• news

معیشت کی بہتری اور غریب کیلئے سبسڈی

 بڑی پیٹرولیم کمپنیاں ملک چھو ڑ کر جارہی ہیں کیونکہ چھوٹی چھوٹی پیٹرولیم کمپنیوں کی دونمبری کی وجہ سے ملٹی نیشنل اور بڑی پیٹرولیم کمپنیوں کے لئے پاکستان میں اپنے اخراجات تک پورے کرنا ممکن نہیں رہا اور وہ اپنے ملازمین کو تنخواہ تک نہیں دے سکتیں۔ اس وقت PSOسمیت تمام بڑی پیٹرولیم کمپنیاں اربوں روپے نقصان کر رہی ہیں۔حکومت فوری طور پر ایرانی ڈیزل کے آنے اور فروخت ہونے پر پابندی عائد کرے۔ ایرانی ڈیزل کی ملک بھر میں سرعام فروخت کی وجہ سے بڑی پیٹرولیم کمپنیوں کی مصنوعات فروخت نہیں ہورہیں اور ان کی اربوں روپے کی سرمایہ کاری بیکار جارہی ہے جس کی تمام تر ذمہ داری حکومت پر ہے۔حکومت ایرانی ڈیزل کے آنے اور فروخت ہونے پر فوری پابندی عائد کرے اور پیٹرولیم مصنوعات حکومت خود ایران یا روس سے لائے اور پیٹرولیم کمپنیوں کو فروخت کرے یا پیٹرولیم کمپنیوں کو اجازت دے کہ وہ خود امپورٹ کریں۔ اس طریقے سے ہی پیٹرولیم کمپنیاں اپنا کاروبار جاری رکھ سکیں گی اور حکومت کو بھی بھاری ٹیکس وصول ہوگا بصورت دیگر موجودہ حالات میں تو بڑی پیٹرولیم کمپنیاں بھاری خسارے میں ہیں اور حکومت کو بھی ٹیکس نہیں مل رہا۔ اس وقت تو یہ حالات ہیں کہ معیاری اور پورے پیمانے پر پیٹرولیم مصنوعات فروخت کرنے والے پیٹرول پمپ مالکان اس وجہ سے پریشان ہیں کہ معیار اور پیمانہ پورا ہونے کے باوجود فروخت میں زبردست کمی آئی ہے کیونکہ ایرانی ڈیزل فروخت کرنے والے پیٹرول پمپوں پر لوگوں کا رش ہوتا ہے۔ ایرانی پیٹرول و ڈیزل فروخت کرنے والے پیٹرول پمپ ادھار پر بھی پیٹرولیم مصنوعات دے دیتے ہیں۔اسی لئے مقامی پیٹرولیم کمپنیوں کے لئے کاروبارجاری رکھنا مشکل ترین ہوچکا ہے۔ اس کا سدباب حکومت کی ہی ذمہ داری ہے اور وہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے تحفظ اور غیر قانونی پیٹرولیم مصنوعات کی سپلائی اور فروخت پر سخت ترین پابندیاں عائد کرے۔
 جس طرح حکومت نے بجٹ میں 1لاکھ ڈالرلانے والوں سے کوئی پوچھ گچھ نہ کرنے کا اعلان کرکے ایمنسٹی اسکیم دی ہے بالکل اسی طرح کی 3%پر ایمنسٹی اسکیم کا فوری اعلان کیا جائے اور ایمنسٹی اسکیم میں رقم جمع کرانے والوں کی یہ رقم پچھلے 10سال کے انکم ٹیکس کے کیسز میں بھی کارآمد ہو۔انہوں نے کہا کہ اس طرح کرنے سے حکومت کو سینکڑوں ارب روپے مل جائیں گے اور ہمیں آئی ایم ایف کے سامنے جھولی نہیں پھیلانی پڑے گی۔ جنرل ضیاءالحق شہید کی حکومت کے وزیرخزانہ ڈاکٹر محبوب الحق نے بھی بدترین معاشی حالات میں آئی ایم ایف کے پاس جانے کے بجائے ایسی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کیا تھا کہ جو بھی کسی بھی کمرشل بینک میں جاکر متعین شرح سے رقم جمع کرتا تو اسی وقت اسے بینک سے ایمنسٹی اسکیم میں وہائٹ کی گئی رقم کا سرٹیفکیٹ جاری ہوجاتا جوکہ پچھلے دس سال کے انکم ٹیکس کے کیسز میں بھی کارآمد تھا۔ اس وقت ڈاکٹر محبوب الحق نے 12ارب روپے کا ہدف رکھ کر اسکیم کا اعلان کیا تھا لیکن لوگوں نے اس آسان ترین ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے کے لئے بینکوں کے باہر سارا سارا دن قطاروں میں لگ کر رقوم جمع کرائیں اور حکومت کو 40ارب روپے سے زائد رقم حاصل ہوئی تھی جس سے حکومت کو آئی ایم ایف کے پاس نہیں جانا پڑا تھا۔ اب بھی بالکل اسی طرح کی ایمنسٹی اسکیم کی فوری طور پر ضرورت ہے جس میں 3%کی شرح سے رقم لی جائے اور ایمنسٹی سے مستفید ہونے والوں کی یہ رقم انکم ٹیکس کے پچھلے 10سال کے کیسز میں بھی کارآمد ہو۔ ایسا کرنے سے یقینی طور پر حکومتی خزانے میں سینکڑوں ارب جمع ہوجائیں گے۔یہی طریقے ہیں کہ ہم آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن سے نکل سکتے ہیں۔ایمنسٹی اسکیم میں وہائٹ کرائے جانے والے اربوں روپے کاروبار میں لگیں گے جس سے معیشت میں بہتری آنے کے ساتھ ساتھ بیروزگاری میں نمایاں کمی آجائے گی۔ ایمنسٹی اسکیم یہ آئی ایم ایف سے چھٹکارے کا سبب بن سکتی ہے۔ البتہ ایمنسٹی اسکیم آسان ترین ہونی چاہئے جس میں وکیلوں یا ٹیکس محکمے کے لوگوں کی مدد کی کوئی ضرورت نہ ہو بلکہ عام آدمی کسی بھی کمرشل بینک میں جاکر رقم جمع کراکر اسی شرح سے وہائٹ کی گئی رقم کا سرٹیفکیٹ حاصل کرسکے جو ٹیکس کے گزشتہ 10سال کے کسی بھی کیس میں بھی قابل قبول ہو۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایسا کرنے سے بہت زیادہ رقم قومی خزانے میں جمع ہوگی۔
 حقیقی حقداروں کی مقامی یونین کونسل کے چیئرمین ‘ وائس چیئرمین اور امام مساجد کی تصدیق سے صوبے ایسے لوگوں کی لسٹیں بنائیں جو انتہائی مفلس ہیں۔ صوبائی حکومتیں ان غرباءکو خوراک پر براہ راست 50%سبسڈی دینے کے لئے ایسے فنڈز کا اعلان کریں جن میں ان صوبوں کے کاروباری افراد رضاکارانہ طور پر ماہانہ 50ہزار روپے امداد جمع کراسکیں۔ ہر صوبہ یہ جمع کی گئی رقم حقیقی حقدار غرباءکو خوراک پر 50%سبسڈی دینے میں خرچ کرے۔ اس طرح سے غریبوں کو مہنگائی کے اثرات سے ریلیف مل سکتا ہے۔ مجھے یقین ہے کہ میں ملک بھر میں 2کروڑ ایسے کاروباری افراد موجود ہیں جو حکومت کو ماہانہ 50ہزار روپے امداد دے سکتے ہیں۔اس طرح سے ماہانہ 10کھرب روپے جمع کئے جاسکتے ہیں۔ اگر تمام کاروباری افراد ملک کی خاطر حکومت کی مدد کریں تو میرے خیال میں غریب کو مفت خوراک بھی مہیا کی جاسکتی ہے۔
پاکستان کو پیٹرولیم مصنوعات صرف ان ممالک سے خریدنی چاہئیں جہاں سے سستی اور مقامی و چینی کرنسی میں مل سکیں۔ اس کے علاوہ اپنے پڑوسی ممالک سے سامان کے بدلے سامان کی تجارت کے معاہدے کرنے سے ملک کو ڈالر کی اس قدرضرورت نہیں رہے گی اور معیشت مستحکم ہوگی جس سے مہنگائی میں یقینی کمی آسکے گی۔زراعت کی ترقی اولین ترجیح ہونی چاہئے تاکہ ملک خوراک میں خودکفیل ہوسکے۔

ای پیپر-دی نیشن