ایک عہد کی سر گزشت
زندگی کے بیتے ہوئے حالات و واقعات اور وہ یادیں جنہیں بھلایا نہ جا سکتا ہو ، انہیں قرطاس ابیض پر منتقل اس نظریہ سے کیا جائے کہ آنے والی نسلیں اس سے استفادہ کریں بلا شبہ یہ معاشرتی اقدار کو سنوارنے اور علم کی ترویج کا موجب بنتی ہے جو کہ قوموں کی ترقی کا راز بھی ہے۔
زیرِ تبصرہ کتاب ’’ ایک عہد کی سرگزشت ‘‘ جس کے راوی و مصنف ملک کے معروف صحافی ، ادیب، دانشور، محقق اور تجزیہ نگا ر اور کالم نگار محترم جمیل اطہر قاضی ہیں جو کہ عمر اور تجربہ کے لحاظ سے سن رسیدہ اور کبیر سن شمار کئے جاتے ہیں ، 1947ء سے لے کر 2015 ء تک کے حالات و و اقعات کا مجموعہ ان کے عہدِ رفتہ اور دورِ حاضر کے مضامین اور مقالات کا بے بہا خزانہ ہے جو کہ ان سے مربوط شخصیات سے متعلق ہیں، جمیل اطہر قاضی صاحب کی اڑسٹھ 68 سالوں پر محیط ’’ ایک عہد کی سرگزشت ‘‘ میں انہوں نے اپنے خاندان کی معزز اور لائقِ تعظیم ہستیوں کا ذکر بھی کیا ہے جن سے ان کو دینی و دنیاوی اور علمی اعانت و تقویت ملی اور وہ صاحب ِ آبرو ہوئے۔
سر ہند شریف بھارتی پنجاب کا ایک روحانی شہر جو ضلع فتح گڑھ صاحب میں واقع ہے ،صاحبِ کتا ب کے خاندان کا تعلق اسی روحانی شہر سرہند سے ہے، آپ کے والد ِ محترم قاضی سراج الدین سرہندی کے نامِ نامی سے منسلک نام ’’سرہندی‘‘ دیکھ کر دل میں ایک احترام انس ومحبت کا جذبہ ابھرتا ہے ، چونکہ سرہند شریف کو محبت احترام اور روحانیت کا درجہ شیخ احمد سرہندی المعروف مجدد الف ثانی مشہور عالم و صوفی کی نسبت سے نصیب ہوا ، مجدد الف ثانی ی جائے پیدائش اور وصال سرہند شریف ہی میں ہوا، جن کی بدولت سرہند کو سرہند شریف اورتصوف ِآستانے کا درجہ ملا۔
رانا عبدالرحمن کوکتاب کے اہتمام کا اعزازملا اور ان بے بہا ادبی تحریروں کی ترتیب و تدوین میں نذیر شاہد مرحوم مددگار رہے ، دوسرے رفقاء کاروں میں محترم حبیب الرحمن ، غضنفر کاظمی ، اصغر علی کھوکھر، عدیل احمد اور فیاض حسین نے جمیل اطہر قاضی صاحب کی ان تحریروں کو شب وروز کی محنت سے یکجا کیا جو کہ ملک کے مختلف جرائد میں شائع ہوئیں ، معاونین میں محترم مشتاق سرور ، نذیر خالد کا ذکر خیربھی ہے جب کہ محترم ریاض احمد چودھری سے ساٹھ سالہ رفاقت اور اس کتاب کو ترتیب میں لانے کے اصرار اور تقاضہ کو سراہا گیا ہے۔
ملک کے نامور صحافی ، ادیب، دانشور، محقق اور اردو ڈائجسٹ کے بانی الطاف حسن قریشی جن کے تحریروں اور مضامین سے پاکستان کی محبت اور اسلامی نظریات سے وابستگی عیاں ہوتی ہے ’’ ایک عہد کی سرگزشت میری نظر میں ‘‘ رقم طراز ہیں کہ ’’ پاکستان کے معروف صحافی اور صاحبِ ِ طرز انشاپرداز جناب جمیل اطہر قاضی نے’’ ایک عہد کی سر گزشت ‘‘ میں ایک ایسا گلزارِ کہکشاں آباد کیا ہے ،جو کئی پہلوئوں سے بہت منفرد ہے اور اس کا دامن ان مردانِ کار کی خوشبو سے معمور ہے ، جنہوں نے صحافت ، سیاست اور خطابت کے میدان میں کار ہائے نمایاں سر انجام دیئے، اور انتہائی نا مساعد حا لات میں آزادی اظہار اور قومی وقار کی قندیل روشن رکھی۔
معروف کالم نگار اثر چوہان نے ہمرنگ اور بلا تصنْع اندازِ تحریر میں ’’ جمیل اطہر قاضی۔۔ماضی اور حال ‘‘ کے عنوان سے اپنے دیرینہ تعلق اوریادوں کو قرطاسِ ابیض پر بکھیر کر اپنی قربت کا اظہار کیا ہے ،ملک کے نامور چالیس مدیران اخبارات کا ذکر اور ان سے کی گئی چشم کشا گفت و شنید صحافت کے طالبعلموں کے لئے جو کہ عالمی امور کے تجزیہ کار بننا چاہتے ہیں، یہ کتاب ایک تحفہ ہے۔ مولانا ظفر علی خان کی شخصیت صحافت کی دنیا میں کسی تعارف کے محتاج نہیں مولانا کی صحافتی خدمات اور انکی معروف ِ زمانہ اخبار ’’زمیندار ‘‘ کا آج بھی کسی نہ کسی حوالے سے ذکر رہتا ہے۔
زیرِ نظر کتاب میں مولانا ظفر علی خان صاحب سے ملاقات کا ذکر انتہائی مسرور کن اور علمی اعتبار سے صحافت کے طالب علموں کے لئے مشعل ِ راہ ہے ، جمیل صاحب نے اخبار "زمیندار ‘‘ کے زوال پذیرہونے کا مولانا سے شکوہ کیا تو مولانا ظفر علی خان کا جواب ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے میری نظر میں حاصلِ کتاب کا درجہ رکھتا ہے، مولانا نے کہا کہ ’’ اخبار سنگ و خشت کی عمارتوں میں زندہ نہیں رہتے ، اخبار کی اصل روح اس میں چھپنے والے الفاظ اور حروف ہوتے ہیں ، جب تک یہ دیوارِ حروف مضبوط و مستحکم رہتی ہے اخبار ’’ اخبار ‘‘ کہلاتا ہے ، اور جب چھپے ہوئے الفاظ کی توقیر ختم ہو جاتی ہے تو یہ اخبار بڑی بڑی عمارتوں سے نکل کر اس کے گیراجوں کی تاریکیوں میں گم ہو جاتے ہیں ، جب کوئی اخبار لفظ اور حرف کی توقیر کو بر قرار رکھنے میں ناکام رہتا ہے تو اس کا قاری اس کے ساتھ اپنی وابستگی برقرار نہیں رکھ پاتا ‘‘۔
دورِ حاضر میں اخبارات میں لفظ و حروف ادبی حیثیت کھو چکے ہیں ، ترتیبِ لفظ کے علاوہ الفاظ کی غلط املاء قارئین کے لئے کوفت کا باعث بن جاتی ہے۔
ایک عہد کی سر گزشت میں عہد آفرین شخصیات میں علماء کرام، اساتذہ کرام ، سیاست داں ، روحانی شخصیات ، کارکن صحافی ،احباب ، ا خبار فروش ، بیوروکریٹ ،اور ملک کے نامور شعراء کرام کا ذکر بہت عمدہ پیرائے میں کیا گیا ہے ، جبکہ علماء کرام میں عہد ساز شخصیت امیر شریعت مولانا سید عطا اللہ شاہ بخاری کی رحلت پر لکھی تحریر انتہائی دلگداز ہے ، مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کی زندگی اور جماعتی تعلق کی ایک داستان ہے جس میں محترم جمیل اطہرقاضی صاحب کی صحافت کے مختلف پہلوئوں کا بھی ذکر ہے ، ایک عہد کی سرگزشت کا شمار صحافت کے طالب علموں کے لئے ایک انسائیکلوپیڈیا کی حیثیت رکھتا ہے۔
٭…٭…٭