پیوٹن کے اقتدار میں دراڑ ، معاہدہ پر مجبور ہوئے، امریکہ ، روس میں افراتفری پھیل چکی ، یوکرائن
ماسکو‘ واشنگٹن‘ بیجنگ‘ منسک (نوائے وقت رپورٹ‘ این این آئی) روس میں ہونے والی بغاوت کے حوالے سے معاہدہ طے پا گیا ہے جس کے مطابق باغی چیف پریگوزن بیلا روس چلے جائیں گے۔ سربراہ سمیت باغیوں پر مقدمہ نہیں چلے گا۔ معاہدہ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی ثالثی میں طے پایا ہے۔ کریملن نے کہا ہے کہ ویگنر گروپ کے ساتھ ڈیل خونریزی سے بچنے کیلئے کی گئی۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ باتیں کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف نے صحافیوں کو بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ لوکاشینکو نے روسی صدر ولادی میر پیوٹن اور پریگوزن کے درمیان معاہدے میں ثالثی کی پیش کش کی تھی۔ ویگنر کے جن جنگجوﺅں نے ان کے انصاف کےلئے مارچ میں حصہ لیا تھا، انہیں روس کے لیے ان کی سابقہ خدمات کے اعتراف میں کسی کارروائی کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ان کے علاوہ جن جنگجوﺅں نے اس بغاوت میں حصہ نہیں لیا تھا، وہ روسی وزارت دفاع کے ساتھ معاہدوں پر دستخط کریں گے۔ وزارت دفاع یکم جولائی تک تمام خودمختار رضاکار فورسز کو اپنے کنٹرول میں لانے کی کوشش کر رہی ہے۔ اگرچہ خود صدر پیوٹن نے اس سے قبل بغاوت میں حصہ لینے والے جنگجوﺅں کو سزا دینے کا عہد کیا تھا، لیکن پیسکوف نے کہا کہ معاہدے کا اعلیٰ مقصد تصادم اور خونریزی سے بچنا تھا‘ تاہم ترجمان نے یہ بتانے سے انکار کر دیا کہ آیا پریگوزن کو ان کی حفاظت کی ضمانت کے علاوہ کوئی رعایت دی گئی ہے یا نہیں۔ پیسکوف نے کہا کہ مزید کوئی شرائط نہیں ہیں جن کے بارے میں، میں آپ کوکچھ بتا سکتا ہوں۔ اس سے قبل پریگوزن نے مطالبہ کیا تھا کہ وزیر دفاع سرگئی شوئیگوو اور چیف آف جنرل سٹاف ویلری گیراسیموف کو ان کے حوالے کیا جائے۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا معاہدے کے نتیجے میں روسی وزارت دفاع میں کوئی تبدیلیاں ہوں گی۔ انہوں نے کہا کہ ایسے معاملات روسی فیڈریشن کے آئین کے مطابق سپریم کمانڈر ان چیف (پیوٹن) کا واحد استحقاق ہیں۔ لہذا اس بات کا امکان نہیں کہ مذکورہ بالا رابطوں کے دوران میں ان موضوعات پر تبادلہ خیال کیا گیا ہے۔ برطانوی خبر رساں ایجنسی کے مطابق ویگنر کے سربراہ یوگینی پریگوزین اور روس کے فوجی پیتل کے درمیان جھگڑا گزشتہ روز پرتشدد شکل اختیار کر گیا۔ ان کی افواج نے ہفتے کے روز جنوبی روس میں فوج کے ایک اہم ہیڈکوارٹر پر قبضہ کر لیا اور پھر دارالحکومت کو دھمکی دیتے ہوئے شمال کی جانب پیش قدمی کی تھی۔ یہ ایک ڈرامائی دن تھا جس میں صدر ولادی میر پیوٹن نے خانہ جنگی کے خلاف خبردار کرتے ہوئے مقامی لوگوں کو سڑکوں سے دور رہنے کا مشورہ دیا تھا اور کیف میں لوگ افراتفری کا شکار ہو گئے تھے۔ یہ صورتحال اچانک بدل گئی جب پریگوزن نے یہ اعلان کیا کہ روسی دارالحکومت میں خونریزی سے بچنے کیلئے اس کی فوجیں میدانی کیمپوں میں واپس جا رہی ہیں۔ یوکرائن میں سرکاری عہدیداروں نے کہا کہ صورتحال نے پیوٹن کو رسوا کیا ہے۔ صدارتی معاون میخائیلو پوڈولیاک نے ٹوئٹر پر کہا کہ پریگوزن نے پیوٹن کی تذلیل کی اور خدشہ ظاہر کیا کہ تشدد پر اب اجارہ داری نہیں رہی۔ تجزیہ کاروں نے کہا کہ پریگوزن اور ویگنر کو اس کے ممکنہ نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔ امریکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق امریکی جاسوس ایجنسیوں نے کچھ دن پہلے کچھ شواہد حاصل کئے کہ پریگوزن کارروائی کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔ امریکی صدر جو بائیڈن نے فرانس‘ جرمنی اور برطانیہ کے رہنماﺅں سے ان خدشات کا اظہار کیا تھا کہ جوہری ہتھیاروں سے لیس ملک پر پیوٹن کا کنٹرول ختم ہو سکتا ہے۔ امریکی وزیرخارجہ انٹونی بلنکن نے روس کی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ روس میں بغاوت کی کوشش نے صدر پیوٹن کے اقتدار میں دراڑ کو بے نقاب کردیا۔ بغاوت کی کوشش صدر پیوٹن کے اختیارات کو براہ راست چیلنج تھا۔ صدر پیوٹن بغاوت کی کوشش میں معافی کے معاہدے پر مجبور ہوئے۔ چین نے روس کی صورتحال پر بیان میں کہا ہے کہ روس میں قومی استحکام کی چین حمایت کرتا ہے۔ چینی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ روس میں حالیہ کشیدگی روس کا اندرونی معاملہ ہے۔ یوکرائن کے صدر ولادی میر زیلنسکی نے صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ویگنر کی بغاوت سے پتہ چلتا ہے کہ روس میں مکمل طورپر افراتفزی پھیل چکی ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ کوئی بھی کریملن کی روس پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرنے کی صلاحیت کے بارے میں غلط فہمی کا شکار ہو سکتا ہے۔ وہ مسئلے کو ملتوی کر دیتا ہے۔ روسی صدر ولادی میر پیوٹن کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہ آپ کی افواج جتنی دیر تک یوکرائن کی سرزمین پر رہیں گی‘ روس کو اتنا ہی زیادہ نقصان پہنچے گا۔