• news

مقبوضہ کشمیر میں بھارت کی براہ راست حکمرانی کے پانچ سال 

مقبوضہ جموں و کشمیر میں انتخابات کے ذریعے کسی سیاسی حکومت کے بغیر نئی دہلی کی براہ راست حکمرانی کے پانچ سال مکمل ہو گئے۔ اس دوران جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کا قانون ختم کیا گیا اور بھارتی آئین کی دفعہ 370 اور 35 اے کے خاتمے کے بعد بھارتی ہندوﺅں کو جموں و کشمیر میں مستقل آباد کرنے کا قانون لایا گیا جس کے ذریعے جموں و کشمیر کی ڈیموگرافی کی تبدیلی کا عمل شروع ہوا۔ چار سال قبل پانچ اگست 2019ءکو مقبوضہ جموں و کشمیر کو حاصل آئینی تحفظ بھارتی پارلیمینٹ کے ذریعے ختم کرانے کے بعد بھارت کی مودی سرکار نے مقبوضہ وادی کے دونوں حصوں جموں اور لداخ کو الگ الگ سٹیٹس کے ساتھ بھارتی سٹیٹ یونین کا حصہ بنا دیا۔ کشمیریوں کے احتجاج کے خوف سے اور عالمی میڈیا اور فورموں پر ان کی رسائی روکنے کے لئے اپنے ناجائز زیر تسلط اس پوری وادی کو دس لاکھ بھارتی فوجیوں کے محاصرے میں دے کر کرفیو نافذ کر دیا اور پھر ان پر ظلم و جبر کا ہر ہتھکنڈہ آزمایا جانے لگا۔ نہتے اور بے بس کشمیری عوام گزشتہ 1416 روز سے بھارتی سیکورٹی فورسز کے محاصرے میں ہیں مگر بھارتی تسلط سے آزادی کے لئے گزشتہ 75 سال سے جاری جدوجہد میں انہوں نے معمولی سی بھی س±ستی پیدا نہیں ہونے دی اور اپنی جانیں قربان کرتے ہوئے انہوں نے اپنی آزادی کے حصول کا سفر جاری رکھا ہوا ہے۔ 
اس عرصے کے دوران ظالم بھارتی فوجیوں نے دو لاکھ سے زائد کشمیریوں کو شہید کیا اور ہزاروں عفت معآب خواتین کی عصمتیں پامال کیں۔ بھارت سرکار نے کشمیریوں کو خود مختار ریاست کا چکمہ دے کر انہیں آزادی کی منزل سے ہٹانے کی کوشش کی مگر وہ اپنی آزادی سے کم کسی چیز پر راضی نہیں ہوئے اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی روشنی میں ملنے والے اپنے استصواب کے حق کے حصول کے لئے وہ اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی ادارے اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہے ہیں۔ پاکستان نے کشمیریوں کے استصواب کے حق کو یو این قراردادوں کی بنیاد پر شروع دن سے تسلیم کیا اور اس حق کے حصول کے لئے ان کا دامے، درمے ، سخنے بھی ساتھ دیا اور اقوام متحدہ سمیت ہر عالمی اور علاقائی فورم پر کشمیریوں کے حق کے لئے آواز اٹھانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اسی بنیاد پر بھارت پاکستان کی سلامتی کے درپے ہوااور اس پر تین جنگیں مسلط کرنے، اسے سانحہ سقوط ڈھاکہ سے دوچار کرنے اور اقوام عالم میں اسے تنہاءکرنے کی گھناﺅنی سازشوں کے ساتھ ساتھ اسے آبی دہشت گردی کا نشانہ بنانے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی جس کے لئے بھارت کشمیر کے راستے پاکستان آنے والے دریاﺅں کے پانی پر اپنا تسلط جما کر کبھی پاکستان کو سیلا ب میں ڈبونے اور کبھی اسے ریگستان میں تبدیل کر کے بھوکا پیاسا مارنے کی کوشش کرتا ہے۔ 
بھارت کے جارحانہ توسیع پسندانہ عزائم خطہ کے دوسرے ممالک بالخصوص چین کی خودمختاری اور سلامتی کے لئے بھی سنگین خطرات پیدا کر چکے ہیں اور کشمیر پر اپنا تسلط جمانے کے بعد بھارت نے 1962ءمیں چین کے علاقے اروناچل پردیش میں بھی اپنی فوجیں داخل کر کے تسلط جمانے کی کوشش کی مگر متحرک چینی افواج کے ہاتھوں بھارت کو منہہ کی کھانا پڑی۔ بھارت کی مودی سرکار نے اپنے پانچ اگست 2019ءکے اقدام کے تحت ایک جانب پاکستان کے ساتھ جاری تنازعہ کشمیر کا ٹنٹا ختم کرنے کی سازش کی اور دوسری جانب اروناچل پردیش میں لداخ کے راستے سے دوبارہ اپنی فوجیں داخل کرنے کا راستہ نکالا جس کے لئے اس نے لداخ کو بھارت میں ضم کرنے کے ساتھ ہی چینی سرحد کے قریب اپنی فوجی نقل و حمل بڑھا دی۔ 
بھارت نے اس سرحد کے ذریعے دوبار اروناچل پردیش میں اپنی افواج داخل کیں اور دونوں بار بھارتی فوجوں کو چینی افواج کے ہاتھوں اتنی ہزیمت اٹھانا پڑی کہ وہ اس کا تذکرہ کرنے سے بھی گریز کرتی ہیں۔ 
میڈیا رپورٹس کے مطابق کشمیر کی کٹھ پتلی حکومت ختم کرنے اور وہاں گورنر راج اور صدر راج نافذ کرنے کے پانچ سال کے دوران بھارتی فوجوں نے محصور کشمیریوں پر مظالم توڑنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور صرف اس پانچ سال کے عرصے کے دوران 730 کشمیریوں کو شہید کیا ہے۔ گزشتہ روز راجوری میں عالمِ دین سید مظفر حسین شاہ کو بھی شہید کیا گیا جن کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شریک ہو کر مودی سرکار کے خلاف سخت ردعمل کا اظہار کیا۔ بزرگ حریت لیڈر سید علی گیلانی بھی جبر کے اسی عرصہ کے دوران شہید ہوئے جن کی میت کو دفنانے کی بھی ان کے ورثاءکو اجازت نہ دی گئی اور انہیں بھارتی فورسز نے خود سنگینوں کے سائے میں سپردِخاک کیا۔ اسی طرح حریت لیڈر یٰسین ملک سخت علالت میں بھارتی جیل میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کر رہے ہیں اور مودی سرکار انہیں سزائے موت دلانے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھی ہے۔ 
یہ انتہائی افسوسناک صورتحال ہے کہ بھارت اپنے توسیع پسندانہ عزائم کے حوالے سے اقوام عالم میں سرکشی اختیار کر چکا ہے اور کسی بھی عالمی ادارے اور عالمی قیادتوں کے دباﺅ میں نہیں آتا۔ اس نے کشمیریوں کے حق خودارادیت کے لئے منظور شدہ یو این سلامتی کونسل اور جنرل اسمبلی کی قراردادوں کو ہی پاﺅں تلے نہیں روندا بلکہ پاکستان کے ساتھ 1972ئ میں کئے گئے شملہ معاہدہ کو بھی اپنے پانچ اگست 2019ءکے اقدام کے ذریعے خود ہی سبوتاڑ کیا۔ بھارت ڈھٹائی کی حد تک کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ قرار دیتا رہا ہے جہاں وہ اقوام متحدہ کے فوجی اور غیر فوجی مبصرین کو بھی داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا تاکہ کشمیریوں پر جاری اس کے مظالم آشکارا نہ ہو سکیں۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کے ایک وفد نے کچھ عرصہ قبل مقبوضہ وادی کا دورہ کر کے وہاں سینکڑوں ایسی قبریں دریافت کیں جن میں بھارتی فوجی تشدد سے شہید ہونے والے ہزاروں کشمیریوں کو اجتماعی طور پر دفن کیا گیا ہے۔ ایمنسٹی کی اس رپورٹ سے دنیا میں تہلکہ مچا مگر بھارت کے ساتھ عالمی قیادتوں کی ملی بھگت سے معاملہ رفع دفع کر دیا گیا۔ 
اسی ہلہ شیری نے بھارت کی مودی سرکار کو چار سال قبل مقبوضہ وادی پر شب خون مارنے کا موقع فراہم کیا اور اب وہ بدمست ہاتھی کی طرح بھارتی اقلیتوں کو بھی روندتا چلا جا رہا ہے جن کے بھارتی شہری کی حیثیت سے ہر قسم کے حقوق غصب کئے جا چکے ہیں۔ بالخصوص مسلمان، سکھ اور عیسائی اقلیتوں کے لئے بھارت کو جہنم زار بنا دیا گیا ہے۔ اسی تناظر میں گزشتہ روز امریکہ کے 57 ،ارکان کانگرس اور آٹھ سینٹروں نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورہ امریکہ کے موقع پر اپنے مشترکہ دستخطوں کے ساتھ امریکی صدر جوبائیڈن کو ایک مراسلہ بھجوایا ہے جس میں انہیں باور کرایا گیا ہے کہ بھارت میں مذہبی عدم برداشت کا مظاہرہ کیا جا رہا ہے۔ مراسلہ میں سول سوسائٹی اور صحافیوں کو نشانہ بنانے اور ان کی انٹرنیٹ سروس بند کرنے کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ 
اسی طرح امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کی رپورٹ میں بھی بھارتی مظالم کا تذکرہ کیا گیا مگر ایسے رسمی احتجاجات اور مذمتی قراردادوں سے بھارت کے کان پر کبھی جوں تک نہیں رینگی۔ 
عالمی قیادتوں کی ایسی دوہری پالیسیوں کے باعث ہی بھارت کے حوصلے بلند ہوتے ہیں جبکہ علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کو حقیقی طور پر بھارت سے ہی خطرہ لاحق ہے۔ اس تناظر میں عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کا سنجیدہ نوٹس لے کر یو این قراردادوں کی روشنی میں مسئلہ کشمیر حل کرانا چاہیے بصورت دیگر بھارت کے ہاتھوں علاقائی اور عالمی امن کی تباہی کوئی دور کی بات نہیں۔

ای پیپر-دی نیشن