• news

محترمہ بینظیر بھٹو شہید

عترت  جعفری
محترمہ بے نظیر بھٹو کی زندگی کے 54برسوں کو مختصر سطور میں سمیٹنا اگرچہ ممکن نہیں ہے  تاہم جو چند الفاظ میں یقین سے کہا جا سکتا ہے وہ یہ کہ وہ تدبر کی خوگر،جرأت کا استعارہ،سیاست میں زیرک،صبر کا پیکر اور معاملہ فہمی کی مثال تھیں،بیٹی ،بہن ،والدہ کی حیثیت سے یکتا اور منتظم کے طور پر قابل تقلید تھیں ۔ان کے چھوڑے ہوئے نقوش آج بھی اس ملک کی سیاست میں رائج ہیں ۔مشکل حالات میں جب وقت کی ستم طریفی جینا دوبھر کر دیتی ہیں ،ادارے سانس لینے کو مشکل بنا دیتے ہیں،انصاف منہ موڑ لیتا ہے ، کیسے بھی    برے حالات ہوں ان سے کس طرح نبر آزما  ہونا ہے، یہ کوئی ان سے سیکھے۔ملک کی سیاست میں بے نظیر بھٹو شہید کے علاوہ کوئی دوسرا سیاست دان نہیں ہے۔ جنہوں نے دو  مارشل لاؤں کا سامنا کیااور حکومتوں کی غیر جمہوری رخصتی کے لئے صدر مملکت کے پارلیمانی روایات کے برعکس اختیارات کو بھی حکومت وقت سے مل کر 13ویں ترمیم کے  ذریعے ختم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔اسی طرح  بعد میں بھی وہ اٹھنے والے ہرطوفان کا رخ موڑتی رہیں۔ 1999ء کے مارشل لا ء کے بعد سیاست میں پھر زندہ ہونے والے کچھ حیات کردار صرف اور صرف محترمہ بے نظیر بھٹو کی سیاسی فہم وفراست کا پھل کھا رہے ہیں۔ محترمہ کا آج جنم دن ہے،کراچی میں پیدائش اور لیاقت باغ راولپنڈی میں 54سال کی عمر میں شہادت کے اس درمیانی عرصہ میں انہیں صرف اور صرف جہدمسلسل سے گزرنا پڑا۔
شہید ذوالفقار علی بھٹو اپنی بیٹی کی سیاست کی سوجھ بوجھ کو بھانپ گئے تھے ،اور نوعمری ہی سے بے نظیر بھٹو شہید کی تربیت شروع ہو چکی تھی ،ویسے بھی بھٹو خاندان کیلئے سیاست کوئی اجنبی تو نہ تھی ،سر شا ہ نواز بھٹو کو کون نہیں جانتا ،والد قائد عوام ہو تو سیاست تو گھر کی بات رہ جاتی ہے ۔آکسفورڈیونیورسٹی اور ہارورڈ یونیورسٹی کی تعلیم کے اثرات ،مگر جس چیز نے ان کی سیاست کو مہمیز دی وہ1977ء   میںجنرل ضیاء کامارشل لاء تھا ،تاریخ اب تو سب کچھ سامنے لے آئی ہے ،تاقیامت کن کے لئے روسیاہی نصیب بنی اور کن کے لئے  سرخ روئی اور حیات جاوید نصیب میں آئی،کون تاریخ کے قبرستان  میں دفن ہو گئے ،کوئی ان  کے بارے میں پنوںکو کھولنا نہیں چاہتا ،جنرل ضیا ء کا دور دراصل محترمہ بے نظیر  شہید کی ''آئرن لیڈی'' بنا گیا ،اسی دور نے ان کی سیاست کو جہت دی ،مارشل لائ￿  سے نجات اور جمہوریت کی بحالی کے لئے انہوں نے سیاسی مخالفین کے ساتھ بیٹھنے اور ان کو ملک کے و سیع تر مفاد میں اکٹھا  کرنے  ہنر دیا ،ذاتی دکھوں اور رنجشوں سے اوپر اٹھ کر سوچنے کا  سبق دیا ،مسقبل  کا وژن رکھنے اور حکمت عملی بنانے کا فن دیا ،آج ان کی سال گرہ ہے  تو اس وقت مناسب لگتا ہے کہ آج کے سیاست دانوں کو محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کے طرز سیاست کے بارے میں غور کی  دعوت دی جائے ،ان کی سیاست کا سب سے  بڑاحسن یہ تھا کہ وہ مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے توازن کو  برقرار رکھتی تھیں ،یعنی عاقبت نا اندیشی  سے خود کا بچاتی تھیں ،توازن کھو دینے کا سب سے بڑا نقصان خود  ہی کو ہوتا ہے اور انسان کسی بھی معقول بات کو سمجھنے کی صلاحیت سے محروم ہو جاتا ہے ،یہی  وجہ تھی انہوں نے مخالف سے بات کرنے یا اور اس کے ساتھ مذاکرات کی ٹیبل پر بات کرنے سے کبھی انکار نہ کیا ۔ایم آر ڈی اور اس کے بہت سے اتحاد اس کا ثبوت ہیں ، وہ ملک کے دو بار وزیر اعظم رہیں بلکہ وہ مسلم اکثریت والے کسی ملک کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں،یہ اور بات ہے کہ دونوں بار ان کو 8ویں ترمیم کا نشانہ بنایا گیا تھا ،اور اس میں آستین کے سانپوں کا بھی کردار تھا ،ان کی وزارت عظمی کے دونوں ادوار میں جس طرح کا سیاسی ماحول موجود تھا،اور پس پردہ قوتیں جس طرح ان کے خلاف کام کر رہی تھیں،اور منظر پر موجود لوگ بڑی دیدہ دلیری سے پردہ غیب کے آلہ کاربننے میں فخر محسوس کر رہے تھے۔ 
انہوں نے ملک کی ترقی کے لئے کام کیا ،کون نہیں جانتا کہ آج اگر دفاع مضبوط ہے تو ا س میں ملک کی میزائل ٹیکنالوجی کا کردار ہے جو محترمہ شہید نے لائی تھی ،جب وقت بدلا اور ان کے مخالف زیر عتاب آئے تو انہوں نے ماضی کا اسیر بننے کی بجائے  ملک کے مستقبل کی بہتری کا چنا و کیا اپنے مخالفین کے ساتھ بیٹھ گئیں اور مشرف امریت کا مقابلہ  کیا ،محترمہ شہید ہمیشہ ہی سے روشن خیالی، تدبر دشمن قوتوں کی آمکھوں کو کھٹکا کرتی تھیں، اور انھی  قوتوں نے 27دسمبر کو لیاقت باغ راولپنڈی میں نشانہ بنایا ،مگر جسمانی طور پر کسی کو معدوم کر دینے سے  کچھ نہیں ہوتا ہے ،ذولفقار علی بھٹو اور پھر محترمہ بے نظیر بھٹو  کی زندگی اور شہادتیں اس کا ثبوت ہیں ،مخالف مٹ گئے اور رسوا ہوئے،مگر ان کا جلایا چراغ  پی پی پی کی صورت میں روشن ہے اور ہمیشہ روشن رہے گا ،آج ان کا سترواں یو م پیدائش ہے اور ان کا بیٹا بلاول بھٹو زرداری  سیاست کے میدان عمل میں ہے ،اور ان کی بیٹیاں خاص طور پر  آصفہ بھٹو زرادری ان  کی مدد گار ہیں ،حالات وہی ہیں جو ہمیشہ سے پاکستان میں رہے ،مگر سب جانتے ہیں،کہ پی پی پی اب بھی انہی خطوط پر کام کرنے کو اپنی  ترجیحات سمجھتی ہے  جن کا تعین محترمہ شہید نے کیا تھا یعنی حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں توازن کی راہ کو نہیں چھوڑنا ،جمہوریت کو بچانا ہے ،اور ملک کو  مقدم جاننا آج بھی پیپلز پارٹی کی اولین ترجیح ہوتی ہے ۔بلاول بھٹو زرادری نے اپنی والدہ محترمہ کی پیروی میں سفارت کے میدان میںمسلسل کامیابیاں حاصل کر رہے ہیںاورملک کو تنہائی سے نکال کر عالمی برادری  میںاس کا کھویا ہوا مقام دلانے کیلئے کوشاں ہیں ۔سیاست کا وہی تسلسل ہے جو گذشتہ صدی کی ساٹھ کی دہائی میں شروع ہوئی تھی ۔ سیاست کی جہد مسلسل میں مایوسی اور تنہائی کی کبھی کوئی گنجائش نہیں ہو سکتی یہی محترمہ بینظیر بھٹو کا پیغام ہے ۔آج   جو لوگ حقیقی تبدیلی کی خواہش رکھتے ہیں اور کچھ کر دکھانا چاہتے ہیں تو وہ لوگ محترمہ شہیدکی زندگی کا مطالعہ کریں ،حیات جاوید سے سیکھنا چاہئے اور الزمات در الزمات کی سیاست سے گریز کرنا چاہئے۔

ای پیپر-دی نیشن