مخصوص حالات میںآرمی ایکٹ کے تحت کارروائی ممکن : سپریم کورٹ
اسلام آباد(خصوصی رپورٹر)چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے سویلین کے فوجی عدالتوں میں ٹرائل کیخلاف درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا ہے کہ نیشنل سیکیورٹی کا معاملہ آرمی براہ راست دیکھتی ہے ا گر کوئی قومی سلامتی کے خلاف سازش کرے تو یہ نہیں کہا جاسکتا کہ فوج ٹرائل نہیں کرسکتی۔ ہم نے امن قائم کرنے کے لیے درجہ حرارت کو کم کرنا ہے، دیکھنا ہے کہ امن اور سکون کو کیسے بحال کیا جا سکتا ہے۔اگرکوئی سویلین کسی فوجی کو بغاوت پر اکساتا ہے تو اس کا ٹرائل فوجی عدالت میں ہو سکتا ہے، یہ کہنا کہ سویلین کا کبھی فوجی عدالتوں میں ٹرائل نہیں ہوسکتا درست نہیں ہے۔دیکھنا ہوگا کہ انسداد دہشتگردی عدالت کے جج نے کس بنیاد پرمقدمات فوجی عدالت منتقل کیے۔چیف جسٹس عمرعطائ بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے7 رکنی لارجر بینچ نے عام شہریوں پر فوجی عدالتوں میں مقدمات کے حوالے سے دائر درخواستوں پر سماعت کی۔سماعت کے آغاز پرسول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی نے تحریری دلائل جمع کرائے۔ اورانہوں نے کہا کہ میری درخواست باقی درخواستوں سے کچھ الگ ہے۔ سویلین کا ٹرائل آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ملٹری کورٹس میں نہیں ہوسکتا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ایکٹ کی کچھ شقیں غیر قانونی اور بدنیتی پرمبنی ہیں۔ سپریم کورٹ کے پانچ فیصلے آرمی ٹرائل سے متعلق ہیں، 1998 میں ملٹری کورٹس کے خلاف فیصلہ آیا، ملزمان کو فوج کے حوالے کرنے کے عمل میں مخصوص افراد کوچنا گیا۔ انہوں نے کہا کہ آرمی ایکٹ قانون کو بدنیتی کے تحت استعمال کیا جاتا ہے،جسٹس منصورنے کہا کہ قومی سلامتی کے معاملے پر خصوصی عدالتوں میں ٹرائل ہوتا ہے، جب آپ یہ ایکٹ چیلنج نہیں کر رہے تو قانون کی بات کریں۔ عدالت کا کہنا تھا کہ 9 مئی مقدمات میں ان ایکٹ سے متعلق دفعات کب شامل کی گئیں؟ کس کے پاس اختیار ہے کہ وہ سویلین کا خصوصی عدالت میں ٹرائل کرے؟ دوران سماعت جسٹس یحییٰ آفریدی نے کہا کہ اٹارنی جنرل کو بتانے دیں کہ اصل صورتحال کیا ہے۔اس دوران پنجاب حکومت کی جانب سے 9 مئی کے واقعات میں گرفتار افراد کے ڈیٹا سے متعلق رپورٹ عدالت میں جمع کروائی گئی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ سویلین کی حوالگی کے لئے ریفرنس وفاقی حکومت کو بھیجا جاتا ہے، وفاقی حکومت کی منظوری پر حوالگی کا حتمی فیصلہ کیا جاتا ہے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کامن سینس کی بات ہے کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت جرائم کا تعین ادارے نے ہی کرنا ہے، ادارہ اے ٹی سی میں حوالگی کی درخواست دائرکرسکتا ہے، البتہ حوالگی کی درخواست کیوں کوئی ٹھوس بنیاد بنا کردائر نہیں کی گئی۔ جسٹس یحییٰ آفریدی کا وکیل فیصل صدیقی سے کہنا تھا کہ آپ نے کہا اس ایکٹ کو رہنے دیں، طریقہ کار کو دیکھیں، پھر تو ہمیں انفرادی طور پر ایک شخص کا معاملہ دیکھنا پڑے گا۔ دوران سماعت عدالت نے کہا کہ سوالات کے جواب نہ دینے پر آپ کو جرمانہ دینا پڑےگا، ملزمان کے ریمانڈ میں بنیادی چیز مسنگ ہے، ریمانڈ آرڈر میں ذکر نہیں کہ حوالگی کیسے اور کن شوائد پر ہوئی۔وکیل فیصل صدیقی نے کہا کہ 9 مئی کو واقعات ہوئے، 25 مئی کو حوالگی مانگ لی جاتی ہے، ، ملزمان کی حوالگی مانگنے کی کوئی وجہ موجود نہیں۔عدالت نے استفسار کیا کہ البتہ کیاآپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ کوئی جرم ہوا ہی نہیں؟۔ اس پر وکیل نے کہا کہ سویلین خصوصی کورٹ نہیں جا سکتا، انتہائی غیر معمولی حالات میں خصوصی عدالت فعال ہو سکتی ہے۔ پہلے ملزمان سے متعلق سخت انکوائری ہونی چاہیے، 1998 کے علاوہ کبھی سویلین حکومت میں خصوصی ٹرائل نہیں ہوا۔دوران سماعت جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ آپ نے شروع میں کہا ایکٹ کی مخالفت نہیں کر رہے، صرف غیر معمولی حالات میں ٹرائل ہو سکتا ہے، یہ بتادیں کون سے غیر معمولی حالات میں ٹرائل ہو سکتا ہے؟ سویلینز کا جرم آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت ہے یا نہیں؟۔ نماز جمعہ کے وقفے کے بعد سماعت کا دوبارہ آغاز ہوا توسول سوسائٹی کے وکیل فیصل صدیقی کا اپنے دلائل کے اختتام پر کہنا تھا کہ نہیں سمجھ آتا کہ آفیشل سیکریٹ ایکٹ کیسے لگا دیا گیا، تنصیبات پر حملہ کرنے پر اے ٹی اے لاگو ہوتا ہے۔ جواد ایس خواجہ کے وکیل خواجہ احمد حسین نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ خصوصی عدالتوں میں ٹرائل بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہے، سویلین کے حقوق سلب نہیں کئے جا سکتے۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم آپ کی بات سننا چاہتے ہیں مگر اس بات میں وزن بھی ہو۔وکیل احمد حسین نے کہا کہ کورٹ مارشل سے عزت نفس مجروح ہوتی ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کورٹ مارشل کوئی ٹیم کرتی ہے، کیا کسی اور ملک میں بھی خصوصی عدالتیں ہیں؟ ، وکیل احمد احسن نے کہا کہ امریکا، برطانیہ میں بہت کم سویلین کے خصوصی ٹرائل ہوتے ہیں، کوئی بھی اپنے ہی معاملات کے لئے خود جج نہیں بن سکتا۔ کلبھوشن کے لئے اپیل کے حق کا نیا قانون بھی بنایا گیا تھا۔عدالت نے کہا کہ موجودہ کیس کو21 ویں ترمیم سے الگ قرار دے رہے ہیں، ہم کسی قانون کو چھیڑے بغیر اس کو کیسے دیکھ سکتے ہیں؟دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ اس کیس میں کون سے سویلینز کی بات ہو رہی ہے؟ سویلینز تو ریٹائرڈ افسران بھی ہیں، لہٰذا قانون میں یہ کیوں درج ہے کہ سویلین کا ٹرائل ہو سکتا ہے؟ ۔جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ البتہ مخصوص حالات میں اس ایکٹ کے تحت کارروائی ہو سکتی ہے،، ایمرجنسی میں تو لوگوں کی نقل وحرکت بھی روک دی جاتی ہے، آئین تو نقل و حرکت اور آزادی کا حق دیتا ہے، پارلیمنٹ کے پاس قانون سازی کا اختیار ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کن سویلینز کا ٹرائل اس ایکٹ کے تحت ہو سکتا ہے؟ سویلینز کی تعریف کیا ہوگی، ریٹائرڈ افسران سویلینز میں آئیں گے؟۔جسٹس منصور علی شاہ کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق چلنے کا قائل ہوں، راستے تلاش نہیں کرتا، آئین اجازت ہی نہیں دیتا کہ اس ایکٹ کا جائزہ لے سکیں توکیسے فیصلہ کریں کہ یہ ٹھیک ہے یا غلط؟ اس ایکٹ میں جو کچھ بھی ہے ہمیں جائزہ لینے کی اجازت نہیں۔چیف جسٹس نے کہا کہ پاکستان آرمی ایکٹ کا اطلاق سویلین پر ہوتا ہے، جسٹس منصور نے کہا قومی سلامتی پر فوج براہ راست متاثر ہوتی ہے، کسی افسرکوقومی سلامتی کےخلاف سازش پراکساناسنگین جرم ہے، اس ایکٹ کی شقوں کودیکھنے کی ضرورت نہیں ہے۔جواد ایس خواجہ کے وکیل نے اپنے دلائل کے اختتام پر کہا کہ بیرونی سازش پر سویلین کے خلاف کارروائی ہو سکتی ہے، وقت آچکا ہےکہ کھل کر حقوق کے لئے آواز بلند کی جائے۔اس پر جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے کہ بغاوت پر سویلین کا خصوصی عدالت میں ٹرائل ہو سکتا ہے، خصوصی عدالتوں کے دائرہ اختیار میں لانے کا کیا طریقہ کار اپنایا گیا، دیکھنا ہوگا اے ٹی سی نے کس بنیاد پر کیسز منتقل کیئے ہیں۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کوئی سویلین کسی آرمی آفیشل سے ملک کر ریاست کے خلاف کچھ کرے تو سنجیدہ معاملہ ہے، ایسی صورت حال میں دونوں میں تفریق نہیں کی جا سکتی۔
اٹارنی جنرل پاکستان نے کہا کہ گزشتہ روز تین سوالات مجھ سے پوچھے گئے تھے، اسلام آباد میں کوئی شخص پولیس کی تحویل میں نہیں، البتہ 4 افراد خیبرپختونخوا میں زیر حراست ہیں۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ جی یہ سول کسٹڈی کا ڈیٹا ہے، ان کی کسٹڈی میں 102 افراد ہیں، کوئی بھی خاتون، صحافی یا وکیل ان کی کسٹڈی میں نہیں۔ پنجاب میں 39 خواتین جوڈیشل کسٹڈی میں ہیں، پالیسی ہے کہ بچے اور خواتین آرمی کی حراست میں نہیں ہوں گے۔ جسٹس عمر عطاءبندیال نے استفسار کیا کہ صحافیوں سے متعلق کیا پالیسی ہے، اس پر منصور عثمان اعوان نے جواب دیا کہ نو مئی کے واقعات پر کسی صحافی کو حراست میں نہیں رکھا گیا، وفاقی حکومت کی صحافیوں کے خلاف کارروائی کی کوئی پالیسی نہیں۔ چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومتوں سے رابطہ کریں اور ان سے صحافیوں اور وکلاءسے متعلق پالیسی کا پوچھیں، بنچ کے کچھ ممبران کو صحافیوں اور وکلاءسے متعلق تعفظات ہیں۔ بعد ازاں جسٹس آف پاکستان نے عید سے پہلے کیس کا فیصلہ سنانے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا کہ منگل تک اس کیس کا نتیجہ نکالنا چاہتے ہیں۔ کیس کی سماعت پیر (26 جون) ساڑھے 9 بجے تک ملتوی کردی گئی۔