• news

کارگل کے نفوسِ قدسیہ کو سلام

9 مئی کو تحریک انصاف کے بلوائیوں نے کارگل کے ایک عظیم ہیروکیپٹن کرنل شیر خان نشان حیدر کے مجسمے کا پہلے تو سر قلم کیا اور پھر ان کے باقی جسم پر ہتھوڑے برسا کر اسے چکنا چور کردیا اور پھر پٹرول چھڑک کر اس ملبے کو آگ لگا دی۔1999ء کی جنگ میں پاکستان کا ازلی دشمن بھارت کیپٹن کرنل شیر خان کا سر قلم کرنے کی جرأت نہیں کر سکا تھا اور اس نے کرنل شیر خان کی شجاعت اور بے پناہ دلیری کی شہادت دیتے ہوئے شہید کا جسم پورے فوجی اعزاز کے ساتھ پاکستانی فوج کے سپرد کیا تھا۔ اس سانحے نے میرے ذہن میں کارگل کے شہیدوں اور مجاہدوں کا تذکرہ تازہ کر دیا۔ وہ کیسے ملکوتی روشن چہرے ہوں گے جو ہزاروں فٹ بلندی پر برفانی چوٹیوں پر ڈٹے رہے تھے۔ بھارت نے پیدل فوج، توپ خانے اور فضائیہ کے ذریعے ان منجمد چوٹیوں کو ہلاکر رکھ دیا، پگھلا کررکھ دیا لیکن گوشت پوست کے باجبروت انسان آہنی عزم کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار ثابت ہوئے۔ ان کے نام سے کوئی آگاہ نہیں لیکن وہ سب کے سب جہاد کے نشے سے سرشار ہیں، دشمن ان پر موت برسا رہا ہے لیکن موت ان مجاہدوں کے نورانی پیکر کو چھونے کی سکت نہیں رکھتی۔ 
در اس سے کارگل تک، بٹالک سے ترتوک تک جہاں خاموشی بھی منجمد ہو جاتی ہے، جہاد اسلامی کے یہ عظیم ہیرو شجاعت اور قربانی کی نئی داستانیں رقم کر رہے تھے، ان کے پاک جسموں سے بہنے والا خون سالہا سال سے جمی ہوئی برف کو گرما رہا تھا اور یہ تپش اب ہمیں اپنے دل کے قریب محسوس ہو رہی تھی۔ یہ مجاہدین اپنے کسی ذاتی مفاد کی خاطر ان بلندیوں پر مورچہ زن نہیں ہوئے۔ انھیں سری نگر فتح کرکے پلاٹوں کی الاٹمنٹ سے غرض نہیں، نہ ان کے باپ کو کسی نے مارا تھا کہ وہ انتقام پر اتر آئیں لیکن پچھلے دس سال کے عرصے میں بھارت کی چھے لاکھ سے زائد غاصب فوج نے جس بہیمانہ طریقے سے ستر ہزار کشمیری مسلمانوں کا خون کیا، عفت مآب کشمیری خواتین کی آبروریزی کی، گھروں اور کھیتوں کو جلایا اور آزادی کی تحریک کو راکھ کرنے کی کوشش کی، اس کے بعد رتی بھر اسلامی حمیت و غیرت کا مالک کوئی پاکستانی بھی ہمسائے کے طور پر چین سے نہیں بیٹھ سکتا۔ کارگل کے مٹھی بھر مجاہدین جان ہتھیلی پر رکھ کر ایک فیصلہ کن عزم کے ساتھ بھارتی فوج سے ٹکرا گئے۔ دشمن ہر روز دعوے کرتا تھاکہ وہ ان چوٹیوں کو خالی کرانے میں کامیاب ہو گیا لیکن ہر آنے والا دن بھارتی فوج کے شرمناک نقصانات کو الم نشرح کر دیتا تھا۔
1971ء کی سترہ روز جنگ میں بھارتی فوج کے صرف 83 فوجی مرے تھے اور 185 زخمی ہوئے تھے لیکن کارگل دراس سیکٹر میں ایک ماہ کی لڑائی نے بھارت کے اعداد و شمار کے مطابق 207 لاشوں کا تحفہ دیا تھا اور 389 فوجی زخموں سے چور پڑے تھے۔ لداخ کا شہر لیہہ ’تابوت ساز شہر‘ کے نام سے مشہور ہو گیا تھا۔ بھارتی فوجیوں کے لیے تابوت تیار کرنے کے لیے اس شہر میں لکڑی ختم ہو گئی تھی اور اب بو فورس توپوں کے گولوں کے ڈبوں کی ’پھٹیوں‘ سے تابوت تیار کرنے کی نوبت آ گئی تھی۔کشمیر کی کنٹرول لائن پر دراس، کارگل اور حاجی پیر کے علاقوں کا تذکرہ گزشتہ جنگوں میں دور افتادہ، غیر اہم علاقوں کی حیثیت سے ہوتا رہا تھا۔ 65ء میں یہ علاقے بھارت کے قبضے میں چلے گئے، معاہدہ تاشقند ہوا تو دونوں ملکوں کی افواج بین الاقوامی سرحد اور سیز فائر لائن تک واپس جانے کی پابند قرار دی گئیں۔ سو یہ علاقے دوبارہ پاکستان کی تحویل میں آ گئے۔ 71ء میں شملہ معاہدہ کے نتیجے میں سیز فائر لائن کا تقدس ختم کر دیا گیا اور کشمیر میں جو جہاں بیٹھا تھا، اسے کنٹرول لائن کا نام دیدیا گیا، اس طرح کارگل کا علاقہ بھارت نے ہتھیا لیا لیکن اس علاقے کی بلندی کسی بھی فوج کی دفاعی صلاحیت کو مفلوج کر دیتی تھی۔
دراس شہر دس ہزار فٹ کی بلندی پر ہے، نیشنل ہائی وے الفاون پر یہ شہر ایک قصبہ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا اور سری نگر سے لداخ کے شہر لیہہ جانے والے چائے اور سگریٹ کے لیے یہاں دم بھر کو رکتے ہیں، اس شہر اور گردو نواح کی کل آبادی دس ہزار نفوس پر مشتمل ہے جو سردیوں میں منفی 60 سنٹی گریڈ کے درجہ حرارت میں گھروں میں دبک جانے پر مجبور ہو جاتی تھی۔ اس شہر کے بیچوں بیچ گزرنے والی نیشنل ہائی وے الفاون سیاچن میں بھارتی فوج کی سپلائی لائن کے کام آتی ہے۔ مئی کے پہلے ہفتے میں بھارتی فوج اور مجاہدین کی پہلی مڈھ بھیڑ ہوئی، اس کے بعد سے مجاہدین نے دراس شہر کے مقابل بارہ ہزار فٹ بلند مورچوں سے بھارت کی فوجی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے نیشنل ہائی وے الفاون کو گولہ باری کا نشانہ بنانا شروع کیاتھا۔ مئی کے آخر تک جھڑپوں میں تیزی آگئی۔
بھارت نے واویلاکیا کہ آٹھ نو سو مجاہدین ان کے علاقے میں گھس آئے ہیں جنھیں ’ایک دو روز‘ کے اندر نکال باہر کیا جائے گا، پھر کہا گیاکہ چند ہفتوں کی بات ہے۔ بھارت کی پروپیگنڈا مشینری اپنے عوام کو ذہنی طور پر ایک طویل جنگ کے لیے تیار کر رہی تھی لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ دھمکیاں بھی آ رہی تھیں کہ لائن آف کنٹرول کو کہیں سے بھی پار کیا جا سکتا ہے۔ اب حالت یہ تھی کہ سمبا، اکھنور، پونچھ، کپواڑہ کے روایتی سیکٹروں سے لے کر دراس کارگل، بٹالک، چھوربٹلا، ترتوک اور سیاچن تک جگہ جگہ محاذ کھل گئے تھے، مئی کے وسط میں اس علاقے میں بھارت کی 20 ہزار فوج موجود تھی، بعد میں 35 ہزار کا اضافہ کر دیا گیا تھا۔ گویا آٹھ نو سو مجاہدین سے نبرد آزما ہونے کے لیے پچاس ہزار سے زائد بھارتی فوج بوفورس توپوں، ملٹی بیرل گنوں، مارٹر توپوں، فیلڈ گنوں، ہیلی کاپٹروں، مگ اور میراج طیاروں سے لیس کھڑی تھی۔ 
 دن کی روشنی میں بلندیوں پر حملہ آور ہونے کے نتیجے میں بھارت کے فوجی، بطخوں کی طرح نشانہ بن رہے تھے۔ اس لیے اب رات کی تاریکی میں ہلہ بولا جاتا تھا۔ مجاہدین کے ٹھکانوں کی تصویر کشی کے لیے دن کو فضائیہ کے طیارے استعمال ہوتے ہیں ۔مگ اور میراج طیاروں میں یہ فنی مہارت موجود ہے کہ وہ ریڈار کو جام کر دیتے ہیں، لیزر گائیڈڈ بموں کو اندھا کر دیتے ہیں، بھارتی طیاروں نے زہریلی گیس کے میزائل بھی استعمال کیے تھے اور نیپام بم چلانے کا شوق بھی پورا کر لیا تھا۔ بھارت کا دعویٰ تھا کہ اس کے پاس کارگل سیکٹر میں سات ماہ کے گولہ بارود کا ذخیرہ ہے۔ مغربی بنگال کی اسلحہ ساز فیکٹری کی پیداوار میں 500 گنا اضافہ کر دیا گیا تھا۔ بھارت پر ایک جنگی جنون طاری تھا۔ ہر روز نئی دھمکیاں سننے کو مل رہی تھیںاور گوشت پوست کے چند سو نفوس قدسیہ کارگل کی بلندیوں پر مورچہ زن تھے۔ ان کے پائے استقلال میں کوئی لغزش نہیں، ان کے عزائم ان چوٹیوں سے بھی بلند تر اور مضبوط تر تھے، وہ آگ اور بارود کے طوفانوں میں ’یکہ و تنہا‘ ڈٹے ہوئے تھے۔ لوگ کہتے تھے کہ نہ صرف یہ مجاہدین بھارت کے گھیرے میں ہیں بلکہ بھارت کی بہتر ڈپلومیسی کی وجہ سے پاکستان، سفارتی تنہائی کا شکار تھا۔ لوگو! ان غازیو، ان مجاہدوں، ان امر شہیدوں کو بھول نہ جانا، انھوں نے اپنا آج آپ کے کل کے لیے قربان کر دیا۔
٭…٭…٭

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر-دی نیشن