خلیجی اور مغربی ممالک کے پاکستانیوں میں فرق
شہر اقبال کے ایک معزز قدیم مسلم لیگی گھرانے کے سربراہ خواجہ محمد صفدر مرحوم کے پیدائشی مسلم لیگ چشم و چراغ اور قیام پاکستان سے تاحال مختلف کولیشن اور متعدد مسلم لیگی حکومتوں میں اہم ترین وزارتوں میں بطور وفاقی وزیر خدمات سرانجام دینے والے موجودہ وزیر دفاع محترم خواجہ محمد آصف میرے لئے اتنے ہی قابل احترام ہیں جتنا عزت و احترام انکے انتہائی قابل اعتماد دیرینہ دوست اور میرے محسن سابق میئر سیالکوٹ کیپٹن (ر) ڈاکٹرمحمد اشرف ارائیں کے دل میں پایا جاتا ہے۔ خواجہ آصف صاحب سے باضابطہ میری کوئی ملاقات نہیں تاہم انکی مسلم لیگی فکر و نظر اور ”بائی لینگوئل“ طرز خطابت کا میں معترف ضرور ہوں۔ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف اردو‘ انگریزی اور ٹھیٹھ پنجابی میں پارلیمنٹ میں وہ جب بھی تقریر کرتے ہیں جوش خطابت میں لفظوں کے درست چناﺅ کے استعمال تک کا لحاظ نہیں رکھتے کہ نامناسب لفظوں کے استعمال کے بعد اسمبلی میں پیدا ہونیوالی کسی بھی ناپسندیدہ صورتحال کو کنٹرول اور Calm Down کرنے کیلئے اپنے مفاہمتی سٹاک میں رکھے نرم لفظوں کے استعمال کے فن پر انہیں خوب دسترس حاصل ہے۔ اگلے روز پارلیمنٹ میں خواجہ صاحب نے اپنے سیاسی مخالفین پر طنزیہ تیر چلانے کے بجائے لفظوں کے چناﺅ کا درست تجزیہ کئے بغیر اوورسیز پاکستانیوں کی ایسی ”لاپا“ کے رکھ دی جس کی ان سے قطعی توقع نہ تھی۔ سمندر پار مقیم پاکستانیوں کے خطاب اور انکی حب الوطنی پر شک کرنے کی خواجہ صاحب کو آخر کیا مجبوری تھی۔ مجھ سمیت برطانیہ میں بسنے والے اعشاریہ 5 ملین پاکستانی تاہنوز سمجھ نہیں پائے۔ خواجہ آصف صاحب نے پارلیمنٹ میں جو معترضہ تقریر کی دوبارہ میں وہ اس لئے بھی دہرانا نہیں چاہتا کہ محض امریکہ‘ کینیڈا‘ یورپی ممالک اور برطانیہ میں مقیم پاکستانیوں کی ہی جگ ہنسائی نہیں ہوئی‘ خلیجی ممالک میں محنت مزدوری کرنے والے محب وطن پاکستانیوں کو بھی دھڑوں میں منقسم کر دیا گیا ہے۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف کا اسمبلی میں امریکی‘ کینیڈین‘ یورپی اور مبینہ طور پر برطانوی پاکستانیوں کے بارے میں یہ کہنا کہ ”یہ جو باہر بیٹھے ہوئے ہیں‘ انگریزی بولنے والے یہ کہتے ہیں کہ Remittance بند کر دینگے حالانکہ ترسیلات تو سعودی عرب میں مقیم 28 لاکھ اور متحدہ ارب امارات میں محنت مزدوری کرنیوالے 18 لاکھ پاکستانی بھجواتے ہیں جبکہ یہ انگریزی بولنے والے پاکستانی میں اپنے بڑوں کی لاشیں دفن کرنے کے بعد جائیدادیں فروخت کرکے واپس چلے جاتے ہیں۔ سعودی عرب اور یو اے ای میں تو کسی کو دوہری شہریت نہیں ملتی اور ان انگریزی بولنے والوں کو پاسپورٹ ملے ہوئے ہیں۔ محترم خواجہ صاحب! دوران تقریر اس قدر برہم دکھائی دیئے کہ اپنے جوش خطابت کے دوران وہ شاید یہ بھول گئے کہ جن اوورسیز پاکستانیوں کو وہ ”انگریزی بولنے“ کا طعنہ دے رہے ہیں‘ اسی انگریزی کا ایک ادھورا فقرہ انہوں نے خود انگریزی میں ادا کر دیا: ”اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا“۔ انگریزی تو یہاں پھر تین مرتبہ وزیراعظم رہنے والے محترم نوازشریف صاحب اور انکے صاحبزادگان بھی بولتے ہیں۔ محترم خواجہ صاحب نے محب وطن اور غیر محب وطن اوورسیز پاکستانیوں کا جو تجزیہ غصے سے بھرپور اپنی دھواں دار تقریر میں کیا‘ کاش! اتنا ”کھلار“ ڈالنے سے قبل ”ہاﺅس آف دی فلور“ میں سپیکر صاحب کے سامنے وہ یہ وضاحت بھی کر دیتے کہ امریکہ‘ کینیڈا‘ فرانس‘ جرمنی‘ اٹلی‘ آسٹریلیا اور دیگر سکینڈے نیوین ممالک سمیت برطانیہ میں کونسے وہ ایسے غیرمحب وطن پاکستانی ہیں جو پاکستان اپنے بڑوں کی نعشیں دفنانے اور جائیدادیں منافع پر فروخت کرنے کے بعد واپس مذکورہ ممالک اس لئے لوٹ جاتے ہیں کہ انکے پاس وہاں کے پاسپورٹ ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا خواجہ صاحب اگر اسمبلی میں یہ سچائی بھی بیان کر دیتے کہ مغربی ممالک میں کامیاب ترین نظام جمہوریت اور برطانیہ کا پاکستان کو گزشتہ 76 برس سے دیا جمہوری رول ماڈل آج تک کامیابی سے کیوں ہمکنار نہ ہو سکا۔ مگر افسوس! خواجہ صاحب نے خلیجی اور مغربی ممالک میں اپنے وطن پاکستان کی سالمیت و استحکام کیلئے صبح و شام کام کرنیوالے محب وطن سمندر پار پاکستانیوں کو آمنے سامنے لاکھڑا کیا ہے۔
جہاں تک ”پاسپورٹ“ اور دوہری شہریت کے حامل پاکستانیوں کا معاملہ ہے تو یہ ایک اور طویل موضوع ہے جس میں مجھے بحیثیت محب وطن برطانوی پاکستانی اپنا ”ٹڈننگا“ کرنا ہرگز مقصود نہیں۔ بس یہ سمجھ لیں کہ جو کام مسلمان ممالک کو اپنے غریب نادار مسلم ممالک کے محنت کشوں کی خوشحالی کیلئے کرنا چاہیے تھا‘ وہ کام انگریزی بولنے والے نان اسلامک ممالک نے کر دکھایا۔ آپ پر یہ بھی واضح کردوں کہ امریکہ‘ کینیڈا‘ مغربی ممالک اور برطانیہ میں بسنے اور انگریزی بولنے والے 98 فیصد افراد اپنے پاکستان کی عزت و وقار‘ سا لمیت اور استحکام پر موت کو ترجیح دیتے ہیں۔ خواجہ صاحب! قومی ائرلائن پی آئی اے جب ہیتھرو اپریشنل تھی تو ٹرپل سیون ٹیک آف کے بعد فضامیں جونہی بلند ہوتا یہی انگریزی بولنے اور نعشیں دفنانے والے محب وطن برطانوی پاکستانی شاہراہوں پر اپنی گاڑیاں روک کر طیارے کے قومی پرچم کو محض اس لئے سلیوٹ کرتے ہیں کہ طیارہ وطن عزیز کیلئے محو پرواز ہوتا۔