• news

عدالتوں کا انصاف نہ کرنا بحران کی وجہ ، وزیرداخلہ ، قومی اسمبلی : بدترین لوڈ شیڈنگ پر ارکان سیخ پا 

اسلام آباد (نامہ نگار) رانا ثناءنے کہا جو لوگ انسانی سمگلنگ کے اس گھنا¶نے جرم میں ملوث ہیں، ان کے خلاف کارروائی کی جائے، اور اس بارے میں قانون موجود ہے۔ یہ بات سپریم کورٹ کا سینئر ترین جج کہہ رہا ہے، وہ کہتے ہیں کہ اس عدالت بنچ کی کوئی قانونی اور آئینی حیثیت نہیں ہے، اس کی وجہ یہ بتا رہے ہیں کہ پارلیمان نے جو قانون منظور کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس قانون کے منظور ہونے کے بعد اس عدالت کا فرض ہے کہ یہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرے، عدالت کا یہ اختیار نہیں کہ وہ قانون کے اوپر بیٹھے، وہ قانون کے خلاف فیصلے کرے، وہ آئین کے برعکس فیصلہ کرے۔ عدالت نے جو فیصلہ کرنا ہے وہ قانون کے مطابق کرنا ہے، قانون کہتا ہے کہ بنچ وہ تین سینئر ممبرز کی کمیٹی بنائے گی، اور وہ کمیٹی جو بینچ بنائے گی، وہ بینچ آئینی اور قانونی طور پر درست ہوگا، سینئر جج صاحب کا یہ موقف ہے کہ 9 رکنی بینچ کو اس کمیٹی نے نہیں بنایا، اگر آپ اس تناظر میں دیکھیں کہ اس سے پہلے ہمارے دو معزز سینئر ترین وکلا جو پٹیشن لے کر آئے ہیں، انہوں نے وکالت اور سیاست میں بہت اچھا کام کیا ہے لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ اپنی اننگز کھیل چکے ہیں اور ان کی جسمانی اور ذہنی صحت اتنی اچھی نہیں ہے اور وہ ایسے معاملات کر کے اپنا جنازہ ہی خراب کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ مصدقہ خبر ہے کہ اس پٹیشن کو دائر کرنے سے پہلے یہ دونوں صاحبان عمران فتنے سے لاہور کے زمان پارک میں ملے ہیں اور اس کے بعد یہ چیف جسٹس آف پاکستان کو ملے اور اس کے بعد یہ پیشرفت ہوئی۔ وزیر داخلہ رانا ثناءاللہ نے کہا ہے کہ موجودہ بحرانوں کی ایک وجہ عدالتوں کا انصاف نہ کرنا ہے، عدالت عظمیٰ ملک میں سب سے بڑا ایوان ہے سماعت میں کس قسم کے الفاظ کا استعمال کیا گیا؟۔ بنچ میں چیف جسٹس کے بعد نامزد چیف جسٹس نے کہا کہ اس عدالت کو نہیں مانتا۔ میں یہ بات کہوں تو توہین عدالت کا مرتکب ہو جا¶ں۔ اندیشہ ہے فوجی ٹرائل کیس کا فیصلہ بھی 14 مئی کے فیصلے کی طرح نہ ہو۔ قومی اسمبلی کے اجلاس میں ملک میں بد ترین لوڈ شیڈنگ پر اراکین اسمبلی سیخ پا ہو گئے جس پر ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی زاہد اکرم درانی نے رولنگ دیتے ہوئے کہا کہ ملک میں شیڈول سے ہٹ کر لوڈ شیڈنگ نہ کی جائے بصورت دیگر متعلقہ محکموں کے خلاف کاروائی کی جائے گی۔ وزیرتعلیم رانا تنویر نے کہاکہ 2013میں 20گھنٹے لوڈشیڈنگ تھی ہم نے بجلی کے کارخانے لگائے اور بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم کردی۔ وفاقی وزیر برائے آبی وسائل خورشید شاہ نے کہاکہ 2013میں 20گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تھی تو اس پر ایک کمیٹی بنائی جائے کہ 2008میں اور 2013 میں کیا صورتحال تھی۔ چیئرمین پی اے سی نور عالم خان نے کہاکہ بجلی محکمے کے لوگ بند کرتے ہیں گالیاں ہم کھاتے ہیں، وزیر توانائی پیٹرولیم نہیں آتے ہیں، ٹھنڈے کمروں میں بیٹھے ہیں، پورے ملک میں لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، بجلی مہنگی بھی کررہے ہیں اور بجلی دے بھی نہیں رہے ہیں۔ میرے علاقے میں کئی کئی گھنٹے بجلی نہیں ہے۔ شیڈول لوڈشیڈنگ کریں۔ گرمی بہت زیادہ ہے لوگوں کو بجلی بھی نہیں دے رہے ہیں۔ آٹا سستا نہیں دے رہے، مہنگی بجلی نہیں دے رہے۔ سردیوں میں گیس نہیں دیتے ہیں۔ آپ ہمارے پیچھے نیب نہیں لگاتے باقی مہنگائی لوڈشیڈنگ آپ کنٹرول نہیں کررہے ہیں۔ جمعہ کو 12بجے سے2بجے تک لوڈشیڈنگ نہیں ہونی چاہیے۔ ڈپٹی سپیکر نے کہاکہ میرے حلقے میں 3دن سے بجلی نہیں ہے شیڈول کے مطابق لوڈشیڈنگ کی جائے اگر اس کے خلاف ہوتا ہے تو پارلیمنٹ حساب لے گی۔ میر منور علی تالپور نے لوڈشیڈنگ پر بات کی اجازت نہ دینے پر ایوان سے واک آٹ کر گئے۔ وفاقی وزیر برائے آبی وسائل سید خورشید شاہ نے کہاکہ ہم ایک حکومت میں ہیں ایک ہی مقصد ہے۔ وزیر نے کہا کہ 2013میں 20گھنٹے کی لوڈشیڈنگ تھی ۔ایک کمیٹی بنائی جائے کہ 2008میں لوڈشیڈنگ کی صورتحال تھی 2013میں کیا صورتحال تھی، بے نظیر بھٹو نے تھرکول کے 5ہزار میگا واٹ کا معاہدہ کیا تھا اس کو منسوخ کیا تھا۔ اگر وہ نہیں ہوتا تو لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی۔ وہ سستی بجلی ہوتی۔ تیل سے 45روپے فی یونٹ بجلی بنتی ہے۔ 2013سے 2018تک جو کارخانے لگے وہ ابھی چل رہے ہیں۔ 2600میگا واٹ تھر کول سے آرہی ہے مزید ایک ہزار میگاواٹ ہر کام چل رہاہے۔ قوم کو پتہ ہونا چاہیے کس نے کیا ظلم کیا۔ بعد ازاں سپیکر راجہ پرویز اشرف نے اعلان کیا کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہفتہ اور اتوار کو بھی اہوگا۔ اجلاس آج دن11بجے تک ملتوی کردیا گیا۔

ای پیپر-دی نیشن