قومی معیشت پس منظر میں
اِس وقت مفلوک الحال عوام کی پتھرائی ہوئی متفکر نظریں ملکی معیشت کی شکستگی اور زبوں حالی کے عفریت کو زیر کرنے کی حکومتی ثمر آور کاوشوں کے مثبت نتائج پر جمی ہیں. حکومت وقت نے یقیناً اپنے تئیں بہت جتن بھی کئے ہوں گے مگر ابھی تک معیشت میں بہتری اور مہنگائی پر حکومتی دسترس کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
آئی ایم ایف سے حکومتی معاہدہ طے پانے کی میعاد میں تقریباً ایک ہفتہ باقی بچا ہے. حکومت کی امریکی اور اب برطانوی حکام کو آئی ایم ایف سے معاہدہ طے کروانے کی اپیلیں فی الحال بارآور ثابت نہیں ہو سکیں. شروع دن سے ہی پی ڈی ایم کے عمائدین شدید دباؤ کی حالت میں دفاعی پوزیشنوں پر نظر آ رہے تھے۔
آمدہ عام انتخابات کے ممکنہ نتائج کے حوالے سے پی ڈی ایم اور خاص طور پر مسلم لیگ ن کے فکر مند رہبر جماعتی سطح پر بھی تنقید کی زد میں تھے کہ انہوں نے اقتدار کے بدلے میں ایک جاں بلب معیشت جہیز میں لینا کیوں قبول کی؟
ماہرین معاشیات کے خیال میں حکومت سے ملکی معیشت سنبھلتی نظر نہیں آ رہی. کیا آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ بحال نہ ہونے کی صورت میں حکومت کے پاس کسی متبادل منصوبہ بندی میں کوئی اہم پیش رفت ہوئی ہے؟
ماہرین کے نزدیک اِس کا جواب نفی میں ہے. اِس کی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف کے بغیر پاکستان کو دوست ممالک سے امداد ملنے کی توقع دیوانے کی بڑ اور عوام کو مطمئن کرنے کی ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں.
رہی بات کان کنی اور دیگر شعبہ جات میں 112 ارب ڈالر غیر ملکی سرمایہ کاری کے دعووں کی، تو اِس سلسلے میں عرض ہے کہ جب اشرافیہ کی جائیدادیں اور اولادیں بیرون ملک ہونگی تو سیاسی سر پھٹول اور معاشی ابتری کے عالم میں کون غیر ملکی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لئے آگے بڑھے گا.
پچھلے چند ہفتوں سے پے در پے کچھ ایسے حالات درپیش آئے جس سے وقتی طور پر حکومت، اپوزیشن اور عوام کی توجہ معیشت کی شکست و ریخت کے قضیے سے کسی حد تک کم ہو گئی. یونان کی سمندری حدود میں کشتی ڈوبنے سے تین سو سے زائد پاکستانیوں کی زندگیوں کا دردناک انجام اور ان کے والدین کا دہکتے ہوئے کوئلوں پر جلتے اور سسکتے ہوئے زندگی گزارنا کتنا اجیرن اور جانگسل ہو سکتا ہے، یہ تپش وہی محسوس کر سکتے ہیں. ان کی غیر قانونی طور پر یورپ جانے کی غلطی اپنی جگہ، مگر ریاست کی بھی ذمہ داریاں ہوتی ہیں.
اگر ملکی معیشت ٹھیک ہوتی اور نوجوانوں کو روزگار کے مواقع میسر ہوتے تو یہ تعداد شاید بہت کم ہوتی. علاوہ ازیں سیاستی آبدوز میں سوار ٹائی ٹائینک کا ملبہ دیکھنے کے شوقین چھ افراد، جن میں دو پاکستانی باپ بیٹا، شہزادہ حسین داؤد اور سلیمان داؤد شامل تھے، جس طرح المناک حادثے سے دوچار ہوئے. اِس پر بھی لوگ دکھی ہیں.
چئیرمین سینٹ اور ڈپٹی چیئرمین سینٹ کی بھاری بھر کم مراعات کے بل کو جس انداز میں شرف قبولیت بخشا گیا وہ ہماری گرہن زدہ معیشت کے منہ پر بھر پور طمانچہ ہے. حکومتی وزراء تک بھی اِس بل کی حمایت نہیں کر پا رہے. مصدق ملک، وزیر مملکت برائے پٹرولیم نے اِس پر تنقید کی.
دوسری طرف عدلیہ نے اپنے سپریم کورٹ کے ملازمین کی تنخواہوں میں دوگنا سے بھی زیادہ اضافہ کر دیا. یہ خوش بخت ملازمین دوسرے سرکاری ملازمین کے مقابلے میں پہلے ہی زیادہ تنخواہیں اور دیگر مراعات حاصل کر رہے تھے۔
وزیراعظم نے ملک میں جاری موجودہ اقتصادی بحران کے تناظر میں عدلیہ سے کفایت شعاری کی درخواست بھی کی ہوئی تھی. اِن حالات میں اب تو ڈاکٹر، انجینئر اور سی ایس پی آفیسر بھی رشک و حسرت سے اِس خواہش کا اظہار کر رہے ہیں کہ کاش ہم بھی پارلیمنٹ، سپریم کورٹ یا سٹیٹ بینک کے ملازم ہوتے. کیا ایک ریاست میں بندہ و صاحب و محتاج و غنی پر تنخواہوں اور دیگر مراعات کا ایک جیسا فارمولا لاگو نہیں ہونا چاہیے؟
اِس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں کہ ایک بندے کی انا اور ضد کی وجہ سے قابلِ مذمت سانحہء 9 مئی نے بہت کچھ بدل کر رکھ دیا. ایک اچھی بات بھی وقوع پذیر ہوئی کہ افواج پاکستان اور عوام کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے کم ہوئے۔ اقوام عالم میں ہماری بہت بدنامی ہوئی. پی ٹی آئی شکست و ریخت کا شکار ہو کر منقسم ہو گئی. شیخ رشید احمد نے تیزی سے پی ٹی آئی چھوڑنے والوں کے لئے اپنے مخصوص انداز میں کچھ یوں لب کشائی کی
"پارٹی چھوڑنے میں میراتھن ریس لگی ہے... بزدل عدت بھی پوری نہیں کر رہے. لوگ اِس طرح پارٹی چھوڑ رہے ہیں جس طرح بلو کے گھر جا رہے ہوں". مزے کی بات یہ ہے کہ اڑان بھرنے والوں میں بلو کے گھر جانے کی سریلی صدائیں لگانے والا خود بھی شامل تھا. اس کے بعد تو بیت باھوکا یہ مصرہ مسلسل کانوں میں گونجتا رہا، " تاڑی مار اڈا نہ باہو اسی آپے اڈن ہارے ہو".
حساس مقامات پر متشددانہ کارروائیوں میں ملوث ہونے کی پاداش میں حملہ آوروں پر آرمی ایکٹ 1952 کے تحت مقدمات چلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے. حکومت کی منظوری کے باوجود ہنوز اِس پر عملدرآمد ممکن نہیں ہو سکا.۔
سویلینز کے ملٹری عدالتوں میں مقدمات چلانے کے خلاف دائر کی جانے والی درخواستوں پر چیف جسٹس آف پاکستان نے سپریم کورٹ میں ایک 9 رکنی بینچ تشکیل دیا تھا. جسٹس فائز عیسٰی اور جسٹس طارق مسعود نے پریکٹس اینڈ پروسیجرل بل کا فیصلہ ہونے تک بنچ میں بیٹھنے سے معذرت کر لی. بدلتی فضا میں چیف جسٹس آف پاکستان نے 9 رکنی بینچ کو 7 رکنی بینچ میں بدل دیا ہے جو اب اس کیس کی سماعت کر رہا ہے.
یہ صورت حال دنیا کے لئے دلچسپ سہی مگر ہمارے لئے افسوسناک ہے. ایک طرف ریاستی ستون اپنی بالادستی منوانے اور قائم رکھنے کی آرزو میں کسی بھی حد تک جانے کے لئے تیار ہوتے ہیں تو دوسری طرف خود ادارے کے اندر جسٹس صاحبان کے درمیان آئینی اور قانونی معاملات پر اختلاف کی حقیقتیں ایک کھلے راز کی طرح آشکار ہو کر عوام کے ذہن میں بد گمانیاں پیدا کرنے کا موجب بن رہی ہیں۔
"پی ٹی آئی پراجیکٹ" کے تیکھے نقوش اور دلکش خدوخال سانحہ 9 مئی کے بعد شام کے دھندلکے کی مانند غیر واضح دکھائی دے رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو شام سے رات ہونے میں وقت ہی کتنا لگتا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ملکی معیشت سے کافی حد تک بے نیاز دکھائی دے رہی ہیں۔ وہ پی ٹی آئی کے راہنماؤں کو پارٹی سے الوداع ہوتے دیکھ کر اِس گمان میں مبتلا ہیں کہ پی ٹی آئی کا ووٹ بینک منقسم ہونے سے ملکی معیشت کی مفلوک الحالی کے باوجود پی ڈی ایم کی جماعتوں کو آئندہ عام انتخابات میں نقصان نہیں پہنچے گا.
٭…٭…٭