فرزندِ پوٹھوہار
پاکستان کے خطہ پوٹھو ہار کو یہ فخر حاصل ہے کہ یہاں ہر گھر میں فوجی موجود ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے دور میں اس علاقے کے کسی بھی گھر میں جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا تھا تو ماں فخر سے کہتی تھی کہ میرے گھر میں سپاہی پیدا ہوا ہے۔ شروع سے ہی بچوں کو فوجی زندگی اور سپاہیانہ بہادری کے قصے سنائے جاتے تھے۔ یہ بچے جب سپاہیانہ زندگی، جنگی بہادری کے قصے سن سن کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے تو سب سے پہلی پسند فوج میں بھرتی ہونا ہی ہوتا تھا۔ وہ نوجوان بد قسمت گنا جاتا تھا جو کسی نہ کسی وجہ سے فوج میں نہیں جا سکتا تھا۔ مائیں فخر سے اپنے پیاروں کو فوج میں بھیجتیں۔ ان کی فوجی تربیت ختم ہونے کا انتظار کرتیں اور پھر اپنے بہادر بیٹے کے لیے چاند سی دلہن لانے میں مصروف ہو جاتیں۔ نوجوان لڑکیاں’ فوجی ڈھول سپاہی‘ کے گیت گاتیں اور فوجی سے شادی کرنے پر فخر کرتیں۔
جو بدقسمت نو جوان فوجی زندگی میں جانے سے رہ جاتے تھے ان کے لیے بعض اوقات اچھے رشتے ملنے مشکل ہو جاتے۔ اس علاقے کا سپاہی ہر لحاظ سے بہترین فوجی ثابت ہوتا۔ سادہ، وفادار، بہادر اور قابل اعتماد۔ اس لیے انگریز اس علاقے کو’فوجی علاقہ‘ قرار دیتے اور بھرتی کے وقت اس علاقے کے جو ان کو باقی جوانوں پر ترجیح دی جاتی۔ یہ لوگ ’پیدائشی سپاہی‘ تصور ہوتے تھے۔
پاکستان بننے کے بعد اس خطے نے نہ صرف بہترین سپاہی بلکہ بہترین فوجی افسر بھی پیدا کیے۔ آج بھی چند میلوں کے دائرے میں کئی جرنیل مل جاتے ہیں۔ گو اب حالات بدل چکے ہیں۔ لوگ فوج کی نسبت باہر جانے کوترجیح دیتے ہیں۔
یہ لوگ اتنے محنتی اور جفاکش ہیں کہ ہر گھر سے ایک آدھ فرد ضر ور غیر ملک میں محنت مزدوری کے لیے موجود ہے۔ پاکستان بننے کے بعد سے یہ لوگ تعلیم میں بھی باقی پاکستانی علاقوں کی نسبت بہت آگے ہیں۔ مائیں اب بھی بیٹا پیدا ہونے پر فوجی بنانے کا خواب دیکھتی ہیں لیکن فرق یہ ہے کہ پہلے فوجی سپاہی بنانے کا سوچتی تھیں اور اب کر نیل یا جرنیل بنانے کا سوچتی ہیں۔
اب بھی گاؤں میں عورتیں بیٹے کی پیدائش پر فخر سے کہتی ہیں ’میرا بیٹا کر نیل و جرنیل بنے گا‘ اور اکثر یہ خواہش پوری ہو بھی جاتی ہے۔
اسی علاقے کا ایک عظیم بیٹا برگیڈیئر گلزار احمد گزرا ہے جو ایک بہادر سپاہی ہونے کے ساتھ ایک اچھا سکالر بھی تھا۔ پاکستان آرمی کی تنظیم نو میں اہم کردار ادا کیا۔ 1965ء کی جنگ اور عسکری زندگی پر بہت کچھ لکھا۔ بہت معتبر، دلیر اور باوقار افسر گنا جاتا تھا۔ برگیڈیئر گلزاراحمد کا تعلق اس خاندان سے تھا جن کا پیشہ آباء کئی پشتوں سے سپاہ گری تھا۔ اس فن کے علاوہ اس گھرانے میں اور کوئی فن نہ تھا۔ موصوف کے بیٹے بھی فوج میں جنرل کے عہدے تک پہنچے۔ گلزار احمد اپنے خاندان کا پہلا فوجی تھا جس نے برٹش فوج میں کمیشن حاصل کیا جبکہ اس وقت مسلمان فوجی افسر چند ایک ہی تھے اور انگلیوں پر گنے جاسکتے تھے۔ دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا اور بہادری میں نام پیدا کیا۔
دوسری جنگ عظیم جب ختم ہوئی تو ایشیاء کے طول و عرض میں آزادی کی تحریکیں چل رہی تھیں۔ ہندوستان کی تحریک آزادی بھی روز بروز زور پکڑ رہی تھی۔ ہندوستان کی آزادی خواب نہیں بلکہ حقیقت کا روپ دھار رہی تھی۔
جنگ کے اختتام پر برٹش انڈین آرمی جنوبی ایشیائ، مشرق وسطی، جنوب مشرقی ایشیاء حتیٰ کہ مشرق بعید تک پھیلی ہوئی تھی۔ گلزار احمد اپنی اچھی کارکردگی کی وجہ سے جنگ کے اختتام تک لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی پا چکا تھا۔ 1946ء میں 14/10 بلوچ رجمنٹ کی کمانڈ کر رہا تھا۔ یہ یونٹ ملایا میں سنگے پٹن کے مقام پر خیمہ زن تھی اور جنوب مشرقی ایشیاء کی کمان کاحصہ تھی اور اس خطے کی فوج کی کمان میجر جنرل سر فرینک میسروی کے ہاتھ میں تھی۔
تحریک پاکستان بھی زوروں پر تھی۔ مسلمان افسر جہاں تک ممکن تھا اپنا کردار ادا کر رہے تھے لیکن ہندو افسر ان کی سخت مخالفت کرتے۔ہندوستانی افسر میں سب سے سینئر برگیڈیئر کے ایم کری اپا تھا جو ویسے بھی بڑا ذہین اور متحرک شخصیت کا مالک تھا لیکن پاکستان کے معاملے میں بہت متعصب۔
یہ شخص 1946ء میں برطانیہ کے سٹاف کالج کیمبرلے میں تعینات تھا۔ وہاں اس نے تمام ہندوستانی مسلمانوں اور ہندو افسروں کی ایک جماعت بنا کر حکومت برطانیہ پر اثر انداز ہونے کی کوشش کی کہ افواج ہند کو تقسیم نہ کیا جائے بلکہ ایک ہی کمانڈر انچیف ہو۔ برگیڈیئر کری اپا کا منصوبہ یہ تھا کہ متحدہ فوج ہونے کی صورت میں جونہی ملک تقسیم ہو گا فوج حکومت پر قابض ہو جائے گی اور یوں تقسیم ہند خود بخود ختم ہو جائے گی۔ بہت سے انگریز افسر بھی اس حق میں تھے کہ فوج تقسیم نہ ہو حتیٰ کہ لارڈ ماؤنٹ بیٹن بھی فوج کی تقسیم نہیں چاہتے تھے لیکن مسلمان فوجی اور فوجی افسران اس حق میں نہ تھے۔ وہ اپنا علیحدہ وطن اور اپنی علیحدہ فوج چاہتے تھے جو خالصتا ًپاکستانی ہو۔
جنگ کے بعدنومبر 1946ء میں جنرل میسروی نے تمام یونٹوں کا سالانہ معائنہ کیا۔ کرنل گلزار کی 14/10 بلوچ کا بھی معائنہ کیا گیا۔ یونٹ کے تفصیلی معائنے کے بعد تمام افسر یونٹ کے میس میں چائے کے لیے اکٹھے ہوئے۔ چائے کے وقت عموماً ماحول بڑا خوشگوار ہوتا ہے، سینئر جو نیئر والی پابندی پر سختی سے عمل نہیں کیا جاتا۔
جونیئر آفیسر ز بھی احترام کی حد کے اندر رہ کر کھلی گپ لگا سکتے ہیں اور یہی رویہ سینئر آفیسر ز کا بھی ہوتا ہے۔ ہنسی مذاق بھی چلتا ہے۔ لطیفے بھی ہوتے ہیں اور نوک جھونک بھی۔ ٹی روم گپ فوجی زندگی کا سب سے دلچسپ اور رنگین حصہ ہوتا ہے۔ برٹش دور میں تو میس میں بعض اوقات شراب پینے کے بعد جونیئر آفیسر زسینئر آفیسر ز کو کھری کھری سنا دیتے تھے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی بھی نہیں کی جاتی تھی بلکہ بات ہنسی مذاق میں اڑا دی جاتی تھی۔ کچھ یار باش لوگ اس موقع سے خوب فائدہ اٹھاتے اور دل کی بھڑاس نکال لیتے۔
اس موقع پر بھی حسب روایت چائے کے ساتھ گپ کا دور چلا۔ جنگ عظیم پر بات چیت ہوئی۔ یونٹ کی خوبیاں اور خامیاں زیر بحث آئیں۔ کچھ لطیفے چلے اور جب ماحول بالکل آزادانہ ہو گیا تو جنرل میسروی نے لامحالہ طور پر فوج کی تقسیم کی بات شروع کر دی۔
جنرل صاحب مع باقی برٹش اور ہند و افسروں نے فوج کی تقسیم ایک بہت بڑا تاریخی سانحہ قرار دیا جو بالآخر ہندو پاک دونوں کو تباہ کر دے گا۔ کرنل گلزار اس موقع پر سب سے سینئر مسلمان افسر تھا۔ پارٹی میں کچھ جونیئر مسلمان افسر بھی تھے جو غصے سے لال پیلے ہو رہے تھے لیکن کرنل گلزار کی موجودگی میں کچھ کہہ نہیں سکتے تھے۔یہ آداب محفل اور فوجی ڈسپلن کے خلاف تھا، لہٰذا یہ سب چپ رہنے پر مجبور تھے۔
…………………(جاری)