• news

فٹ پاتھ کے خواب اور سینٹ چیئرمین کے لئے

 احمد سلمان نے لکھا تھا۔
کچل کچل کے نہ فٹ پاتھ کو چلو اتنا
یہاں پہ رات کو مزدور خواب دیکھتے ہیں
 ایسے حالات میں جب مثالی خوابوں کے تعاقب میں یونان کے ایک جزیرے پیلو پر پہنچنے کی خواہش میں پاکستان کے ان گنت گھروں کے چراغ گل ہو گئے ہیں، ہمارے ہاں عجیب صورت حال سامنے آ رہی ہے۔موجودہ سیاسی اور معاشی حالات میں وقت کا تقاضا تو یہ ہے کہ پارلیمانی سطح پر کوئی ایسا فیصلہ نہ ہو جو پہلے سے زیر بحث موجودہ سیٹ اپ پر تنقید کے مزید دروازے کھول دے۔ چیئرمین سینٹ سیلریز الاوئنس اینڈ پریولجز ایکٹ 2023 کو سینٹ میں  پرائیویٹ ممبرز ڈے پر رازداری کے ساتھ اور جلدی میں پاس کرانے کے عمل نے  ارکان پارلیمنٹ کو  امتحان میں ڈال دیا ہے۔ اس بل کے ذریعے ناقابل یقین مراعات اور بھاری رقوم اور عملہ عہدے کے دوران اور ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد بھی سینٹ چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کا نصیب بنا دیا گیا ہے اور یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہوا ہے جب پاکستان تاریخ کے ایسے بدترین معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس سے بچنے اور زر مبادلہ بچانے کے لئے میاں شہباز شریف کی حکومت نے درامدات کم کرنے پالیسی اپنائی تھی لیکن اب مجبوری اتنی بڑھی ہے کہ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے آئی ایم ایف کی ایک اور شرط پوری کرتے ہوئے درآمدات (امپورٹ) پر عائد تمام پابندیاں ختم کردی ہیں۔ سٹیٹ بینک نے امپورٹ پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا سرکلر جاری کرتے ہوئے بندرگاہوں پر پھنسے ہوئے 6 ہزار سے زائد کنٹینرز ریلیز کرنے کے لیے بینکوں کو زرمبادلہ کی فراہمی کی اجازت دے دی۔سٹیٹ بینک نے جاری سرکلر میں کہا ہے کہ سٹیٹ بینک کی جانب سے درآمدات پر عائد پابندیاں ختم کردی گئی ہیں، امپورٹ کے لیے زرمبادلہ کی فراہمی میں ترجیحی درآمدات کی شرط ختم کردی گئی ہے اور اب تمام درآمدات کے لیے بلاتفریق زرمبادلہ فراہم ہوگا جو پہلے ہی بہت کم رہ گیا ہے۔، زرمبادلہ کے مجاز ڈیلرز کو تمام درآمدات کے لیے زرمبادلہ فراہم کرنے کی ہدایت کردی گئی ہے۔مرکزی بینک کے مطابق فیصلہ سٹیک ہولڈرز کی تجاویز پر کیا گیا۔ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف پرگروام کی مدت ختم ہونے میں ایک ہفتہ باقی ہے اور حکومت کی پوری کوشش ہے کہ آئی ایم ایف کو راضی کیا جاسکے جس کے لیے درامدات پر عائد قدغن ختم کرنے کی آئی ایم ایف کی شرط بھی پوری کی گئی ہے۔ عجب بات یہ ہے کہ پاکستان میں تمام متحارب فریق اس دکھ کو محسوس کر رہے ہیں۔ گویا اندر سے حال یہ ہے کہ 
ہم بھی شکستہ دل ہیں پریشان تم بھی ہو
اندر سے ریزہ ریزہ میری جان تم بھی ہو 
 پاکستان کی کمزور پوزیشن کو سامنے رکھتے ہوئے ہی ایک دوسرا منظر نامہ یہ ہے کہ امریکہ اور بھارت کے مشترکہ اعلامیہ میں  آئوٹ آ ف وے  جا کر پاکستان کا ذکر کیا گیا اور اسے دہشت گردی سے جوڑا گیا ہے۔ اسی حوالے سے پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ آصف کو کہنا پڑا ہے کہ امریکی صدر اورگجرات کے قصائی کامشترکہ اعلامیہ افسوسناک ہے ، حکومت وائٹ ہاوس کے اعلامیہ کا ضرور جواب دے گی۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے نے امریکی صدر جوبائیڈن اور مودی کی ملاقات سے متعلق وائٹ ہاوس کے اعلامیہ پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ امریکی صدر یا وائٹ ہاوس کو اعلامیہ جاری کرنے سے پہلے سوچنا چاہیے تھا، واشنگٹن نے ہی گجرات میں دہشت گردی پر مودی کا ویزا بند کردیا تھا، گجرات میں ہزاروں مسلمانوں کو قتل، خواتین کی عصمت دری کی گئی، مودی کے ہاتھ اس وقت بھی خون سے رنگے تھے ، آج بھی رنگے ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے ، کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں جاری ہیں۔، پاکستان آج بھی اس سے نبردآزما ہے ، آج بھی ہمارے فوجی جوان شہید ہورہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ امریکہ کو دہشتگردی کا پس منظر یاد رکھنا چاہیے ، خطے میں دہشتگردی کا بیج بونے میں امریکا کا بھی کردار ہے ، بھارتی حکمران دہشت گردی کو پروان چڑھارہے ہیں۔وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ امریکہ کو اعلامیہ جاری کرتے ہوئے کشمیریوں پر مظالم یاد نہ آئے ، امریکہ کی چھوڑی دہشت گردی کا پاکستان آج بھی مقابلہ کر رہا ہے ، بھارت میں وزیر اعظم اور وزرا دہشت گردی کو فروغ دے رہے ہیں ، وائٹ ہاوس اعلامیہ خطے کی تاریخ اور امریکی کردار سے نابلد ہونے کا ثبوت ہے۔ ہم تونائن الیون کے بعدبھی انکے اتحادی بنے ، جولوگ دہشتگردی کررہے ہیں اورسرحدپارجارہے ہیں یہ امریکی جنگ کاشاخسانہ ہے ، آج بھی پاکستانی قوم حلیف ہونے کاجرمانہ بھگت رہی ہے۔خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ دونوں افغان جنگوں میں پاکستان ہراول دستہ تھا، اس جنگ کے نتیجے میں ہم نے دہشتگردی کوملک میں دعوت دی، ان کے لئے جنگیں کمرشل انویسٹمنٹ ہوتی ہے ، آج یورپ میں جوجنگ جاری ہے۔ وہ بھی اسی طرح کی ہے۔وزیر دفاع نے امریکی صدر اورگجرات کے قصائی کے مشترکہ اعلامیے کو افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ جو امریکی اعلامیہ آیا وہ پاکستانی قوم اورحکومتوں کیلئے شرمناک ہے۔ جواب میں بھارتی سوشل میڈیا نے پاکستان کے موجودہ حالات کی بنیاد پر جوابی پروپیگنڈہ شروع کر دیا ہے اور سپریم کورٹ میں سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ جواد ایس خواجہ اور سابق صدر سپریم کورٹ بار اعتزاز احسن کی رٹوں کے حوالے دئے جا رہے ہیں اور تحریک انصاف کے مختلف راہنما?ں کے پارٹی چھوڑنے کے پس منظر کو اور پولیس کی کارروائیوں کو بیان کر کے امریکہ بھارت مشترکہ بیانیے کو درست ثابت کرنے کا ڈرامہ رچایا جا رہا ہے۔ہم نے پہلے بھی لکھا ہے کہ پاکستان اپنے ایٹمی اثاثوں کی وجہ سے عالمی سطح پر مختلف حملوں اور سازشوں کا نشانہ ہے۔ آئی ایم ایف سمیت کئی ادارے اس حوالے سے استعمال ہو رہے ہیں۔ ہماری عسکری اور سیاسی قیادت کے لئے یہ امتحان کا وقت ہے۔ توڑنے کی بجائے جوڑنے کا وقت ہے۔ سب کے لئے ذاتی مفادات پر قومی مفادات کو ترجیح دینے کا وقت ہے۔کمزور لمحات میں سینٹ چئیر مین کی مراعات میں حیران کن اضافے جیسے فیصلے کرنے کا وقت نہیں ہے۔ پسے ہوئے طبقات کے خوابوں کی تعبیر اور ان کا ہاتھ تھامنے کا وقت ہے۔ اگر اسی طرح ہوتا رہا تو پھر ایک دن ہم سب پچھتائیں گے اوردنیا اس سے بھی برا سلوک کر سکتی ہے جو اس وقت کررہی ہے۔
سبب کچھ اور ہے تو جس کو خود سمجھتا ہے 
 زوال بندہ ٔ مومن کا بے زری سے نہیں

ای پیپر-دی نیشن