• news

تاحیات نااہلی ختم، حد 5 سال مقرر، بل منظور ، نواز شریف ، جہانگیر ترین کو فائدہ ہوگا 


اسلام آباد(نا مہ نگار) اراکین پارلیمان کی نااہلی کو سابقہ اثر کے ساتھ5 سال تک محدود کرنے کا بل سینیٹ سے منظور ہونے کے بعد قومی اسمبلی سے بھی منظور ہوگیا۔اس بل پر صدر کے دستخط ہونے کے بعد قانون بن جانے کا امکان ہے۔قانون بننے کے بعد مسلم لیگ(ن) کے قائد نواز شریف اور استحکام پاکستان پارٹی کے پیٹرن اِن چیف جہانگیر ترین کی تاحیات نااہلی ختم ہونے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔ترمیمی بل کے تحت نااہلی کی مدت 5 سال سے زیادہ نہیں ہوگی۔بل کی منظوری سے الیکشن کمیشن کو الیکشن پروگرام، شیڈول کا اعلان کرنے کا اختیار واپس مل گیا جس میں کسی بھی قسم کی تبدیلی بھی الیکشن کمیشن کا اختیار ہوگا۔الیکشن ایکٹ میں متعارف کرائی گئی ترامیم میں کہا گیا ہے کہ سیکشن 57 (1): کمیشن عام انتخابات کی تاریخ یا تاریخوں کا اعلان سرکاری گزٹ میں نوٹی فکیشن کے ذریعے کرے گا اور حلقوں سے اپنے نمائندوں کا انتخاب کرنے کا مطالبہ کرے گا۔ سیکشن 58: سیکشن 57 میں موجود کسی بھی چیز کے علاوہ کمیشن اس دفعہ کی ذیلی دفعہ (1) کے تحت نوٹی فکیشن کے اجرا کے بعد کسی بھی وقت الیکشن کے مختلف مراحل کے لیے اس نوٹی فکیشن میں اعلان کردہ انتخابی پروگرام میں ایسی تبدیلیاں کر سکتا ہے یا جاری کر سکتا ہے یا اس ایکٹ کے مقاصد کے لیے ایک نیا انتخابی پروگرام جس میں رائے شماری کی تازہ تاریخ (تاریخوں) کے ساتھ تحریری طور پر ریکارڈ کیا جانا ضروری ہے۔قومی اسمبلی سے الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 232 (قابلیت اور نااہلی) میں ترمیم بھی منظور کی گئی۔اس ترمیم کے بعد 5 سال سے زیادہ نااہلی کی سزا نہیں ہوگی اور متعلقہ شخص قومی یا صوبائی اسمبلی کا رکن بننے کا اہل ہوگا۔اس حوالے سے کہا گیا کہ اس ایکٹ کی کسی دوسری شق میں موجود کسی بھی چیز کے باوجود اس وقت نافذ العمل کوئی دوسرا قانون اور سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ سمیت کسی بھی عدالت کے فیصلے، حکم یا حکم نامے، آئین کے آرٹیکل 62 کی شق (1) کے پیراگراف (ایف) کے تحت منتخب کیے جانے والے شخص کی نااہلی یا پارلیمنٹ یا صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے برقرار رہنے کی مدت پانچ سال سے زیادہ نہیں ہو گی اور اس طرح اعلان قانون کے مناسب عمل کے تابع ہوگا۔ترمیم میں مزید کہا گیا کہ نااہلی اور اہلیت کا طریقہ کار، طریقہ اور مدت وہی ہونا چاہیے جیسا کہ آئین کے آرٹیکل 63 اور 64 کی متعلقہ دفعات میں خاص طور پر دیا گیا ہے۔علاوہ ازیں قانون میں جہاں کہیں بھی اس حوالے سے کوئی طریقہ یا مدت فراہم نہیں کی گئی، اس ایکٹ کی دفعات لاگو ہوں گی۔

قومی اسمبلی ترمیم

ای پیپر-دی نیشن