حیرتوں کا اک جہان… چین … قسط(3)
ہمارا اگلا وزٹ چائنا اکنامک نیٹ (China Economic Net) کا تھا۔ ہمارے وفد کی میزبانی بھی چائنا اکنامک نیٹ کر رہا تھا۔ چائنا اکنامک نیٹ ورک پہنچنے پر وفد کا شاندار استقبال کیا گیا۔ وفد کو تفصیلی بریفنگ دی گئی۔ چائنا اکنامک نیٹ اقتصادی خبروں کی ایک بڑی ویب سائٹ ہے جو بروقت خبریں اور مؤثر معاشی تجزیئے فراہم کرنے میں شہرت رکھتی ہے۔ اسے 1980ء کی دہائی میں چین کے معروف اخبار دی اکنامک ڈیلی (The Economic Daily) کی طرف سے سپانسر کیا گیا اور آج یہ چین کا سب سے بڑا اور سب سے جامع اقتصادی معلومات کا پورٹل ہے۔ چین میں اقتصادی معلومات کا سب سے مستند ذریعہ اور ڈیٹا بینک بننے کے مقصد سے یہ نیٹ ورک اپنی سروس رینج میں توسیع کررہا ہے۔ اس کی ویب سائٹ سے روزانہ کی بنیاد پر چین میں تقریباً 2500 خبریں اور انگریزی میں تقریباً 200 خبریں آن لائن جاری کی جاتی ہیں۔ چائنا اکنامک نیٹ بتیس مختلف چینلز کو خبروں کے مواد کی مدد فراہم کرتا ہے جس میں نیوز سینٹر، میکرو اکانومی، فنانس اینڈ سکیورٹیز، انڈسٹریز اور کموڈٹی مارکیٹس، جدید لائف، سٹاک مارکیٹ، انشورنس، میڈیسن، آٹو انڈسٹری، رئیل اسٹیٹ، ہوم ایپلائنسز، فیشن، ٹریول، کمیونیکیشن، انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معروف شخصیات (Celebrities) کے لئے چیٹ روم سی ای انڈکس اور سی ایم فورم شامل ہیں۔
وفد کو نیٹ ورک کے قیام سے لے کر اب تک کے ارتقائی مراحل سے بخوبی آگاہ کیا گیا۔ نیٹ ورک نے اپنی تاریخ (History) کو نہایت عمدہ اور متاثرکن طریقے سے محفوظ کیا ہے۔ اس میں لکھنے والے تمام لوگ نہایت معتبر، اہم اور پیشہ ور لکھاری ہیں جو اپنے اپنے شعبوں کے ماہر ہیں۔ ان کی تجاویز اور تجزیوں کو حکومت اپنی معاشی پالیسیاں مرتب کرتے وقت اہمیت دیتی ہے۔ نیٹ ورک کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے بھی اس نیٹ ورک کے لئے آرٹیکل لکھا ہے۔ بریفنگ کے بعد کافی کا دور چلا اور بے تکلفانہ گفتگو ہوتی رہی۔ مس Yin، مس Katie اور مس Michelle کا تعلق بھی اسی نیٹ ورک سے ہے لہٰذا وہ وفد کے اس وزٹ کے بارے میں خوب پرجوش دکھائی دے رہی تھیں۔ تقریب کے اختتام پر تحائف کا تبادلہ ہوا اور ہم وہاں سے بہت اچھی یادیں لے کر رخصت ہوئے۔
اگلے روز پاکستانی سفارتخانہ کے زیراہتمام پاکستان کلچرل فیسٹ کا انعقاد تھا اور وفد کو اس کا وزٹ کرنے کی دعوت تھی۔ ہلکی ہلکی پھوار سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہم کلچرل شو میں پہنچے تو پاکستان کے سفیر معین الحق اور ان کے عملے نے ہمارا پرتپاک استقبال کیا۔ وفد کے تمام ارکان کا ان سے فرداً فرداً تعارف ہوا۔ کلچرل شو ایک کشادہ ہال میں منعقد ہو رہا تھا لیکن شرکت کرنے والوں کی تعداد کے پیش نظر اس کی وسعت کم پڑ رہی تھی۔ پاکستانی ثقافت کی اشیائ اور پاکستانی کھانوں کے سٹال لگے ہوئے تھے جن پر خوب رش تھا۔ اپنے وطن سے دور اتنی تعداد میں پاکستانی دیکھ کر دل خوش ہو گیا۔ پاکستانی ثقافت اور پاکستان کے حسین مقامات کو ایک دستاویزی فلم کے ذریعے متعارف کروایا گیا۔ اسی جگہ پر راقم الحروف اور خاور عباس سندھو نے سفیر پاکستان معین الحق کو نوائے وقت کی شیلڈ اور لکڑی کا بنا پیتل کی کاشی کاری والا ڈرائی فروٹ بکس پیش کیا جسے انہوں نے بیحد سراہا۔ سفیر پاکستان کی خواہش پر ازبکستان کے سفیر حیدر علیوف (Heyder Aliyev) کو بھی فروٹ بکس کا تحفہ پیش کیا گیا جس پر نوائے وقت کا نام کندہ تھا۔ ازبک سفیر کو نوائے وقت گروپ کا مختصر تعارف بھی کروایا جس سے وہ بہت خوش ہوئے اور نوائے وقت گروپ کیلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا۔ وہیں وفد کے ارکان کیلئے ایمبیسی کی طرف سے لنچ کا بندوبست کیا گیا تھا جس کیلئے پریس اتاشی سیدہ سائرہ پیش پیش تھیں۔ تقریب کے بعد پاکستانی سفیر معین الحق سے ایک نشست ہوئی جس میں چین پاکستان کے تعلقات کے فروغ، CPEC پر عمل درآمد اور ML-1 کے آغاز کے متعلق گفتگو ہوئی۔ سفیر محترم بیجنگ میں اپنا کردار موثر طور پر ادا کر رہے ہیں۔
لنچ کے بعد شاپنگ کیلئے جانے کا پروگرام تھا۔ مس Yin، مس Katie اور مس Michelle کے ساتھ ساتھ زبیر بشیر اور شاہد افراز خان بھی اپنے ذاتی وقت کے ساتھ ہمارے ساتھ تھے۔ ہم بے رانگ انٹرنیشنل ٹریڈ سینٹر (Bay Rong International Trade Centre) پہنچے تو شاپنگ سینٹر کی وسعت کا اندازہ ہوا۔ ہزاروں دکانیں اشیائے ضرورت کے سامان سے لدی پھندی تھیں۔ ہم زبیر بشیر اور شاہد افراز خان کی قیادت میں دو گروپوں میں تقسیم ہو گئے اور اپنی اپنی پسندیدہ چیزوں کی تلاش شروع کر دی۔ وقت کی کمی کی وجہ سے ادھوری سی شاپنگ کی۔ آج ہمارا ڈنر ’’خان بابا‘‘ کے ریسٹورنٹ میں تھا۔ وہاں سبھی پاکستانی کھانے تھے جن پر KPK کے کھانوں کی چھاپ گہری تھی۔ کئی دنوں کے بعد پاکستانی کھانے کھائے ،وہاں چینی فیملیوں کو بھی پاکستانی کھانوں سے لطف اندوز ہوتے دیکھا۔ ڈنر کے بعد ہوٹل کو واپسی ہوئی۔
شاپنگ چونکہ تشنہ رہی تھی لہٰذا خاور عباس سندھو اور میں شاپنگ کیلئے ہوٹل سے نکل کر سب وے سٹیشن کی تلاش میں پیدل چل پڑے۔ رات کے ابتدائی لمحات تھے۔ بڑی سڑک پر آئے تو سینکڑوں کی تعداد میں چینی جوڑے پیدل، سائیکلوں، موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر نکلے نظر آئے۔ ان کے چہروں پر طمانیت کے آثار نمایاں تھے۔ سینکڑوں کی تعداد میں ہونے کے باوجود پیدل چلنے اور ٹریفک کے قوانین کی مکمل پابندی کی جا رہی تھی۔ چینی معاشرہ قوانین کی پابندی کا عادی ہو چکا ہے۔ کچھ دور چلنے کے بعد سب وے کے ذریعے جانے کی بجائے ٹیکسی پر جانے کا ارادہ کیا۔ ایک ٹیکسی والے سے کرایہ طے کر کے Silk Street پہنچے۔ اندر جانے لگے تو شاپنگ سنٹر کے داخلی دروازے پر کھڑے گارڈز نے ہمیں روک دیا کہ شاپنگ کا وقت ختم ہو گیا۔ یہ سنتے ہی ہماری شاپنگ کی امیدوں پر اوس پڑ گئی۔ ہوٹل واپسی کیلئے ٹیکسی لی تو اس سے یہ طے پایا کہ 10 یوآن اسے زیادہ دیں گے اگر وہ تیامن سکوائر کے سامنے ٹیکسی روک کر ہمیں وہاں اپنی تصاویر بنانے کی مہلت دیدے۔ جب تیامن سکوائر پہنچے تو وہاں پولیس کا سخت پہرہ تھا۔ ہمارے بار بار کہنے کے باوجود ٹیکسی ڈرائیور نے ٹیکسی نہیں روکی کہ اگر اس نے ٹیکسی روک لی تو پانچ ہزار یوآن جرمانہ ہو جائے گا۔ قانون کے نفاذ کی یہ ایک اعلیٰ مثال تھی۔ ہم شاپنگ کئے بغیر اور تیامن سکوائر کو انتہائی قریب سے دیکھ کر ہوٹل واپس آگئے۔
اگلے دن ہمیں بیجنگ سے شینجن (Shenzhen) روانہ ہونا تھا۔ وفد کی خواہش تھی کہ یہ سفر بذریعہ بلٹ ٹرین (Bullet Train) کیا جائے لیکن اس میں وقت زیادہ لگتا تھا۔ اس کا حل ہمارے میزبانوں نے یہ نکالا کہ بیجنگ ریلوے سٹیشن سے بیجنگ ڈاکسنگ انٹرنیشنل ایئرپورٹ (Beijing Daxing International Airport) کا سفر بذریعہ بلٹ ٹرین اور بیجنگ ڈاکسنگ انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے شینجن ایئرپورٹ کا سفر بذریعہ ہوائی جہاز کیا جائے۔
بلٹ ٹرین کا سفر ایک نہایت خوشگوار تجربہ تھا۔ انتہائی صاف ستھرا کیبن اور آرام دہ سیٹیں تھیں۔ گاڑی روانہ ہوئی تو ٹرین کے چلنے کی آواز بالکل معدوم۔ نہ تھرتھراہٹ نہ شور۔ ایسے لگ رہا تھا کہ ٹرین ہوا میں اڑ رہی ہے۔ ٹرین نے زیادہ سے زیادہ 243 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کیا لیکن ذرا برابر ارتعاش پیدا نہیں ہوا۔ بیجنگ ڈاکسنگ انٹرنیشنل ایئرپورٹ پہنچے۔
…………………… (جاری)
چین کے 200 سے زیادہ ایئرپورٹس میں شامل یہ ایئرپورٹ دنیا کا سب سے بڑا ایئرپورٹ ہے۔ یہ 6,620 ایکڑ رقبے پر تعمیر کیا گیا ہے۔ یہاں سالانہ تقریباً 2 لاکھ سے زیادہ طیاروں کی آمدورفت ہوتی ہے اور ایک کروڑ سے زیادہ مسافر اس سے مستفید ہوتے ہیں۔
ایئرپورٹ پر کافی کا ایک دور چلا اور پھر ایک پرتکلف لنچ ہوا۔ بیجنگ ڈاکسنگ انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے شینجن (Shenzhen) روانہ ہوئے۔ ساڑھے تین گھنٹے کی پرواز کے بعد شینجن پہنچے تو موسم کچھ گرم محسوس ہوا۔ شینجن دریائے زوجیانگ کے مشرقی کنارے پر واقع ہے۔ شینجن، چین کا جنوبی ساحلی شہر ہے جس کے بالمقابل جنوب میں ہانگ کانگ (Hong Kong) واقع ہے جو اس سے صرف 41 کلومیٹر دور ہے۔ اس کی آبادی 1 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ ہے۔ یہ شہر اب عالمی افق پر ٹیکنالوجی، ریسرچ، مینوفیکچرنگ، بزنس، اکنامکس، فنانس، سیاحت اور ٹرانسپورٹ کا مرکز ہے۔ اس کی بندرگاہ دنیا کی چوتھی مصروف ترین کنٹینر پورٹ ہے۔ شینجن میں چودہ ہزار سے زیادہ ہائی ٹیک کمپنیوں کے دفاتر ہیں جن میں ہواوے (Huawei) ، لینووو (Lenovo) اور ٹین سینٹ (Tencent) شامل ہیں۔ مئی 1980 میں سینٹرل کمیٹی اور عظیم چینی رہنما ڈینگ زیا?پنگ نے شینجن کو جو مچھیروں کا ایک معمولی سا گا?ں تھا چین کا پہلا سپیشل اکنامک زون (Special Economic Zone) بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس کو (SEZ) بنانے کی ایک بڑی وجہ اس کا ہانگ کانگ کے قریب ہونا تھا جو اس وقت ایک برطانوی کالونی تھا۔ سپیشل اکنامک زون بنتے ہی بیرونی سرمایہ کاری، ٹیکنالوجی، انتظامی مہارت اور تجارتی سرگرمیوں نے ایسی تیزی سے شینجن کا رخ کیا جو حیران کن تھا حتیٰ کہ چین میں تیزی سے ترقی کو شینجن سپیڈ (Shenzhen Speed) کہا جانے لگا۔ شینجن ماڈل معاشی زون بن گیا جس کی کامیابی کے بعد 35 سپیشل اکنامک زون بھی ترقی کے معاشی ماڈل بن گئے۔
شینجن، بیلٹ اینڈ روڈ اور ایشیا پیسفک کے ایک اہم ٹرانسپورٹ مرکز پر واقع ہے۔ شینجن میں ایک بین الاقوامی گہری سمندری بندرگاہ، ایک بین الاقوامی ہوائی اڈہ، ایکسپریس ویز، قومی اہمیت کی مسافر ٹرینوں اور فریٹ کا مرکز ہے۔ دی اکانومسٹ نے شینزن کو 4300 اکنامک زونز میں سے سب سے کامیاب اکنامک زون قرار دیا ہے۔
40 سال پہلے مچھیروں کا ایک معمولی گا?ں اب دنیا بھر میں اپنے Skyscrapers اور بلند و بالا عمارتوں کے لئے جانا جاتا ہے۔ دنیا میں شاید ہی کسی شہر نے اتنی تیزی سے ترقی کی ہو۔ ماضی کے مچھیروں کا گا?ں اب چین کا "Silicon Valley of China" اور مصنوعی ذہانت (Artificial Intelligence) کے مرکز کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ٹیکنالوجی کی نمایاں کمپنیوں مثلاً Huawei جو، نیٹ ورک ہارڈ ویئر اور کمیونیکیشن ڈیوائسز بنانے والا ایک بڑا ادارہ ہے، کا ہیڈ آفس شینجن میں ہے۔
سپیشل اکنامک زون ہونے کی وجہ سے یہاں ٹیکس کی چھوٹ، زمین کا سستا حصول اور دوسری مراعات کی وجہ سے یہاں کام کرنے والی کمپنیوں کو بیحد منافع حاصل ہوا اور وہ دیکھتے ہی دیکھتے اربوں ڈالر کے منافع تک پہنچ گئیں۔
شینجن، چین کا امیر ترین شہر ہے جس کی اوسط سالانہ آمدنی (Per-Capita Income) 26,000 امریکی ڈالر ہے جو چین کے مشہور صنعتی شہر گوانگ زو (Guangzhou) سے 4000 امریکی ڈالر زیادہ ہے جبکہ بیجنگ کی سالانہ آمدنی 7000 امریکی ڈالر ہے۔ شینزن 2025 تک ایک معیاری ڈیجیٹل سٹی بننے کی طرف گامزن ہے۔ شینجن میں 300 ارب ڈالر کے لگ بھگ براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری کی گئی ہے اور 90 ہزار سے زیادہ غیر ملکی کمپنیوں نے اپنے دفاتر قائم کئے ہیں۔ 2021 کے اعداد و شمار کے مطابق شینجن کی جی ڈی پی (GDP) 475.3 بلین امریکی ڈالر تھی۔ شینجن کی اکانومی بہت سے ممالک مثلاً ناروے، آئرلینڈ اور یو اے ای سے زیادہ ہے۔ شینجن چین کا ایک ماڈرن، صاف ترین اور قابل رہائش شہر ہے۔ یہ دنیا کے دیکھے جانے والے شہروں میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اس کی بندرگاہ دنیا میں چوتھے نمبر کی کنٹینر پورٹ ہے۔ دنیا کی 90 فیصد الیکٹرانکس اشیائ شینجن میں تیار کی جاتی ہیں۔