• news

الیکشن کمیشن: ترقیاتی سرگرمیاں

دنیا کے تمام بڑے ادارے اپنے انفراسٹرکچر سے پہچانے جاتے ہیں،پاکستان میں کئی شاندار عمارتیں اپنے اداروں کا چہر ہ ہیں جن میں قابل ذکروزیر اعظم سیکریٹریٹ ، گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور،اسلامیہ کالج پشاور، حبیب بینک لمیٹڈ کراچی،سپریم کورٹ آف پاکستان،پارلیمان اور سینیٹ کی عمارتیں ہیں، یہ مشہور و معروف عمارتیں ملک و قوم کے وقار کی عکاس ہیں۔ انہی میں سے ایک آئینی اور خود مختار ادارہ الیکشن کمیشن آف پاکستان ہے، جو 1956 میں قائم کیا گیا۔یہ ان چند اداروں میں سے ایک ہے جس کی شاخیں ملک کے ہر ضلع میں پھیلی ہوئی ہیں۔ البتہ یہ امر افسوسنا ک ہے کہ جس ادارےکا عوامی رابطہ مستقل اور مسلسل ہے اس کے بنیادی ڈھانچے کو بہتر کرنے پر گذشتہ 67 سالوں کے دوران سنجیدگی سے غور و فکر نہیں کیا گیا۔ اسی سے اندازہ لگا لیں کہ پورے ملک میں الیکشن کمیشن کے محض 4دفتر ہی اپنی زمین پر ہیں اور باقی دفاتر کرائے کی عمارتوں میں قائم ہیں۔
ان تمام حقائق کو مد نظر رکھتے ہوئے موجودہ الیکشن کمیشن کی جانب سے اس اہم معاملے پر سنجیدگی اختیار کرتے ہوئے پورے ملک میں 29مقامات پرپلاٹ حاصل کئے گئے جن میں سے 23پلاٹ موجودہ چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ کی کاوشوں سے گذشتہ دو برسوں میں خریدے گئے ہیں، اہم نقطہ یہ ہے کہ یہ حاصل کردہ اراضی سرکاری ہے اور کہیں کوئی نجی زمین نہیں خریدی گئی اور نہ ہی کوئی نجی لین دین (Private Transaction)ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن کی نشاندہی کے بعدپلاٹ کی مد میں رقم صوبوں کو وفاق کی طرف سے منتقل کی گئی ہے، الیکشن کمیشن کے دفاتر کے لیے خریدے گئے پلاٹوں کے تمام تر مراحل قوانین کے عین مطابق سرکاری طور پر طے کیے گئے ہیں اور رقم کی ادائیگی بھی قوائد و ضوابط کے تحت سرکاری خزانے سے کی گئی ہے، تاہم الیکشن کمیشن کے خلاف پراپیگنڈہ کرنے والوں کی اکثریت حقائق سے ناواقف ہے اور چند حلقوں کے اپنے مذموم مقاصد ہیں۔
حاصل کردہ پلاٹس کی تفصیلات کچھ یوں ہیں: پنجاب کے 18اضلاع میں دفتری عمارتوں کے لئے پلاٹ حکومت پنجاب سے حاصل کیے گئے، جن میں لیہ ، خوشاب، نارووال، اٹک، اوکاڑہ، جہلم، سرگودھا، لودھراں، ساہیوال، راجن پور، بھکر، فیصل آباد، جھنگ،منڈی بہا¶الدین، چکوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، پاکپتن اور خانیوال شامل ہیں جبکہ صوبہ بلوچستان میں صوبائی حکومت سے 11 اضلاع میں پلاٹ خریدے گئے، جن میں سبی، بارکھان، لسبیلہ، نوشکی،چاغی، کھاران، واشک، گوادر، جعفرآباد،لورالائی، اورمستونگ شامل ہیں۔ 
اس کے ساتھ ساتھ پنجاب کے 11 اضلاع میں الیکشن کمیشن کے دفاتر کے گرد چار دیواری کا کام مکمل کر لیا گیا ہے تاکہ قبضہ مافیہ سے سرکاری زمین کو محفوظ رکھا جا سکے۔ ان 11 اضلاع میں اٹک، جہلم، سرگودھا، بھکر، خوشاب، ساہیوال، اوکاڑہ، لودھراں، راجن پور، لیہ اور ناروال شامل ہیں۔ بلوچستان میں الیکشن کمیشن کے دفاتر کے گرد چار دیواری کا کام بارکھان اور واشک میں مکمل کر لیا گیا ہے جبکہ گوادر اور چاغی کے دفاتر کے گرد چار دیواری بنانے کا کام جلد ہی مکمل کر لیا جائے گا۔ 
الیکشن کمیشن آف پاکستان سیکرٹریٹ اسلام آباد میں کمیشن کے کام میں اضافہ اور دفتری ضروریات بڑھنے کے پیش نظر دو اضافی منزلوں کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا جوکہ تکمیل کے آخری مراحل میں ہے، اس کے علاوہ سیکرٹریٹ میں جگہ کی کمی کو مد نظر رکھتے ہوئے پاک سیکرٹریٹ کوہسار بلاک میں پانچویں فلور کاحصول بھی یقینی بنایا جا چکا ہے، جہاں بجٹ، پولیٹیکل فنانس اور جینڈر ونگ کو شفٹ کیا گیا ہے، اس کے ساتھ ہی اسلام آباد کے سیکٹر H-11/4 میں پلاٹ حاصل کرکے بڑے دفتری کمپلیکس کے منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے جس میں فیڈرل الیکشن اکیڈمی، کانفرنس روم، سیمینار ہال،فیکلٹی روم (Faculty Room)، ریجنل الیکشن کمشنر راولپنڈی اور ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنراسلام آباد کے دفاتر شامل ہیں، اس کے علاوہ In house پرنٹنگ کی سہولت، الیکٹرانک ووٹنگ مشین(EVM) کے منصوبے بھی شامل ہیں، اس سلسلے میں PC-1 کی منظوری کے لیئے CDWP کے سامنے مستقبل قریب میں پیش کیا جائے گا، اس کے علاوہ سیکریٹریٹ میں جگہ کی کمی کے پیش نظر اور نیا دفتری کمپلیکس تعمیر ہونے تک پراجیکٹ مینجمنٹ یونٹ (PMU)کو این ای آئی NIEبلڈنگ میں عارضی طور پر شفٹ کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متعدد پراجکٹس جون 2024 میں پایہ تکمیل تک پہنچ جائیں گے، جن میں 5 عدد ضلعی الیکشن کمشنردفاتر اوکاڑہ، لیہ، جہلم، اٹک اور سرگودھا شامل ہیں۔ 
الیکشن کمیشن آف پاکستان سیکرٹریٹ اسلام آباد کی عمارت پرانی ہوچکی تھی، اس کا بیرونی حصّہ جسے عمارت کا چہرہ کہہ سکتے ہیں، اسے بہتر بنانے کی ضرورت تھی، چنانچہ بیرونی حصّہ کی تجدید کا کام بھی مکمل کیا گیا۔ عام انتخابات کے لیے جدید عالمی طرز کے مطابق مانیٹرنگ کنٹرول روم بھی تعمیر کیا جا رہا ہے۔ مانیٹرنگ کنٹرول روم دوران الیکشن براہ راست انتخابی معاملات سے متعلق عوامی شکایا ت کو حل کرتا ہے اور الیکشن کی شفافیت برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ یہی نہیں بلکہ سیکرٹریٹ اسلام آباد میں (State-of-the-Art Record Room) کا قیام بھی قابل ذکر ہے جہاں کسی غیر متعلقہ شخص کا داخلہ ممنوع ہے، ریکارڈ روم میں فارم 45 (اسٹیٹمنٹ آف کاونٹ) اورفارم46(بیلٹ پیپر اکاونٹ)کےلیئے علیحدہ سے کمرہ مختص کیا گیا ہے، اس کے علاوہ 1960سے اب تک کی تمام فائلوں کو بھی ریکارڈ روم میں محفوظ کیا گیا ہے۔ ریکارڈ روم میں اس وقت تقریباً 18000 فائیلیں موجود ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن