ہے تو یاد رکھیں اگر کسی مہربان تاجر کی وجہ سے بیمار ، لاغر یا غیر صحت مند گوشت چین پہنچا تو پھر کسی کی خیر نہ ہو گی اور سب کو بلیک لسٹ کر کے چین پاکستانی بیف پر پابندی لگا دے گا۔
چین ہمارا دوست ہے مگر اپنے عوام کا محافظ اور مائی باپ بھی ہے۔ اس سے لاکھ درجہ بہتر تھا کہ گدھوں کی چینی مارکیٹ تک رسائی یقینی بنائی جاتی اور بیف سے زیادہ بھاری زرمبادلہ حاصل ہوتا۔ مگر کیا کریں ہمارے ہاں گدھوں کے ہمدرد بہت ہیں جو خود بھی اپنے آپ کو گدھوں کی صف میں شمار کرنے پر فخر محسوس کرتے ہیں کیونکہ فخر کی ف اڑائی جائے تو آخر میں خر ہی بچتا ہے اس کے معنیٰ ہم سب کو معلوم ہیں۔ اس کے علاوہ اس فیصلے سے ملک میں بیف کی بڑھتی ہوئی قیمتوں میں بھی خطرناک حد تک اضافہ ہو سکتا ہے۔ مٹن ، بیف اور چکن پہلے ہی عوام کے پہنچ سے دور ہو چکے ہیں۔
اگر بیف کی بڑی مقدار چین جانے لگی تو یہاں کے لوگ کیا کریں گے کیا کھائیں گے۔ بیف مہنگا ہونے کی وجہ سے لوگ تو اس کے کھانے سے محروم ہو جائیں گے۔ پھر تو شاید عید قرباں پر ہی کوئی ایک آدھی بوٹی کسی کو نصیب ہو گی۔ اب یا تو حکومت گائے بیل بھینس کے بڑے بڑے فارم کھولے جہاں سے صحت مند جانوروں کا گوشت چین کو سپلائی کیا جائے اور عام بیمار ، لاغر جانوروں کا گوشت پہلے کی طرح پاکستانیوں کے استعمال کے لیے رہنے دیا جائے تاکہ وہ بھی کبھی کبھی اسے چکھ لیا کریں۔
٭٭٭٭٭
اداکار جونی ڈیپ نے سابقہ بیوی سے ملنے والے ایک مین ڈالر خیرات کر دیئے
نجانے کیوں بعض لوگ واقعی بڑے دل والے ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک رشتوں کی اہمیت ہوتی ہے روپے یسے کی نہیں۔ اب ہالی وڈ کے اداکار جونی ڈیپ کو ہی دیکھ لیں جو ایک ورسٹائل اداکار ہیں۔ ان کا یہ فیصلہ بھی ورسٹائل ہی رہا۔ ان کی اپنی بیگم سے نہیں بنی۔ اگرچہ دنیا میں کروڑوں لوگوں کی بیگمات سے نہیں بنتی مگر وہ طلاق تک نہیں جاتے۔ خاندان، عزت، معاشرہ اولاد ان کے پاﺅں میں پڑی اس زنجیر کو بچائے رکھتے ہیں۔ یہ کوئی انہونی اور بری بات نہیں گھر اجاڑنے کی بجائے گھر بچانا سب سے اہم ہوتا ہے یورپ میں اگرچہ ایسے کوئی زنجیر نہیں ہوتی مگر وہاں طلاق کی صورت میں چاہے مرد طلاق دے یا عورت ، طلاق دینے والے کو اپنی آمدنی اور جائیداد کا بڑا حصہ دوسرے کو دینا ہوتا ہے یوں یہ ایک مشکل امر ہوتا ہے۔ جبھی تو وہاں شادی کی بجائے باہمی طور پر اکٹھا رہا جاتا ہے اور اسے ایک دوسرے کو سمجھنے ایک دوسرے کو جاننے کا نام دیا جاتا ہے چاہے اس سمجھنے اور جاننے کے دوران دو یا تین بچے ہی پیدا کیوں نہ ہوں۔
اگر بات بنی تو ٹھیک ہے ورنہ آسانی سے بنا کسی ہرجانے کے جرمانے کے راہیں جدا کر لیتے ہیں۔ اس قباحت نے یورپی معاشرے کو اندرونی طور پر کھوکھلا کر دیا ہے۔
ماں باپ بن کر کوئی اپنی ذمہ داری اٹھانے کو تیار نہیں۔ اس سے سب بچتے ہیں ہاں اکٹھے رہنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔ مرد اپنا کماتا ہے عورت اپنا کماتی ہے۔ بس شب بسری کے نام پر اکٹھا رہتے ہیں۔ بہرحال بات کہاں سے کہاں نکل گئی۔ اب اداکار جونی ڈیپ سے ان کی بیوی نے علیحدگی اختیار تو قانون کے مطابق اسے ایک ملین ڈالر کی خطیر رقم جونی ڈیپ کو دینا پڑی۔ اب یہ رقم جونی نے پانچ خیراتی اداروں کے نام کر دی اور کہا کہ ہر ادارے کو 5 لاکھ ڈالر کی رقم دی جائے گی۔ یوں بہت سے فلاحی اداروں کا بھلا ہوگا۔
٭٭٭٭٭
تحریک انصاف کی حالت پتلی،رہنما چھوڑ گئے، کارکن تتر بتر ہوگئے
ان تمام باتوں کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ عمران خان المعروف قاسم کے ابو کا سحر ابھی تک بہت سے ذہنوں کو جکڑے ہوئے ہے۔ان کا ووٹ بنک بھی ہے۔ کیونکہ بے شمار منچلے آج بھی اسے مرشد تسلیم کرکے اس کے ہر اشارے پر سر تسلیم خم کرنے کو تیار ملیں گے۔ ان میں سے بعض تو حسن بن صباح کے حیششین والوں کی طرح مرنے مارنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ یہ تو اس کی بدقسمتی ہے کہ انہوں نے غلط جگہ ماتھا ٹکرا دیا۔ اب اس کی سزا تو انہیں بھگتنا ہوگی۔
اب وہ وقت نہیں کہ ہم کسی شیخ مجیب یا الطاف حسین کو پنپنے کا موقع دیں۔ ہم بہت زخم صبر اور مروت کے تحت کھا چکے ہیں۔ اب مزید سکت نہیں اگر کوئی ہمارے گھر کی دیواروں کو ہی گرانے کی کوشش کرتا ہے تو اسے سبق سکھانا ضروری ہے ہاں اگر الیکشن میں کوئی عوام کی تائید سے پرامن جمہوری انداز میں کامیابی حاصل کرتا ہے۔ تو آ کر حکومت سنبھالے۔اس پر کوئی اعتراض نہیں کرے گا۔
اگر کوئی دھونس دھاندلی سے تختہ الٹنے کی تڑیاں لگا کر ایسا کرنا چاہتا ہے تو یہ غلط ہے اسی غلط پالیس کی وجہ سے آج تحریک انصاف جیسی جماعت کا یہ حال ہوا ہے جو نوجوانوں کے نزدیک تبدیلی لا سکتی تھی۔ مگر اس وقت خود اس کی حالت پتلی ہے۔ بڑے بڑے رہنما جماعت چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ کارکن تتر بتر ہو چکے ہیں کیونکہ ان کا کوئی ولی وارث نہیں رہا سب اپنی اپنی گردن بچانے کے چکروں میں پڑے ہیں۔
پارٹی کا چیئرمین جو پہل اوئے توئے سے نیچے کی بات نہیں کرتا تھا۔ میں سب کو اڑا دوں گا سے کم پر راضی نہ ہوتا تھا۔ اب گلہ شکوہ کر رہا ہے کہ کوئی اس سے بات پر راضی نہیں منہ نہیں لگا رہا۔ عوام بھی 9 مئی کے سانحے کے بعد بری طرح پریشان ہیں وہ تبدیلی تو چاہتے تھے مگر اپنے محافظوں سے ٹکر لینے انہیں اندرون و بیرون ملک بدنام کرنے کی کسی سازش کا حصہ بننے کے حق میں نہ پہلے تھے نہ اب ہیں نہ آیندہ ہوں گے۔