وی آئی پی شخصیات کیلئے غیر معمولی مراعات
پاکستان وی آئی پی شخصیات کے لیے جنت ہے جس میں نہ صرف حاضر سروس بلکہ ریٹائرڈ ہونے والی وی آئی پی شخصیات کو تاحیات غیر معمولی الاؤنس اور مراعات دی جاتی ہیں۔ پاکستان مقروض اور غریب ملک ہے جس کے کروڑوں شہری بنیادی انسانی ضروریات سے محروم ہیں۔ پاکستان کے شہری زندہ درگور ہی کیوں نہ ہو جائیں حکمران اشرافیہ کی صحت پر کچھ اثر نہیں پڑتا۔ ان کی عیش و عشرت ہر حال میں جاری رہنی چاہیے۔ پاکستان کے ایوان بالا سینیٹ نے چیئرمین، ڈپٹی چیئرمین اور اراکین سینیٹ کی تنخواہوں الاؤنسز اور مراعات کے لیے الگ قانون منظور کیا ہے جو پہلے قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کی مراعات کے قوانین سے منسلک تھا۔ سینیٹ بل کے مطابق چیئرمین سینیٹ کے آفس الاؤنس کو چھے ہزار روپے سے بڑھا کر 50 ہزار روپے کردیا گیا ہے۔ گھر کا کرایہ ایک لاکھ تین ہزار روپے سے بڑھا کر 2 لاکھ پچاس ہزار روپے ماہانہ کر دیا گیا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کی سرکاری رہائش گاہ سے فرنیچر کے لیے لیے ایک بار کے اخراجات ایک لاکھ روپے سے بڑھا کر 50 لاکھ روپے کر دیے گئے ہیں۔ نئے بل کے مطابق، غیر ملکی سفر کے لیے چیئرمین سینیٹ کو ڈپٹی ہیڈ آف سٹیٹ کا پروٹوکول ملے گا۔ جہاز پر سفر کے لیے حکومت فوج یا چارٹرڈ سروس کا جہاز کرایہ پر لیا جا سکے گا۔ چیئرمین سینٹ غیر ملکی دورے میں کمرشل فلائٹ پر گھر کا ایک فرد اور ریکوز یشنڈ جہاز پر چار افراد کو ہمراہ لے جا سکیں گے۔ سابق چیئرمین سینیٹ کو کو بارہ ملازمین کا سٹاف ملے گا ۔ سکیورٹی کے لیے چار گارڈز تعینات کیے جائیں گے جبکہ سفر کے دوران پولیس، رینجرز، فرنٹیر کور کے چار اہلکار شامل ہوں گے۔ فضائی حادثے کی صورت میں معاوضہ تین لاکھ روپے سے بڑھا کر ایک کروڑ روپے کر دیا گیا ہے۔ ارکان سینیٹ کے لیے بذریعہ سڑک سفر کے لیے الاؤنس دس روپے کلو میٹر سے بڑھا کر 30 روپے کلو میٹر کر دیا گیا ہے۔
سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے مراعات کے بل پر وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا ہے کہ 1975ء کے قانون میں موجودہ حالات کے مطابق ردوبدل کیا گیا ہے یہ سہولیات پہلے ہی دی جارہی ہیں، اس بل کی منظوری سے سرکاری خزانے پر بوجھ نہیں پڑے گا۔ شازیہ مری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پی پی پی کے چیئرمین نے اس بل کو مسترد کر دیا ہے اور پی پی پی کے جن ارکان سینیٹ نے بل کی منظوری کی حمایت کی ہے انکے خلاف پارٹی انضباطی کارروائی کریگی۔ سینیٹ کے نئے مراعاتی بل کا اطلاق آنے والے اور ریٹائرڈ چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین سینیٹ پر ہوگا۔ پاکستان کی تاریخ میں حکمران اشرافیہ نے پہلے منصوبہ بندی کر کے پاکستان کے اصل مالکوں یعنی عوام کو اس حد تک کمزور کر دیا ہے کہ وہ اب ظلم کے خلاف آواز اٹھانے کے قابل بھی نہیں رہے ۔ حکمران اشرافیہ نے عوام کی بے بسی اور مظلومی سے ناجائز فائدہ اٹھانا شروع کر دیا ہے۔ ایک جانب بیرونی اور اندرونی قرضے روز بروز بڑھتے جا رہے ہیں اور پاکستان کو دیوالیہ پن کے خطرات لاحق رہتے ہیں۔ دوسری جانب حکمران اشرافیہ اس قدر سنگدل ہو چکی ہے کہ وہ پاکستان کے معاشی زوال کے باوجود اپنی مراعات کو کم کرنے کی بجائے ان میں اضافہ ہی کرتی چلی جا رہی ہے۔
پاکستان کے عوام اپنے منتخب نمائندوں کو ووٹ کی طاقت سے سینیٹ اور قومی اسمبلی میں بھیجتے ہیں اور ان سے یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ ایوانوں میں پہنچ کر ایسی قانون سازی کریں گے جس کے نتیجے میں عوام کو ان کے بنیادی انسانی حقوق کسی مشکل کے بغیر حاصل ہو سکیں گے۔ پارلیمانی تاریخ شاہد ہے کہ عوام کے منتخب نمائندے عوام کی توقعات پر پورا اترنے میں اکثر و بیشتر ناکام ہی رہے ہیں جبکہ اپنی ذاتی مراعات کے سلسلے میں وہ بڑے پرجوش نظر آتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ پاکستان کے آئین کو وجود میں آئے پچاس سال ہوچکے مگر عوام کے منتخب نمائندے عوام کو آرٹیکل نمبر 38کے مطابق بھی ان کا حق نہیں دے سکے جو عوام کو ضمانت دیتا ہے کہ ہر بے روزگار شہری کو بنیادی ضروریات کے لیے الاؤنس دیا جائے گا۔ کاش عوام کے منتخب نمائندے ایسا قانون بھی منظور کریں جس کے نتیجے میں غریب عوام کو عزت کے ساتھ جینے کا حق مل سکے۔ ایک مصدقہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان کے ایک کروڑ 80 لاکھ شہری غلامی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں جن میں جبری مشقت کرنے والے 50 لاکھ بچے، 50 ہزار ریلوے قلی، دس لاکھ بارہ گھنٹے ڈیوٹی دینے والے پرائیویٹ سیکورٹی گارڈز، پٹرول پمپوں پر ڈیوٹی کرنے والے 2 لاکھ ملازمین شامل ہیں۔ سینیٹ بل کے خلاف شدید عوامی ردعمل کے بعد اس بل کو واپس لینے کے لیے مشاورت شروع کر دی گئی۔ اطلاعات کے مطابق یہ بل پر اسرار انداز سے منظور کرایا گیا سینیٹرز اس بل کی تفصیلات سے آگاہ نہیں تھے۔ اگر سینیٹ کے اراکین کی تنخواہوں اور مراعات کا سینیٹ میں کام کرنے والے ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات سے موازنہ کیا جائے تو خود سینیٹرز بھی شرمسار ہوئے بغیر نہ رہ سکیں گے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے :
اے مرے دیس کے لوگو، شکایت کیوں نہیں کرتے
تم اتنے ظلم سہہ کر بھی بغاوت کیوں نہیں کرتے
یہ جاگیروں کے مالک اور لٹیرے کیوں چنے تم نے
تمھارے اوپر تم جیسے ہی حکومت کیوں نہیں کرتے
یہ بھوک، افلاس، تنگدستی تمھارا ہی مقدر کیوں
مقدر کو بدلنے کی جسارت کیوں نہیں کرتے