مثالی اتحاد و امت کا متقاضی خطبۂ حج اور عیدِ قربان کے تقاضے
پاکستان سمیت دنیا بھر سے آئے لاکھوں فرزندانِ توحید نے گزشتہ روز مناسک حج کے رکن اعظم وقوف عرفات کی ادائیگی اور جانوروں کی قربانی کا فریضہ سرانجام دے دیا، اس موقع پر میدان عرفات میں روح پرور مناظر دیکھنے میں آئے اور اللہ اکبر کی صدائیں مسلسل گونجتی اور فضا کو معطر بناتی رہیں۔
گزشتہ روز میدان عرفات میں درجہ حرارت 44 سنٹی گریڈ تھا اور موسم حبس آلود تھا مگر فرزندانِ توحید کے جذبۂ عقیدت و عبادت میں کوئی کمی نہیں ہوئی اور پورے خشوع و خضوع کے ساتھ وہ ارکانِ حج کی ادائیگی میں ہمہ تن مصروف رہے۔ اس بار سعودی علماء کونسل کے رکن اور امام مسجد نمرہ شیخ ڈاکٹر یوسف بن محمد نے خطبۂ حج ادا کیا جو میدان عرفات میں فرزندان توحید کے علاوہ دنیا بھر میں مسلمانوں نے لائیو نشریات اور ٹیلی کاسٹ کے ذریعے سُنا اور دیکھا۔ ڈاکٹر یوسف نے اپنے خطبۂ حج میں اس امر کو اجاگر کیا کہ مسلمانوں کا متحد ہو کر رہنا بے حد ضروری ہے۔ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے ایک عمارت کی طرح ہے۔ آپس میں اختلافات پیدا نہ کرو، شیطان مسلمانوں میں تفرقہ چاہتا ہے۔ اللہ کی طرف سے ایسی ہرچیز سے دور رہنے کا حکم ہے جس سے اتحاد ٹوٹنے کا اندیشہ ہو۔
ڈاکٹر یوسف نے اپنے خطبۂ حج میں مزید کہا کہ ہمیں شرعی طور پر آپس کے اختلافات کے سدباب کا حکم دیا گیا ہے۔ اللہ نے فرمایا کہ مل جل کر رہنے میں برکت ہے اور علیحدہ رہنے میں مصیبتیں ہیں۔ اللہ نے تفرقہ ڈالنے سے منع کیا ہے۔ اتفاق و اتحاد قائم کرنا حج کا بھی پیغام ہے۔ نماز، روزہ، زکوٰۃ کی طرح حج بھی ارکانِ اسلام کا اہم رکن ہے۔ اے ایمان والو! دنیا اور آخرت کے معاملات میں اللہ کا حکم پورا کرو۔ شریعتِ مطہرہ کا مقصد ہے کہ مسلمان آپس میں جڑ جائیں، خطبۂ حج کے موقع پر صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی ، وفاقی وزیر مذہبی امور طلحہٰ محمود اور نگران وزیر اعلیٰ پنجاب سید محسن نقوی بھی لاکھوں عازمین حج کے ہمراہ وقوفِ عرفہ کے لئے میدان عرفات میں موجود رہے۔ سعودی عرب کی قومی شماریات اتھارٹی کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق امسال دنیا بھر سے 18 لاکھ 45 ہزار سے زائد عازمین حج نے میدانِ عرفات میں خطبۂ حج سننے کی سعادت حاصل کی ۔
گزشتہ چار سال سے دنیا بھر میں پھیلے کورونا وائرس نے بدقسمتی سے ہماری مذہبی عبادات میں بھی خلل ڈالا اور احتیاطی اقدامات کے باعث سعودی حکومت نے ایک سال فریضۂ حج کی ادائیگی موقوف رکھی اور دوسرے سال صرف مقامی باشندوں کو محدود تعداد میں مختلف شرائط کے تحت فریضۂ حج ادا کرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ ذاتِ باری تعالیٰ کا خاص کرم ہے کہ گزشتہ اور رواں سال مسلم امہ کیلئے ایام حج سے وابستہ عبادات، فرائض، ذمہ داریاں اور رونقیں بحال ہوئیں اور مقامی باشندوں سمیت دنیا بھر سے لاکھوں فرزندانِ توحید فریضہ ٔ حج کی ادائیگی کیلئے حرمین شریفین پہنچے اور میدان عرفات میں خیمہ زن ہوئے۔ منگل کو لاکھوں زائرین نے مسجد الحرام میں خانہ کعبہ کا طواف کیا جبکہ سعودی حکومت نے زائرین حج کی صحت اور سکیورٹی کیلئے وسیع پیمانے پر انتظامات کر رکھے تھے اور حجاج کی دیکھ بھال کیلئے ہزاروں افراد پر مشتمل طبی عملہ ہمہ وقت اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا رہا۔ میدانِ عرفات میں حج کا رکن اعظم وقوف عرفہ ادا کرنے کے بعد اللہ کے مہمانوں نے میدانِ عرفات میں عبادات‘ توبہ استغفار اور تلبیہ بلند کرنے کے علاوہ ظہر اور عصر کی نمازیں جمع تقدیم کرتے ہوئے ایک ساتھ ادا کیں۔ حجاج کرام میدانِ عرفات میں نماز مغرب تک قیام کے بعد مزدلفہ روانہ ہوئے جہاں نماز مغرب اور عشاء جمع کرکے ادا کی گئیں۔ رات بھر مزدلفہ میں کھلے آسمان تلے قیام کے دوران عبادات اور دعائیں کی گئیں اور مزدلفہ ہی کی حدود سے حجاج کرام نے کنکریاں جمع کرکے بدھ کے روز رمی کی رسم ادا کی جس کے ساتھ ہی فریضۂ حج کی تکمیل ہوئی اور حجاج کرام نے جانوروں کی قربانی کا فریضہ ادا کرکے احرام کھول دیئے۔
کورونا کی افتاد سے پہلے حج کے موقع پر ہر سال 25 سے 30 لاکھ فرزندانِ توحید میدان عرفات میں جمع ہو کر امتِ واحدہ کے مضبوط و متحد ہونے کا ٹھوس اور عملی پیغام اقوام عالم بالخصوص طاغوتی الحادی قوتوں کو پہنچاتے اور امتِ واحدہ کے جوش ایمانی سے حرمین شریفین کی مقدس دھرتی کو منور و معطر رکھتے تاہم کورونا وائرس کے باعث دو سال تک امتِ مسلمہ ذاتِ باری تعالیٰ کی کڑی آزمائش میں رہی اور فریضۂ حج کی ادائیگی بھی موقوف ہوئی۔ اب خدا تعالیٰ کے خاص انعام کے تحت فریضۂ حج کی ادائیگی سے متعلق سرگرمیاں بحال ہو چکی ہیں اور اتحاد امت کا اسلام کی نشاۃ ثانیہ والا تصور بھی عملی قالب میں ڈھلتا نظر آرہا ہے جس کے ساتھ ہی فریضۂ حج سے منسلک جانوروں کی قربانی کا فریضہ بھی دوبارہ مذہبی جوش و عقیدت کے ساتھ ادا کیا جارہا ہے۔ عرب ممالک سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں بدھ کے روز عیدالاضحی کی خوشیاں مذہبی جوش و خروش سے منائی گئیں جبکہ آج بروز جمعرات پاکستان‘ بھارت‘ بنگلہ دیش اور متعدد دوسرے ممالک میں مذہبی جوش و جذبے کے ساتھ عیدالاضحی منائی جا رہی ہے۔ اس سلسلہ میں آج کھلے مقامات پر نماز عید کے اجتماعات ہونگے جس کے بعد جانور قربان کئے جائینگے۔ حد درجے کو پہنچی مہنگائی کے باعث اس بار اسلامیانِ پاکستان کو جانور قربان کرنے کے معاملہ میں خاصی دقتیں پیش آئی ہیں اور بیشتر لوگ استطاعت نہ ہونے کے باعث قربانی کا فریضہ ادا کرنے سے محروم رہے ہیں چنانچہ ہمارے آج کے اقتصادی اور معاشی حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ صاحب ثروت لوگ اپنے غریب و نادار بھائیوں کی معاونت کیلئے فراخدلی کے ساتھ آگے بڑھیں اور اقتصادی جکڑ بندیوں کے باعث ان میں کسی قسم کی محرومیوں کا احساس اجاگر نہ ہونے دیں۔ ناجائز منافع خوروں کو اس مقدس تہوار کے موقع پر خدا خوفی سے کام لینا اور اپنی عاقبت سنوارنا چاہیے۔ وہ اپنی حرص و ہوس کے باعث مصنوعی مہنگائی کے ذریعے بے وسیلہ لوگوں کے ارمانوں کا خون تو کرتے ہی ہیں‘ اپنے گھر بھی ناجائز منافع خوری کی صورت میں جہنم کی آگ سے بھرتے ہیں۔ اسی طرح جن لوگوں نے قربانی کا فریضہ ادا کیا ہے وہ قربانی کا گوشت اپنے ریفریجریٹروں اور ڈیپ فریزر میں سٹور کرنے کے بجائے اپنے اڑوس پڑوس میں مستحق لوگوں تک خود جا کر پہنچائیں۔ بے شک ذاتِ باری تعالیٰ تک قربانی کا گوشت نہیں‘ آپ کا تقویٰ پہنچتا ہے اور تقویٰ یہی ہے کہ آپ کسی بھی مذہبی تہوار اور خوشی کے موقع پر خلق خدا کے چہروں پر ٹپکنے والی مایوسی کا فوری مداوا کریں اور انہیں بھی اپنی خوشیوں میں برابر کا شریک کریں۔ ڈاکٹر یوسف بن محمد نے اپنے خطبۂ حج میں بھی احکام خداوندی کی روشنی میں یہی درس دیا ہے کہ خیر کے کام میں لوگ ایک دوسرے سے تعاون کریں اور آپس میں جُڑے رہیں کیونکہ اسلام بھائی چارے اور اخوت کا درس دیتا ہے۔
خداوند کریم کی جانب سے اپنی مخلوق کیلئے آزمائش بھی یقیناً حکمت سے خالی نہیں ہوتی۔ نجات کا راستہ صرف اللہ کی رسی کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے میں ہی ہے۔ بے شک اللہ کی رسی دراز ہے جسے سرکش انسانوں کو سبق سکھانے کیلئے کھینچنے میں ذرہ بھر دیر نہیں لگتی۔ قدرتی آفات‘ وبائوں‘ زلزلوں‘ سیلابوں اور مختلف عوارض کی شکل میں اللہ کی آزمائش بھی نخوت و تکبر میں ڈوبے سرکش انسانوں سے اللہ کی رسی مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی ہی متقاضی ہوتی ہے تاکہ وہ راہ ہدایت اختیار کریں اور خداوند کریم کے خدائی وصف کو خود اختیار نہ کربیٹھیں۔ بے شک کورونا وائرس بھی خلقِ خدا کیلئے ایسی ہی آزمائش بنی ہے جو بالخصوص امتِ واحدہ سے رجوع الاللہ کی متقاضی ہے۔ ذاتِ باری تعالیٰ نے فریضۂ حج کی خشوع و خضوح کے ساتھ ادائیگی کی صورت میں اپنی فضیلتوں اور رحمتوں کے دروازے امتِ واحدہ کیلئے دوبارہ کھول دیئے ہیں تو اس کا شکر خلقِ خدا کی محرومیوں کا ازالہ کرکے ادا کیا جائے۔ آج امتِ واحدہ اپنے اندرونی انتشار اور کمزوریوں کے باعث جس ابتلاء کا شکار ہے، وہ ہم سے مثالی اتحادِ امت کی ہی متقاضی ہے۔ امام مسجد نمرہ ڈاکٹر یوسف بن محمد نے اپنے خطبہ حج میں اس امر کو ہی اجاگر کیا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے جبکہ شیطان مسلمانوں میں تفرقہ چاہتا ہے۔ ہر سال حج کے موقع پر میدان عرفات میں لاکھوں فرزندانِ توحید کا اجتماع الحادی قوتوں کے لئے اتحادِ امت کا ہی ٹھوس پیغام ہوتا ہے اور الحادی قوتیں امتِ واحدہ کا اتحاد توڑنے کی سازشوں میں مصروف رہتی ہیں تاکہ انہیں ایک ایک کر کے مارا جا سکے۔ دنیا کے ڈیڑھ ارب کے قریب مسلمان اپنے اتحاد و یکجہتی سے ہی دشمنانِ اسلام کی یہ سازشیں ناکام بنا سکتے ہیں۔ خدا ہمارا حامی و ناصر ہو اور ہم پر خالق کائنات کی رحمتوں اور سرور کائنات حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی بے پایاں محبتوں کی بارش برستی رہے۔