حفیظ تائب، بے مثال شخصیت، باکمال نعت گو
ملک بھر میں جشن حفیظ تائب کے حوالے سے یہ کالم قارئین کے پیشِ خدمت ہے۔ 13 جون جناب حفیظ تائب کا یوم وصال ہے جو نعت کے حوالے سے پاکستانی ادب میں نمایاں ترین حوالے کے طور پرہمیشہ جانے جاتے رہیں گے۔نعت کا فن جس سنجیدگی، متانت، حلم، بردباری، عجز و انکسار اور دیگر شخصی اوصاف کا تقاضا کرتا ہے وہ انہیں توفیق ایزدی سے نعمت کی صورت ودیعت کئے گئے تھے جن میں وقت کے ساتھ ساتھ بتدریج اضافہ ہوتا چلا گیا۔ایک قابل قدرنقاد کا کہنا ہے کہ ''اگر آپ جاننا چاہیں کہ نعت کیسی ہونی چاہئے تو حفیظ تائب کی نعتیں پڑھ لیں اور اگر یہ معلوم کرنا ہو کہ نعت گوئی کو کیسا ہونا چاہئے تو حفیظ تائب سے ملاقات کر لیں''۔انہیں اپنے شعبے میں جتنی شہرت ملتی گئی اتنی ہی ان کی نیازمندی بھی بڑھتی چلی گئی، جتنی وقار میں بلندی آتی گئی اتنا ہی انکسار میں بھی اضافہ ہوتا گیا، لوگوں کی محبت جوں جوں فزوں تر ہوتی گئی اتنا ہی تحمل و بردباری بھی کئی گنا بڑھتی گئی۔ علم و فن میں جتنا کمال آتا گیا لہجے میں مٹھاس اور طبیعت کے گداز میں بھی اتنا ہی اضافہ ہوتا گیا۔
نعت کے فن سے محبت نے حفیظ تائب کی شخصیت میں دھیمے پن کی ایسی شان پیدا کر دی تھی جو دراصل ان کی اٹھان کا سبب بنتی چلی گئی جسے انہوں نے حقیقی معنوں میں اپنی شخصیت اور کردار کا آئینہ بنایا۔ عموما ایسا ہوتا ہے کہ جب کسی کا فن میں مقام بن جائے تو فنکار کی فنی ریاضت کم ہو جاتی ہے لیکن حفیظ تائب اس معاملے میں آخر دم تک حساس رہے۔ ایک ایک لفظ کو ناپ تول کر لکھنا اور اس کے مزاج سے آشنا ہو کر جب تک اپنی طبیعت مطمئن نہ ہو جاتی تب تک اس حوالے سے سوچتے رہتے۔اسی لئے ان کی شاعری کے حوالے سے یہ مضبوط تاثر پایا جاتا ہے کہ ان کے کہے ہوئے مصرعے سے کسی لفظ کو ہٹا کر اس کی جگہ کوئی اور لفظ لگانے سے شعر کا حسن قائم نہیں رہتا جس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ الفاظ کے ممکنہ مترادفات اور متبادل پر کس حد تک غور وفکر کر کے موزوں ترین لفظ کا انتخاب کرتے تھے۔
اسی لئے ان کی شاعری کو اہل علم و ادب کے ہاں معیار وفن کے اعتبار سے نعتیہ ادب میں حوالے اورریفرنس کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور ان کے بے مثال ادبی کام کو نئی نسل مشعل راہ کے طور پر دیکھتی ہے۔ حفیظ تائب کابطور شخصیت ایک اہم کارنامہ اپنے عہد کے نمائندہ شعراءاور نوجوان لکھنے والوں میں نعت کی تحریک پیدا کرنا بھی تھا۔
غزل گو شعراءمیں بھی نعت کہنے کا رجحان پیدا کرنا بلاشبہ ان کا ہی شاندار کارنامہ ہے جن میں احمد ندیم قاسمی جیسے نابغہ عصر بھی شامل تھے۔ نعت گوئی کا معاملہ چونکہ بہت حساس اور نازک ہے، اس لئے بیشتر شعرا سوئے ادب ہو جانے کے خوف سے نعت لکھتے ہوئے گھبراتے تھے تو اس صورتحال میں وہ اس بات سے تسلی دیتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ نعت تو بارگاہ رسالت میں حاضری کی ایک صورت ہے۔ تو آپ خود کو کیوں اس عظیم نعمت سے محروم رکھتے ہیں اور یوں پورا عہد نعت کے نور سے فیض یاب ہوتاچلا گیا۔اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے نئے لکھنے والوں کی بھرپور حوصلہ افزائی بھی کی۔ پاکستان بھر سے ان کے پاس چھپنے والے نعتیہ مجموعوں کے مسودوں کا ہر وقت ڈھیر لگا رہتا تھا جسے وہ بڑے شوق سے عبادت سمجھ کر دیکھتے اور جہاں ضرورت ہوتی غیر محسوس طریقے سے اصلاح بھی کر دیتے۔ ان کے دور میں چھپنے والا شاید ہی کوئی نعتیہ مجموعہ ہو جس میں ان کے تحسینی کلمات شامل نہ ہوں۔پیشوائیوں کے عنوان سے انہوں نے درجنوں کتابوں پر مضامین اور آراءلکھیں جو اب الگ سے جمع ہو کر چھپنے کے مراحل میں ہیں۔
ان کی شخصیت کا ایک نہایت اہم پہلو ایک ایسی بیماری کے ساتھ طویل سفر ہے جس کے نام سے ہی لوگ مایوسی اور کم ہمتی کا بری طرح شکار ہو جاتے ہیں۔انہوں نے کینسر کے مرض کے ساتھ کم و بیش ایک دہائی کی بھرپور زندگی گزاری۔اس میں ان کے معمولات روزو شب بھی رواں دواں رہے، علاج کا سلسلہ بھی جاری و ساری رہا اور احباب کی غمی خوشی میں بھی پوری فعالیت سے شریک ہوتے رہے۔ان کے معالجین بھی ان کی اس بیماری کے ساتھ پرعزم اور متحرک زندگی پر بہت حیران و ششدر تھے۔جب تک بیماری نے انہیں مکمل عاجز نہیں کر دیا تب تک وہ معمولات زندگی میں مکمل گرم جوشی سے سرگرم عمل رہے۔
حفیظ تائب کی شخصیت کا ایک اور بہت دلچسپ پہلو ان کا مختلف مسالک کے درمیان قابل قبول ہونا بھی تھا۔مذہبی شناخت کے حامل لوگ زیادہ تر ایک خاص حلقے کے نمائندہ بن کر ہی اپنی زندگی گزارتے ہیں لیکن حفیظ تائب کے حلقہ ارادت میں تمام مکاتب فکر کے لوگ شامل تھے اور وہ ان سب کے لئے محبت کی علامت تھے۔اس کے ساتھ ساتھ ان کا عوام و خواص میں یکساں مقبول ہونا بھی حیرتوں کے باب کھولتا ہے۔ان کی نعت نگاری کی گونج کا دائرہ اہل علم و ادب، علماءو مشائخ،میڈیا ونشریاتی اداروں، صحافتی و قلم کار برادری کے ساتھ ساتھ عوامی سطح کے نعت کا ذوق رکھنے والے کثیر حلقے تک پھیلا ہوا تھا جہاں ہر کہیں انہیں احترام و عقیدت سے دیکھا جاتا تھا۔
اس کے ساتھ عمومی تاثر یہی ہے کہ کسی بھی شعبے میں عزت اور مقام پانے والوں کے اپنے اعزاءو اقارب اور اہل خانہ سے تعلقات اتنے اچھے نہیں رہ پاتے۔حفیظ تائب نے بطور نعت نگار اس محاذ پر بھی حضورنبی کریم کی سیرت ِ اقدس سے استفادہ کرتے ہوئے کامیابی سے سفر کیا۔ان کی اولاد نرینہ نہیں تھی لیکن اپنی بیٹیوں سے بے پناہ محبت کرتے۔ بیٹیوں کے سسرال اور دیگر رشتہ داروں میں کوئی ایسا نہیں تھا جسے ان سے کسی حوالے سے شکر رنجی ہو۔بلا شبہ آج کے دور میں رشتوں کو نبھانا اور ان کو ساتھ لے کر چلنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ان کے نعتیہ کلام کے علاوہ ان کی دیگر شاعری، شخصی و موضوعاتی نظمیں اور وطن کے لئے لکھے گئے نغمات بہت اثر پذیر ہیں جن پر بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ وہ شخصی اوصاف اور فنی خصائص کے حسن توازن اور حسین امتزاج میں گندھے ہوئے آدمی تھے۔دعا ہے کہ اللہ کریم ان کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کا کام آنے والی نسلوں کو نعت کے نئے آفاق دکھاتا رہے۔آمین