"ہیجان پیدا کرنے والا کارخانہ"
ابھی تک آپ یقینا دریافت کرچکے ہوں گے کہ گزشتہ کئی دنوں سے میں وطن عزیز کے سیاسی اور اقتصادی معاملات پر لکھنے سے گریز کی صلاحیت حاصل کرنا چاہ رہا ہوں۔بنیادی وجہ اس کی یہ ہے کہ اس کالم میں بہت غوروغوض کے بعد اٹھائے سوالات کے تسلی بخش جوابات ہی نہیں ملتے۔مثال کے طورپر دل دہلا دینے والا سوال یہ بھی ہے کہ پاکستان ”دیوالیہ“ کی جانب بڑھ رہا ہے یا نہیں۔دیوالیہ کے امکان کو ”دل دہلا دینے والا “ثابت کرنے کے لئے میں نے روزمرہّ زندگی سے جڑے چند ایسے معاملات کا ذکر بھی کیا تھا جنہیں ہم انگریزی محاورے کے مطابق Taken for Grantedلیتے ہیں۔اس تناظر میں کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ کی ”اوقات“ ان دنوں کے لبنان کے تناظر میں بیان کردی تھی۔مجھے گماں تھا کہ ایسے حقائق کا ذکر قارئین کی اکثریت کو دیوالیہ کے امکانات طے کرنے کو ا±کسائے گا۔ایسا مگر ہوا نہیں۔جب وہ کالم سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوگیا تو اندھی نفرت وعقیدت سے مغلوب ہوئے فریقین نے بناکسی دلیل کے دیوالیہ کے امکان کو حقارت سے رد کر دیا اس کی تصدیق کرتے رہے۔میں نے اس رویے سے پریشان ہوکر سابق امریکی صدر پر اِن دنوں آئے ب±رے دنوں کی بابت ہوسِ چسکہ میں تھوڑی تحقیق کے بعد ایک کالم لکھ دیا۔وہ سوشل میڈیا پر پوسٹ ہوا تو ”رونق “ لگ گئی۔
ہفتے کے پانچ دن چھپنے والا کالم مگر ہر روز ”رونق“ لگا نہیں سکتا۔پھکڑپن مجھے یقینا پسند ہے۔ اس کے باوجود ”دانشوری“ کا بھرم بھی برقرار رکھنا چاہتا ہوں۔اسی باعث کچھ ایسے موضوعات کی تلاش میں ہوں جو ملکی مسائل کو وقتی طورپر نظرانداز کرتے ہوئے بھی قارئین کو پڑھنے کے قابل محسوس ہوں۔مطلوبہ موضوعات کی تلاش میں چند کتابیں جمع کی ہیں۔ ان میں سے ان دنوں میری توجہ 2022ءمیں شائع ہوئی ایک کتاب نے اپنی جانب مرکوز کرلی ہے۔مذکورہ کتاب کا عنوان ہے Machine" "TheChaos ۔اس کا ترجمہ غالباََ ”ہیجان پیدا کرنے والا کارخانہ“ ہوسکتا ہے۔” ابتری کا سامان“بھی شاید مناسب لگے۔بہرحال لسانی الجھنوں میں وقت ضائع کئے بغیر آگے بڑھتے ہوئے بتانا ہوگا کہ اسے نیویارک ٹائمز کے ایک معروف کالم نگار میکس فشر ( Fisher Max)نے کئی برسوں تک پھیلی تحقیق کے بعد لکھا ہے۔
اپنی تحقیق کے ذریعے میکس فشر نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے کہ ٹویٹر،فیس بک،یوٹیوب، انسٹا گرام کس انداز میں صارفین کو ایسے ہیجان میں مبتلا کرتے ہیں جو بالآخر حقیقی زندگی میں پرتشدد واقعات کا سبب ہوا۔اس کی تحقیق مصر ہے کہ مذکورہ پلیٹ فارم کے نتیجے میں دنیاکے کئی ممالک میں جو پرتشددواقعات برپا ہوئے وہ ”اچانک“ نہیں تھے۔ فیس بک جیسے پلیٹ فارم متعارف کروانے والی کمپنیاں بخوبی جانتی تھیں کہ وہ انسانی جبلت میں نسلوں سے موجود ”نفرت“ کے جذبات کو ابھارتے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی انہوں نے نہایت سفاکی سے ایسے طریقے ایجاد کئے جو مثال کے طورپر فیس بک پر کسی ایک گروہ کے خلاف نفرت کی آگ بھڑکاتی وڈیوز کو متعصب افراد کی زیادہ سے زیادہ تعداد تک ازخود پہنچ جانا یقینی بنائے۔
میکس فشر نے برما اور سری لنکا میں سوشل میڈیا کی بدولت وہاں کی اقلیتوں کے خلاف ابھاری وحشیانہ نفرت کو ٹھوس شواہد سے عیاں کیا ہے۔ روہنگیامسلمان اس کا برما میں کئی برسوں تک شکار رہے۔سری لنکا میں اصل نشانہ تامل اقلیت تھی۔انہیں ”زیر“ کرلینے کے بعد سری لنکا کی بدھ اکثریت وہاں موجود مسیحی اور بالآخر مسلمان برادریوں کے خلاف وحشیانہ نفرت پھیلانے میں مصروف ہوگئی۔
میکس فشر سرمایہ دارانہ نظام کی حتمی علامت اور محافظ یعنی امریکہ کا باسی ہے۔ اس کے باوجود یہ اصرار کرنے کو مجبور ہوا کہ سوشل میڈیا کے ذریعے بھاری بھر کم منافع کمانے والی Techکمپنیاں ”آزادی اظہار“ کو اپنی منافع خوری کا جواز بناتی ہیں۔منافع کی ہوس تاہم انہیں ان تباہ کن اثرات سے قطعاََ غافل بنائے ہوئے ہے جو مختلف سوشل میڈیا ایپس دنیا بھر میں پھیلارہی ہیں۔بذات خود ایک صحافی اور ”آزادی اظہار“ کا شدید حامی ہوتے ہوئے بھی طویل تحقیق کے بعد میکس فشر اس نتیجے پر پہنچا ہے کہ امریکہ اور دیگر ریاستوں کو اپنے معاشروں کو نفرت انگیز ہیجان کے پھیلاﺅ سے اگر واقعتا بچانا ہے تو سوشل میڈیا چلانے والی کمپنیوں اور ان کے متعارف کردہ پلیٹ فارموں کو کڑے قواعد وضوابط کے تابع بنانا ہوگا۔
میرا نہیں خیال کہ طویل تحقیق کے بعد میکس فشر کے دل میں اجاگر ہوئی مذکورہ خواہش کی عملی اعتبار سے تکمیل ہوپائے گی۔اس کی کتاب چھپنے کے بعد بلکہ اب "AI"یعنی Artificial Intelligenceکا بھی تواتر سے ذکر ہونا شروع ہوگیا ہے۔ہمارے ہاں "AI"کو ”مصنوعی ذہانت“ پکارا جاتا ہے۔مجھے یہ ترجمہ قطعی غیر موذوں محسوس ہوتا ہے۔کیونکہ "AI"مصنوعی نہیں کمپیوٹر کے نظام کی بدولت متعارف کروائی ”ذہانت“ ہے۔ یہ ”ذہانت“ انسان کی جبلت میں فطری طورپر موجود چند صلاحیتوں کے خاتمے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ انسانیت کے لئے اس کے ممکنہ اثرات اتنے تباہ کن ہوسکتے ہیں کہ گوگل کے لئے اسے دریافت کرنے والے ایک ذہین وفطین شخص نے اپنے ادارے سے مستعفی ہوکر توبہ تائب کا راستہ اختیار کرلیا ہے۔”اے آئی“ ( AI)کی ”مثبت“ اہمیت بھی ہے۔ اس کے ذریعے مختلف موذی اور مہلک امراض سے مثال کے طورپر شفایابی کے ذرائع گھر بیٹھے ہی میسر ہوسکتے ہیں۔ ”مثبت امکانات“ کا ذکر کرتے ہوئے اگرچہ ہمیں یاد رکھنا ہوگا کہ جب فیس بک وغیرہ متعارف ہوئے تھے تو ہم سب کو گماں تھا کہ یہ دنیا بھر میں پھیلے افراد کو سکیڑکر ”عالمی گاﺅں “ کے باسی بنادیں گے۔ ایسا مگر ہوا نہیں۔برما اور سری لنکا کے شہری دیگر ممالک سے دوستیاں اور محبت بڑھانے کے بجائے اپنے ہی ملک میں موجود تامل ،مسیحی اور مسلمان شہریوں کی جان کے درپے ہونا شروع ہوگئے۔
سوشل میڈیا کے ذریعے نفرت کو بھڑکاتے حقائق کا ذکر کرتی کتاب پڑھتے ہوئے میں پاکستان کے سوشل میڈیا پر چھڑی بحثوں پر بھی نگاہ ڈالتا رہا ہوں۔وہاں کئی ایسی پوسٹس دیکھنے کو ملیں جو میکس فشر کے دریافت کردہ نتائج کو درست ثابت کرتی محسوس ہوئیں۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ پریشان میں اس بحث سے ہوا جو کراچی کے میئر کے انتخاب کے دوران سوشل میڈیا پر نمایاں رہی۔ جماعت اسلامی کے حامی پیپلز پارٹی کے جیالوں کو یاد دلاتے رہے کہ ان کے قائد ذوالفقار علی بھٹو نے 1970کے انتخاب کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو ملی اکثریت کو ”تسلیم“ نہیں کیا تھا۔اس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہوگیا۔
جماعت اسلامی نے ”داغِ دل“ یاد دلانا شروع کئے تو پیپلز پارٹی کے جیالوں نے ”البدرالشمس“ کے طعنے دینا شروع کردئے۔ آج کی نسل کو شاید علم نہیں ہوگا کہ مبینہ طورپر جماعت اسلامی کی ”سرپرستی“ میں بنائے ان مسلح گروہوں نے ”غدار“ ٹھہرائے بنگالیوں کو ”محب وطن“ بنانے کے لئے بے شمار پرتشدد وارداتوں کو بھڑکایا تھا۔
1970ءکے انتخابات کے بعد جو ہوا اس سے میں غافل نہیں۔ وہ مگر ”ماضی“ ہے۔اسے بھلانا ہی پڑے گا۔سوال اٹھتا ہے کہ v 2023ءمیں کراچی کو کیا درکار ہے۔فرض کیا پیپلز پارٹی کا نامزد کردہ میئر اپنی ہی جماعت کی صوبائی اکثریت ہوتے ہوئے بھی اس شہر کے مسائل کو کسی حد تک حل نہ کرپایا تو اپنی ہی جماعت کو کراچی کے لئے ناقابل قبول بنانے میں کلیدی کردار ادا کرے گا۔
فرض کیا پیپلز پارٹی نے واقعتا”دھاندلی“ سے اپنا میئر”مسلط“ کردیا ہے تو تھوڑا صبر کرلیں۔ نئے انتخابات کی خاطر وفاقی اور سندھ حکومت تحلیل ہوجائیں تو دونوں جگہ ”عبوری حکومتیں“ قائم ہوں گی۔ جماعت اسلامی کے شکست خوردہ حافظ نعیم اس دوران تحریک انصاف کی حمایت سے مرتضیٰ وہاب صدیقی کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے فارغ کرسکتے ہیں۔ اس وقت کا انتظار کرنے کے بجائے ماضی کے پھپھولوں سے نفرت کی آگ بھڑکانا کسی بھی فریق کے کام نہیں آئے گا۔