دوہرا معیار
دنیا بدل رہی ہے۔ دوستیاں اور اس کے تقاضے تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ملکی مفادات کی خاطر کل کے دشمن آج بغل گیرہورہے ہیں۔ جہاں جنتا مفاد وہاں اتنی دوستی۔ ملکی مفاد ہی عالمی سطح پر دوستیاں اور دشمنیاں کا محور ہے۔ اسی محور کی وجہ سے بھارت اور امریکہ کے درمیان رومانس کا نیا دور شروع ہوگیا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم کے دورہ امریکا کے موقع پر دونوں نے اپنے اپنے مفادات کو لیکر سات پھیرے لگائے اور آئندہ ایک دوسرے کے مفادات کا خیال رکھنے کے عہد و پیماں کیے۔ اس کا اندازہ امریکی صدر جو بائیڈن اور بھارتی وزیراعظم کے درمیان ہونے والی ملاقاتوں کے بعد جاری ہونے والے اعلامیہ سے لگایا جاسکتا ہے جس میں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت نے ایک بار پھر دہشت گردی کا ڈھول پیٹا مگر اس بار امریکا نے بھی تال سے تال ملاکر بھارتی سْر میں بات کی۔ حالانکہ پاکستان امریکہ کی جانب سے دہشت گردی کیخلاف لڑی جانے والی جنگ میں نہ صرف بنیادی معاون رہا بلکہ اسی ہزار سے زائد جانوں کی قربانیاں بھی پیش کیں۔ امریکا جنگ کی وجہ سے ہی پاکستان خود دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا اور وہ بوجھ اٹھایا جس کا ازالہ ہی ممکن نہیں۔
عالمی سطح پر دو ممالک کے درمیان اچھے تعلقات کا ہونا خوش آئند بات ہے مگر اپنے مفادات کیلئے کسی دوسرے ملک پر الزامات لگانا وہ بھی دہشت گردی کے، کسی طور بھی حوصلہ افزا نہیں۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان کئی جنگی ہوچکی ہیں ایسے میں امریکا بھارت کا مشترکہ اعلامیہ دونوں ممالک کے درمیان پہلے سے موجود کشیدہ تعلقات کو مزید کشیدہ بنائے گا۔ اگرچہ پاکستان نے اس اعلامیہ کو سختی سے مسترد کیا اور اس پر احتجاج بھی کیا لیکن ہٹ دھرم بھارت نے اسے بالکل بھی سنجیدہ نہیں لیا۔
اْدھر سے بھارت کو امریکی کی تھپکی کیا ملی ادھر جارحیت کا پھر آغاز کردیا۔ مودی کے دورہ امریکا مکمل ہوتے ہی بھارتی فورسز نے کنٹرول لائن پر طویل عرصے سے قائم جنگ بندی معاہدے کو توڑتے ہوئے بلااشتعال فائرنگ کی۔ بھارتی فائرنگ سے ایل او سی کے قریب آباد علاقے کے دو شہری شہید ہوئے جبکہ ایک شخص زخمی بھی ہوا۔
پاکستان اور بھارت دونوں ایٹمی ممالک ہیں۔ دونوں کے درمیان پائے جانے والی کشیدگی پہلے سے ہی خطے کے امن کیلئے خطرہ ہے لیکن اب امریکی رومانس کے بعد جارحیت کے نئے دور کا آغاز کرتے ہوئے مودی نے پورے جنوبی ایشیا کو نئے خطرات سے دو چار کردیا۔ بائیڈن کی تھپکی سے جارح مزاج رکھنے والا مودی کا دماغ مزید خراب ہوگا۔ لہذا عالمی برداری کو سنجیدگی سے ان عوام کو دیکھنا اور بھارت کو جارحیت سے روکنا ہوگا۔ وقت آگیا ہے کہ امریکہ سمیت عالمی دنیا کو دوہرا معیار ختم کرنا ہوگا۔ ورنہ دو ارب سے زائد انسانوں کے اس خطے میں آگ و خون کا کھیل بپا ہوگا۔پاکستان نے دنیا کو بروقت ان خطرات سے آگاہ کردیا مگر یہ کافی نہیں ہے۔ امریکا اور بھارت کے درمیان دوستی کے نئے دور کی طرح حکومت وقت کو بھی عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانا ہوگا۔ ملکی مفادات کو نظر میں رکھتے ہوئے دنیا میں نئے دوست بنانے ہوں گے۔ چین ، سعودی عرب، قطر، ترکیہ ، ملائشیا اور دیگر قابل اعتماد ممالک کے ساتھ تعلقات مزید مضبوط کرنا ہوں گے۔ ساتھ ہی روس کی قربت بھی وقت کی ضرورت ہے۔ یہ بات عیاں ہے کہ عالمی سطح پر تنہا نہیں چلا جاسکتا۔ دنیا کے قدم کے ساتھ قدم رکھ کر ہی آگے بڑھا جاسکتا ہے۔
قارئین کرام! زمین پر تو روز حادثات و واقعات پیش آتے ہیں اور بعض واقعات ایسے بھی ہوتے ہیں جو پوری انسانیت کو ہلا کر رکھ دیتے ہیں۔اسی مہینے میں نیلی دنیا میں دو ایسے واقعات پیش آئے جن کی وجہ سے کرہ ارض پر بسنے والے ہر انسان غمگین ہے۔ ایک طرف بحر اوقیانوس میں ٹیٹن نامی آبدوز دنیا کے امیر ترین پانچ افراد سمیت ڈوب گئی جو ٹاٹینک نامی بحری جہاز کے ملبے کی جانب گامزن تھی لیکن راستے میں ہی ان کی روحیں پرواز کرگئیں۔۔ واضح رہے کہ بحر اوقیانوس میں ٹائی ٹینک کے ملبے کی جانب سفر کے دوران لاپتہ ہونے والی ٹائٹن نامی سیاحتی آبدوز کا ملبہ مل گیا ہے اور اس میں سوار پاکستانی صنعتکار حسین دائود کے بیٹے شہزادہ دائود اور پوتے سلیمان دائود سمیت تمام 5 مسافروں کی ہلاکت کی تصدیق بھی کردی گئی ہے۔ دو پاکستانیوں کے علاوہ اس آبدوز میں اوشیئن گیٹ کمپنی کے سی ای او، ایک برطانوی ارب پتی مہم جو، ایک فرانسیسی ڈائیور بھی سوار تھے۔ ڈھائی لاکھ ڈالر کے عوض اوشیئن گیٹ نامی کمپنی سیاحوں کو اس مشہور اور بدقسمت جہاز کے ملبے کا قریب سے نظارہ کرنے کا موقع فراہم کر رہی تھی۔
بظاہر اس آبدوز کو منزل تک پہنچانے اور پھر واپس سطح سمندر پر آنے کیلئے تمام ترحفاظی اقدامات کیے گئے تھے لیکن قانون فطرت کے سامنے کچھ نہیں چلتا۔ جس کی جہاں موت لکھی ہے وہ اس مقام تک پہنچ ہی جاتا ہے۔اس واقعے سے چند دن پہلے یونان سے اٹلی جانے والی کشتی بھی بیچ سمندر میں غرق ہوئی۔ اس میں تین سو سے زائد پاکستانیوں سمیت 700 کے لگ بھگ مسافر سوار تھے جو مختلف ممالک کے باشندے تھے اور غیر قانونی طور پر یورپ میں داخل ہونا چاہتے تھے۔بتایا جارہا ہے بدقسمت کشتی ساحل سمندر سے زیادہ دور نہیں نکلی تھی کہ اس کو حادثہ پیش آیا۔ وہ کشتی ڈگمگائی اور جھولتے جھولتے تین دن سمندر کے دو تین کل میٹر ریڈیس میں چکر کاٹتی رہی۔زندہ بچ جانے والے پاکستانی مسافر کے مطابق وہ ایک ہی جگہ تین دن رہے اس دوران اس مقام سے کئی جہاز گزرے، یونان کوسٹ گاڑز کی کشتیاں بھی گزریں۔وہ مدد کیلئے پکارتے رہے مگر کسی نے ان کی جان نہیں بچائی۔
روز گار کی تلاش میں جانے والے غریب انسان سمندر میں چیختے رہے مگر کسی نے نہیں سنی وہ بے یارو مدد گاراور بھوک پیاس سے نڈھال انسان تڑپ تڑپ کر جان دیتے رہے مگر کسی کو خبر نہ ہوئے جب سمندر نے لاشیں اگلنا شروع کیں تب جاکر دنیا کی آنکھ کھولی۔ دونوں واقعات افسردہ ہیں اور دونوں میں کچھ ممثالت بھی ہیں مگر ایک غریبوں کی کشتی تھی اور دوسری امیروں کی آبدوز۔ اس لیے زیادہ توجہ ابدوز پر رہی۔ دنیا کے ہر کونے میں خبر پہنچیں ، اظہار افسوس اور اظہار تعزیت کے بیان جاری ہوئے اور حتیٰ کہ ان کو بچانے کیلئے بڑی بڑی کوششیں کی گئیں مگر دوسری جانب وہ بے روز گار اور جیب سے کنگال انسان سطح سمندر پر پکارتے رہے مگر سب نے ان سنی کردی۔ یوں کچھ مچھلیوں کی خوراک بن گئے اور کچھ ساحل پر بے گوور و کفن پڑے رہے۔ مہذب دنیا کے دعویداروں کا بھی دوہرے معیارمیں ویسے کوئی ثانی نہیں۔