سیاسی استحکام
سانحہ نو مئی ایک ایسا دن ہے جس نے پاکستان میں بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دی ہیں اور وہ جان چکے ہیں کہ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کیلئے یہ سازش ایک سیاسی پارٹی کی جانب سے رچائی گئی تھی لیکن پاکستان کے لوگ چونکہ پاک فوج ااورملک سے محبت کرنے والے لوگ ہیں وہ اس کے جھانسے میں نہیں آئے اور مٹھی بھر لوگوں نے بھی نو مئی کو دہشت گردی کا ارتکاب کیا لیکن اب وہ بھی اپنے کئے پر پشیمان ہیں اور شرمندہ ہیں۔ پاکستان کو عدم استحکام کرنے کی یہ کوشش چونکہ سیاست دانوں کی ایک بڑی اکثریت بھانپ چکی ہے اور اسی لئے وہ تحریک انصاف سے لا تعلقی کا اعلان کر رہے ہیں اور اس عمل پر بھی کچھ لوگ تنقید کر رہے ہیں کہ یہ سارا کچھ ایک زبردستی کا عمل ہے جبکہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ لوگ اپنی مرضی سے تحریک انصاف کو چھوڑ کر جا رہے ہیں اور جہاں ان کا دل کر رہا ہے وہ اس پارٹی میں جا رہے ہیں اور ویسے بھی ہر انسان اپنے سیاسی عمل میں آزاد ہے اس پر کوئی دباؤ کیسے کارگر ہو سکتا ہے کیوں کہ ماضی میں یہی لوگ جوق در جوق تحریک انصاف میں بھی شامل ہوئے تھے۔ ویسے بھی جیسا کہ میں نے عرض کیا کہ پاکستان کے لوگ پہچان چکے ہیں کہ پاکستان کا استحکام کس چیز میں ہے تو وہ اسی جانب اپنا رخ کر رہے ہیں تا کہ ملک کے خراب ہوتے ہوئے حالات کو درست کیا جا سکے۔سب سے اچھی بات یہ ہے کہ وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید حافظ عاصم منیر ذاتی طور پر کوششیں کر رہے ہیں کہ ملک کو معاشی عدم استحکام سے نکالا جا سکے اور سیاسی استحکام کی بنیادوں کو مضبوط بنایا جا سکے۔ اسی مقصد کیلئے حکومت نے ایک سپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل یا سرمایہ کاریہ کونسل قائم کی ہے تا کہ ملک میں موجود معاشی عدم استحکام کو ختم کیا جا سکے۔وزیراعظم کی جانب سے قائم کردہ اس سرمایہ کاری کونسل سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کی مسلح افواج کے سپہ سالار جنرل حافظ عاصم منیر کا کہنا تھا پاک فوج معاشی بحالی کے حکومتی پلان پر عمل درآمد کی کوششوں کی بھرپور حمایت کرتی ہے اور اسے پاکستان کی سماجی و معاشی خوش حالی، اقوام عالم میں اپنا جائز مقام واپس حاصل حاصل کرنے کی بنیاد سمجھتی ہے۔فوج کی اس کونسل میں شمولیت یا آرمی چیف کی حمایت انتہائی ضروری ہے کیوں کہ ہماری مسلح افواج کے مڈل ایسٹ ممالک سے انتہائی اچھے تعلقات ہیں اور یہ تعلقات پاکستان میں سرمایہ کاری کو لا سکتے ہیں، پاکستان میں سرمایہ کاری ہو گی، پیسہ آئے گا، خوشحالی ہو گی تو ملک میں معاشی استحکام آئے گا جو سیاسی استحکام کا باعث بنے گا۔ اس وقت ملک میں موجود سیاسی عدم استحکام کو ختم کرنے کیلئے جو بھی کوششیں ہو رہی ہیں وہ قابل ستائش ہیں کیوں کہ کچھ لوگ نہیں چاہتے کہ ملک میں سیاسی استحکام پیدا ہو۔ ان کی خواہش ہے کہ ملک کا وجود عدم استحکام کا شکار ہو تو وہ اپنا کھیل شروع کر سکیں۔ ایسے میں سب سے اچھی چیز یہی ہے کہ سیاسی استحکام کی جانب سیاست دانوں نے خود سے قدم بڑھانا شروع کر دیا ہے،کیوں کہ سیاست دانوں نے ہی ملک کو چلانا ہے اور پاک فوج اس کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کی محافظ ہے جب ریاست کے یہ ستون مل کر کام کریں گے تو کوئی شک نہیں ہے کہ ملک میں استحکام پیدا ہو گا اور جب ملک میں استحکام پیدا ہوگا تو لامحالہ یہ استحکام پاکستان کے دشمن کو اچھا نہیں لگے گا۔ اس لئے ایسی سیاسی قوتیں اس وقت جو ملک میں عدم استحکام کو پھیلانے کا کام کر رہی ہیں اور سیاسی عمل کی بہتری میں روڑے اٹکا رہی ہیں وہ اس وقت دشمن کے ہاتھوں جانے انجانے میں کھیل رہی ہیں۔ کالم کے آغاز میں عرض کیا تھا کہ سیاست چھوڑنے یا تحریک انصاف چھوڑنے والے خود مختار لوگ ہیں اور وہ جان چکے ہیں کہ پاکستان کی بہتری اور سیاست کا مستقبل بھی اسی میں ہے کہ ملک میں سیاسی استحکام کو مضبوط تر بنانے کے عمل میں شریک ہوا جائے نہ کہ کسی جماعت یا ایسے لیڈر کے جھانسے میں آ کر عدم استحکام پھیلایا جائے تو جوان کے بچوں کا مستبقل ہی تاریک کر دے۔پھر پاکستان میں یہ کوئی پہلی بار نہیں ہو رہا ماضی میں بھی لوگ ایک سیاسی جماعت کو چھوڑ کر دوسری سیاسی جماعتوں میں شمولیت اختیار کرتے رہے ہیں تب تو کسی نے ان کی شمولیت یا پارٹی کو چھوڑنے کے عمل کو شک کی نگاہ سے نہ دیکھا اور اب جب کہ وہ جان چکے ہیں کہ انہیں استعمال کیا گیا، ان کو ایندھن بنا کر کسی نے اپنا چولہا جلانے کی کوشش میں ملک کو ہی جلا ڈالا تو جب وہ جان چکے ہیں کہ یہ عمل نہ ان کیلئے بہتر تھا اور نہ ہی ملک کیلئے تو پھر کوئی ذی شعور شہری کیوں نہ ایسے عمل سے لا تعلقی اختیار کرے گا بلکہ اس کی مذمت بھی کرے گا۔اب جب کہ ملک میں سیاسی استحکام کا عمل شروع ہو چکا ہے اور سیاسی پارٹیوں نے اپنی اپنی انتخابی حکمت عملی بھی بنانی شروع کر دی ہے تا کہ اگلے الیکشن میں فتح حاصل کر کے ملک کی ترقی میں اپنا کردار ادا کر سکیں تو اس عمل کو سراہنے کے ساتھ ساتھ اس کو مضبوط کرنے میں ہر شہری کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ کیوں کہ جب ہر شہری اپنی ذمہ داری نبھائے گا اور وہ جان جائے گا کہ ملک کے استحکام کیلئے کیا چیز بہتر ہے اور کون سی چیز نقصان دہ ہے تو ملک دشمن قوتوں کیلئے ان کا یہ عمل اور سوچ ایک طمانچے کے برابر ہو گی۔