بجٹ میں بزنس کمیونٹی کی تجاویز شامل نہیں
فرحان راشد میر
نئے مالی سال 2023-24 کے بجٹ پر تاجروں اور عوام کا ملا جلا ردعمل سامنے آیا ہے، کچھ حلقے اسے ایک متوازن بجٹ جبکہ کچھ الفاظ کا ہیر پھیر قرا ردے رہے ہیں۔بادی النظر میں تو بجٹ خوشنما نظر آرہا ہے کہ اس میں ایسے نئے ٹیکسز نہیں لگائے گئے جس سے عوام کی مشکلات میں اضافہ ہو لیکن دوسری طرف اس میں عوام کومہنگائی سے نجات دلانے کیلئے بھی کوئی واضح حکمت عملی نظر نہیں آرہی۔ تنقید کرنے والوں کا کہناہے کہ 14.5کھرب کے اخراجات کو 6کھرب، 924 ارب روپے کے خسارے سے پورا کیا جائے گا۔ صوبوں کا حصہ 5267 دے کر وفاق کے پاس بچیں گے 6887ارب روپے اور قرض وسود 7303 ارب ادا کرنے کے بعد وفاقی حکومت 416 ارب روپے کے خسارے سے دوچار ہوگی اور پہاڑ جیسے 7,157 ارب روپے کے اخراجات جو اندرونی و بیرونی قرضوں سے پورے کئے جائیں گے جو ظاہر ہے آئندہ حکومت کا درد سر ہوں گے جسے تقریباً 24 ارب ڈالرز کی رقم کو8 ماہ میں پورا کرنا ہو گا ۔
گوجرانوالہ چیمبر آف کامرس شیخ فیصل ایوب نے کہا ہے کہ بجٹ میں بزنس کمیونٹی کی تجاویز شامل نہیں کی گئیں۔آئی ٹی سیکٹر کے لیے امپورٹ پر ایک فیصد ڈیوٹی فری مذاق ہے، کم از کم دس فیصد ٹیکس چھوٹ دیناچاہئیے تھا۔چیمبر آف کامرس کے سابق صدور ملک ظہیر الحق‘ عمر اشرف مغل نے کہا ہے کہ حکومت کو معاشی استحکام کیلئے 25ارب ڈالر کی ضرورت ہے جبکہ موجودہ سال میں حکومت نے 9ارب روپے ٹیکس کولیکشن کی مد میں رکھے ہیں، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت ٹیکس کولیکشن کے اپنے اہداف کیسے پورے کرے گی۔ملکی معیشت بزنس کمیونٹی کے دیئے گئے ٹیکسوں سے ہی بہتر ہو سکتی ہے جبکہ حکومت نے بجٹ میں بزنس کمیونٹی کو ٹیکسوں میں کوئی ریلیف دیا ہے نہ امپورٹ ایکسپورٹ کے متعلق کوئی خاطر خواہ اعلانات کئے ۔ بظاہر تو لگتا ہے کہ حکومت پہلے سے ٹیکسوں گزار وں پر ہی مزید ٹیکسوں کے بوجھ ڈالے گی اس کا حجم نہیں بڑھائے گی۔ بزنس کمیونٹی جو کہ پہلے ہی بے شمار ٹیکسوں کے بوجھ تلے دبی ہے مزید ٹیکس لگا کر بزنس کمیونٹی کے مسائل میں اضافہ کیا ہے۔البتہ چیمبرز کی طرف سے جو تجاویز بھیجی گئی تھیں ان کے پیش نظر حکومت بجٹ پر نظر ثانی کرے تو یہی بجٹ بہترین بجٹ ہو سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ مہنگائی کم کرنے کیلئے بھی کوئی اعلانات نہیں کئے گئے صرف تنخواہوں میں اضافہ کافی نہیں۔ہم کاروباری لوگ بھی اپنے لیبر کی تنخواہیں بڑھا کر خوش ہوتے ہیں لیکن یہ تب ہی ممکن ہے جب ہماری فیکٹریاں چلیں گے۔دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کے قائدین وفاقی وزیر توانائی انجینئر خرم دستگیر خان‘سابق صدرچیمبر شعیب بٹ‘ سابق ایم پی اے عمران خالد بٹ نے موجودہ بجٹ کو مشکل حالات میں ایک اچھا بجٹ قرار دیا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہم جو سمجھ رہے تھے اس سے کہیں آسان بجٹ ہے۔سب سے زیادہ زراعت اور آئی ٹی سیکٹر پر فوکس کیا گیا ہے۔ جبکہ ملک میں بجلی کی ضروریات پوری کرنے کیلئے سولر سسٹم بیٹریوں پرٹیکسوں میں چھوٹ دے کر اس سیکٹر کو کافی ریلیف فراہم کیا گیاہے ۔ سستے سولر سسٹم اختیار کرنے پرحکومت کو مہنگی بجلی کی پیداوار میں ریلیف ملے گا۔حکومتی جماعت کا کہنا ہے کہ حکومت نے مشکل معاشی حالات میں بہترین بجٹ پیش کیا سرکاری ملازمین کی تنخواہوں، پینشنزاور مزدور کی کم سے کم اجرت میں اضافہ انتہائی خوش آئندہے وزیر اعظم شہباز شریف نے مہنگائی سے پسے عوام کو ریلیف دے کر ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی متحرک قیادت کی بدولت ملک کا معاشی خسارہ دن بدن کم ہو رہا ہے ملک کی تاریخ کے بدترین سیلاب کے باوجود ملک معاشی بھنورسے نکل رہا ہے عمران خان اور ان کے حواری ٹولے کی ملک کو دیوالیہ کرنے کی سازش ناکام ہو گئی ہے، انہوں نے مزید کہا صنعتی شعبے پر کوئی نیاء ٹیکس نہیں لگایا گیا زراعت کے شعبے کوفروغ کے لیے قرضوں کی رقم اٹھارہ سو ارب سے بڑھا کر اس سال بائیس سوپچاس ارب روپے کر دی گئی ہے۔ پچاس ہزرار زرعی ٹیوب ویلوں کی سولر پر منتقلی سے ڈیزل اور بجلی کا خرچ کم ہو جائے گا عالمی مارکیٹ سے نئے اور معیاری بیج درآمد کرنے پر بھی کوئی ٹیکس نہیں لگایا گیا ان اقدامات سے آنے والے دنوں کا پاکستان معاشی لحاظ سے ایک مستحکم پاکستان ہو گا جس میں ملک کے تمام طبقات کے لیے ترقی اور خوشحالی کے وسیع مواقع موجود ہو ں گے بلاشبہ موجودہ عوام دوست بجٹ کا سہرا وزیر اعظم شہباز شریف کے سر ہے۔
جہاں تک عام لوگوں کا بات ہے توان عوام کا کہنا ہے کہ ہم الفاظ کے گورکھ دھندے نہیں جانتے لیکن ہمیں بجٹ میں مہنگائی سے نجات کا کوئی ذریعہ نظر نہیں آرہا‘ کوئی حکمت عملی نظر نہیں آئی جس سے عوام کو مہنگائی کے بوجھ سے چھٹکارا ملنے کی امید ہو۔ اگر حکومت کوآئندہ الیکشن میں ووٹ چاہئیں تو عوام کو ریلیف دینا ہوگا‘ موجودہ حکومت نے جتنی مہنگائی کردی ہے اس میں عام آدمی کیلئے عزت سے زندگی گزارنا مشکل ہوچکا ہے ۔ مہنگائی سے چھٹکارے کیلئے حکومت کو معمولی نہیں بلکہ خاطر خواہ اقدامات کرنا ہونگے تاکہ عوام میں مسلم لیگ (ن) کا بری طرح مجروح تشخص دوبارہ 2018 کی سطح پربحال ہوسکے۔ عوام کی ایک بڑی تعداد نے اس رائے کا اظہار بھی کیاہے کہ جن حالات میں وطن عزیز ان دنوں گزر رہا ہے ان سے چھٹکارے کیلئے تمام سیاسی جماعتیں اپنے لئے نہیں بلکہ اس ملک کیلئے ایک پیج پر اکٹھا ہوں یہی وقت ہے کہ پاکستان کو مثبت اور ٹھوس فیصلوں کی ضرورت ہے۔تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے مفادات کو پس پشت رکھ کر پاکستان کی خوشحالی کیلئے کام کریں پاکستان کی خوشحالی عوام کی خوشحالی ہے۔