چین کے 100 سال
چین پاکستان کا انتہائی قابل اعتماد عظیم دوست ہے جس نے ہمیشہ مشکل گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے۔ چین سے میری خوشگوار یادیں وابستہ ہیں۔ 1990ء میں بیگم نصرت بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کے اعلیٰ سطحی وفد نے چین اور شمالی کوریا کا دورہ کیا جس میں پی پی پی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات کی حیثیت سے راقم وفد کے ڈپٹی لیڈر کی حیثیت سے شامل تھا۔ اس دورے کے دوران کمیونسٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل جیانگ زے من، میڈم ماؤزے تنگ، وزیراعظم لی پنگ اور کوریا کے عظیم لیڈر کم ال سنگ سے ملاقاتیں ہوئیں۔ اس تاریخی دورے کے بعد ایٹمی ٹیکنالوجی کا حصول ممکن ہوا۔چین کی کمیونسٹ پارٹی 1921ء میں شنگھائی میں قائم کی گئی۔ اس وقت پارٹی کے اراکین کی تعداد صرف 58 تھی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے اپنی تاریخ کے شاندار اور حیران کن 100 سال مکمل کرلیے ہیں اور اب پارٹی کے اراکین کی تعداد 90 ملین سے زیادہ ہے۔ چین کے سو سال ہر حوالے سے انسانی تاریخ کے منفرد اور بے مثال سال ہیں۔ چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ کی قیادت میں لانگ مارچ انسانی تاریخ کا حیرت انگیز واقعہ ہے۔ اس تاریخی لانگ مارچ کے دوران کمیونسٹ انقلابیوں نے چین کے جنوب مشرق کے علاقے سے شمال مغرب تک چھے ہزار میل کا سفر طے کیا جس کے دوران 18 پہاڑی سلسلے اور 24 دریا عبور کیے۔ کمیونسٹوں کی چیانگ کائی شیک کی قوم پرست فوجیوں کے ساتھ طویل جنگ ہوئی۔ تاریخ کا مشکل ترین لانگ مارچ 368 دنوں میں مکمل ہوا اور چین کے کمیونسٹوں نے تاریخی قربانیاں دے کرآزادی حاصل کرلی۔
چین میں انقلاب سے پہلے دیہات میں رہنے والے عوام اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور تھے۔ جاگیردار ان کا غلاموں کی طرح استحصال کرتے تھے۔ ایک جانب قدرتی آفات نے دیہاتی عوام کو اپنا شکار بنا رکھا تھا اور دوسری جانب جاگیر دار ان سے غیر انسانی سلوک کرتے تھے۔ ماؤزے تنگ نے لانگ مارچ کے دوران غریب دیہاتیوں کی حالت زار کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ ماؤزے تنگ نے انقلاب کے بعد دیہات پر خصوصی توجہ دی۔ ان کو علم تھا کہ جاگیر داری نظام سیاسی سماجی اور معاشرتی مسائل پیدا کرتا ہے۔ معاشی استحصال کی وجہ سے کسانوں کے لیے دو وقت کی روٹی مشکل ہو جاتی ہے۔ بڑے جاگیرداروں کی ذاتی دولت میں اضافہ ہوتا ہے مگر ارتکاز دولت کی وجہ سے ملک ترقی نہیں کرتا۔ ماوزے تنگ نے زرعی اصلاحات کرکے بے زمین کسانوں کو اراضی کا مالک بنایا اور ان کے معیار زندگی میں اضافہ کیا۔ زمین کی حد مقرر کرنے سے دیہات کی سماجی زندگی میں مثبت تبدیلی آئی۔ قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے بغیر کوئی ملک ترقی نہیں کر سکتا۔
چین میں دیہات کی ترقی کے بعد ہی شہروں کی ترقی ممکن ہوسکی۔ چین سو سال میں غربت افلاس پسماندگی استحصال اور تسلط کی زنجیروں کو توڑ کر دنیا کی عظیم معاشی قوت بن چکا ہے۔ یہ معجزہ کیسے رونما ہوا اس کا تفصیلی جواب جاننے کے لیے راقم کی نئی کتاب ’چین کے 100 سال: ماؤزے تنگ سے شی چن پنگ تک ‘ مطبوعہ علم و عرفان پبلشرز اردو بازار لاہور کے مطالعہ کی ضرورت ہے جو چین پر اردو میں پہلی مکمل کتاب ہے۔ چین کے عظیم لیڈر ماؤزے تنگ نے کامیاب لانگ مارچ کی قیادت کرکے سوشلسٹ چین کی بنیاد رکھی۔ چین کے دوسرے عظیم لیڈر ڈینگ زیاو پنگ نے تاریخ کے اہم موڑ پر عالمی حالات اور چین کے زمینی حقائق کا درست ادراک کرتے ہوئے چین کے سوشلسٹ فلسفے کی نئی تعبیر کر کے چین کو ترقی و خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ عظیم لیڈر شی چن پنگ نے چین کو دنیا کی عظیم معاشی قوت بنا دیا اور کروڑوں چینی شہریوں کو غربت کی لکیر سے باہر نکال کر دنیا کو حیران کر دیا۔ شی چن پنگ چین کے واحد لیڈر ہیں جو چین کے تیسری بار صدر منتخب ہوئے۔
چین کے قوم پرست لیڈروں نے سوشلزم اور کیپیٹل ازم کے حسین امتزاج سے چین کا معاشی نظام تشکیل دیا جس کی وجہ سے چین کے عوام کو مساوی ترقی کے مواقع ملے۔ انکے لیڈروں نے مغربی ڈیموکریسی کے بجائے میرٹو کریسی پر مبنی سیاسی نظام متعارف کرایا، انصاف کو یقینی بنایا اور کرپٹ افراد کو موت کی سزائیں دیکر کرپشن کو کنٹرول کیا۔ چین کے منفرد اور منصفانہ معاشی اور سیاسی نظام کی بدولت چین کے امیر افراد دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہوگئے جبکہ کروڑوں غریب عوام غربت کی لکیر سے باہر نکل آئے۔ چین کی ترقی کا سہرا کمیونسٹ پارٹی کے سر ہے جس نے میرٹ شفافیت یکساں احتساب آئین و قانون کی حکمرانی کے بنیادی اصولوں پر عمل کر کے چین کی ترقی کی راہ ہموار کی۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے عوام کی تعلیم و تربیت اور ہنر مندی پر خصوصی توجہ دی صنعت اور زراعت کو معاشی ترقی کی بنیاد بنایا۔ چین کے لیڈروں نے عالمی تنازعات میں الجھنے کی بجائے اندرونی معاشی ترقی و استحکام پر توجہ دی۔ چین نے دوسری قوموں پر تسلط قائم کرنے کی بجائے عدم مداخلت بقائے باہمی اور مشترکہ ترقی کو خارجہ پالیسی کا مرکزی اصول بنایا جس کی وجہ سے پوری دنیا میں چین کے وقار میں اضافہ ہوا۔ چین کے لیڈر اور عوام اخلاقی اور تمدنی اقدار کو بہت اہمیت دیتے ہیں جو لوگ اخلاقی رول ماڈل پیش کرتے ہیں ان کی قومی ہیرو کی طرح پذیرائی کی جاتی ہے۔ پورے چین میں اخلاقی چراغ چینی سماج میں روشنی پھیلانے کا سبب بنتے ہیں ۔