• news

موت کا سودا ؟

اوورسیز کا پرکشش لقب پانے اور ڈالر کمانے کی کشش میں پچیس لاکھ روپے خرچ کرنیوالے دودھ پیتے بچے تو نہیں تھے، بچ جانیوالے یہ کہہ نہیں سکتے کہ انھیں لفظ ڈنکی تک بارے پتہ ہی نہیں تھا ،وہ تو یہ بھی الزام نہیں لگا سکتے کہ سمندری راستے سے یونان جانیکے خطرات سے آگاہ نہیں کیا گیا تھا، سچ تو یہ ہے کہ چور راستے کے اس سفر بارے ایجنٹ کھلم کھلا بتادیتے ہیں کہ کشتی پر فائرنگ بھی ہوسکتی ہے، کشتی ڈوب بھی سکتی ہے، پھر یہ ضدی بچے اپنے والدین کو جیتے جی سولی پر چڑھا دیتے ہیں، یونان ہو یا امریکہ، ہر ملک کیکوسٹ گارڈز سمندری حدود میں داخل ہونیوالی ہر مشکوک کشتی کو بذریعہ لائوڈسپیکرز اور ہوٹر بجا کر واپس مڑ جانے کی وارننگ دیتے ہیں ، اگر کشتی واپس نہ جائے توتکنیکی طور پر طاقتور لہروں کے اچھال سے اس کشتی کو ڈبو دیا جاتا ہے تاکہ دیگر معاملات سے جان چھڑائی جاسکے ،تازہ ترین وقوعہ جو یونان میں ہوا وہاں بھی کوسٹ گارڈز نے معمول کے مطابق بلااجازت حدود میں داخل ہونیوالی مشکوک کشتی کو وارننگ دی، پہلی بار سمندری سفر پر نکلے نوجوانوں کی اکثریت کوتیرنا بھی نہیں آتا تھا، حفاظتی جیکٹیں بھی انھیں نہ دی گئیں ، جیسے ہی انکی کشتی کو ڈبویا گیا، نوجوان یخ ٹھنڈے پانی میں اپنے سپنوں سمیت ابدی نیند سو گئے،۔
میری کہانی بھی بچ جانیوالے مسافروں جیسی ہے لیکن 80ء کی دہائی میں جب بیرون ملک گیا تو معاملات اس قدر مہنگے ، خوفناک اورپیچیدہ ہرگز نہ تھے، میں ان سستے وقتوں میں بیرون ملک گیا تھاجب وہاں زندہ پہنچنے کے امکانات نناوے فیصد ہوتے تھے جبکہ اس دور میں چور راستوں سے بیرون ملک پہنچنے سے پہلے مرنے کے امکانات سو فیصد ہوتے ہیں، بیرون ملک جانے کیلئے اندھے نوجوان والدین کو اس قدرزچ کردیتے ہیں کہ وہ سنہرے مستقبل کی خاطر قرض اٹھا کر، پلاٹ اور زیور بیچ کراپنے بیٹوں کی زندگی تک داو پرلگا دیتے ہیں، والدین کو تو یہ بھی یقین نہیں ہوتا کہ زندہ بیٹے کا منہ دوبارہ دیکھ بھی پائیں گے کہ نہیں‘ آج چور راستوں سے بیرون ملک جانا پیسے دیکر موت خریدنے والا معاملہ ہے۔ جونوجوان یہ راستہ چنتے ہیں وہ اپنے والدین کیلئے کبھی نہ بھرنے والا گہرا زخم اور بھاری قرض چھوڑ جاتے ہیں۔ یونان کشتی سانحہ حادثہ ہرگز نہیں تھا۔ تمام مسافروں کو پتہ تھا کہ کوسٹ گارڈز کی فائرنگ کی زد میں آسکتے ہیں، کوسٹ گارڈز کے اس عمل پر عالمی قوانین لاگو بھی نہیں ہوتے ہیں، اگر قوانین لاگو ہوتے بھی ہوں تو پاکستان سمیت غریب ممالک کے مسافروں کا کیس کون لڑے گا؟ میں ان سمگلروں کی حمایت نہیں کررہا ہوں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا انسانی اسمگلر وں نے ان سے زبردستی پیسے وصول کئے؟ کیا ان اسمگلروں کو جیل بھیج کر معاملات سدھر جائیں گے؟  
یونان کشتی جیسے واقعات کی جتنی بھی خبریں موصول ہوتی ہیں ان میں حیران کن طور پر بھارت اور بنگلہ دیش کے نوجوانوں کی تعداد بہت کم ہوتی ہے،کیوں؟ بھارت نے ڈیجیٹل میڈیا، سافٹ وئیر انڈسٹری اور فلم انڈسٹری میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد ان شعبوں میں کھپ جاتی ہے، بنگلہ دیش نے کاٹن اور دیگر انڈسٹریز میں اتنی ترقی کرلی ہے کہ وہ ریکارڈ ترقی کررہا ہے، اس طرح بھارتی اور بنگالی نوجوان چور راستوں سے موت خریدنے کی کم عقلی سے باز آچکے ہیں، تربیت یافتہ لیبر فراہم کرنے میں بھارت اور بنگلہ دیش اپنا سکہ جما چکے ہیں، جبکہ ہم کہاں کھڑے ہیں؟ ہماری اکثر لیبر نہ تو مکمل تربیت یافتہ ہوتی ہے نہ انکے پاس اصلی سرٹیفکیٹ ہوتے ہیں اورنہ مکمل طور پر ان پر اعتماد کیا جاسکتا ہیکہ وہ پراجیکٹ سنبھال پائیں گے۔ اوورسیز کا پرکشش لقب پانے کے پس منظر میں کئی دہائیوں کی محنت، ریاضت اور جدوجہد ہوتی ہے اوورسیز پاکستانی گوروں کے دیس میں تنہا رہ کر اپنے رشتہ داروں کیلئے پیسہ کمانے کی مشین کے سوا کچھ نہیں ہوتا ہے، جیسے ہی وہ ڈالر اور پائونڈ بھیجنا بند کردیتا ہے تو واہ واہ کرنیوالے لاتعلقی اختیار کرکے دشمن بن جاتے ہیں۔ اسکی خون پسینے کی کمائی سے خریدی گئی جائیدادوں، پلاٹ اور اثاثوں پر بھائی اور دیگر رشتہ دار قبضہ کرلیتے ہیں، جب وہ اپنے اثاثوں کی بازیابی کیلئے عدالتوں سے رجوع کرتا ہے تو دیوانی عدالتیں اسے دیوانہ کردیتی ہیں لیکن اسے انصاف نہیں ملتا ہے۔ 
اوور سیز پاکستانیوں کو دھمکیاں دی جاتی ہیں جسکی وجہ سے وہ دوبارہ غیر ملک میں جاکر بس جاتے ہیں، قبضہ مافیا دھوکہ دہی، رشوت اور زور زبردستی کرکے من مانے فیصلے کروالیتا ہے جبکہ اصل مالک دوسرے جہان پہنچ جاتا ہے۔ میں یہ کہوں گا کہ نوجوان چور راستوں سے غیر ملکوں میں آنے سے پرہیز کریں، اگر آنا بہت ضروری ہے تو تکنیکی تعلیم حاصل کرکے قانونی راستہ اختیار کریں‘ آج بھی پچیس لاکھ خرچ کرکے وہ پاکستان میں ایسا باعزت کاروبار کرسکتے ہیں کہ وہ بھوکے نہیں مریں گے ، نوجوانوں سے گزارش ہے کہ ڈیجیٹل میڈیا اور سافٹ وئیر انڈسٹری بام عروج پر ہے اس کو جی جان سے اپنالیں، آپ اپنیپیاروں کے قریب رہ کر اتنا کمالیں گے کہ یہیں دبئی بن جائیگا۔

ای پیپر-دی نیشن