آئی ایم ایف معاہدے کے اثرات اور پرویز خٹک دا کھڑاک!!!!!
ہم بھی بہت عجیب ہیں ایسے عجیب کہ اپنا تماشا بنوانے میں کمال رکھتے ہیں۔ لوگ قرض اتارتے ہوئے شکر کرتے ہیں اور شاید کہیں کہیں فخریہ انداز میں بتاتے بھی ہونگے لیکن ہم ایسے ہیں کہ قرض لینے کو بھی بڑی کامیابی قرار دیتے ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ موجودہ حکومت نے آئی ایم ایف معاہدہ کر کے ملک و قوم کی کیا خدمت کی ہے، کرنا چاہیے تھا یا نہیں، ملک و قوم کے مفاد میں ہے یا نہیں، جنہوں نے معاہدہ توڑا وہ کتنے مفاد پرست تھے۔ یہ الگ بحث ہے اس حوالے سے پہلے بھی لکھا جا چکا ہے۔ میں آج ہمارے مجموعی رویے کی بات کر رہا ہوں۔ ہمارا اجتماعی رویہ ہی ٹھیک نہیں ہے۔ ہم قرض لیتے رہتے ہیں اور بغیر اصلاحات کیے ہمیشہ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ملک کے معاشی حالات ٹھیک ہو جائیں گے اور ہم مشکلات سے نکل آئیں گے۔ حکومتی وزراءآئی ایم ایف معاہدے پر خوش ہو رہے ہیں۔ وزیراعظم کی تعریف ہو رہی ہے، کوئی وزیر خارجہ بلاول بھٹو کی تعریف کر رہا ہے۔ یہ ساری تعریف آئی ایم ایف معاہدے کے اردگرد گھوم رہی ہے۔
مرزا غالب نے کیا خوب کہا تھا
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
آج ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے قرض کی ضرورت تھی چلیں قرض لے لیا لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قوم ڈیفالٹ تک پہنچانے والوں کا احتساب کرنا چاہتی ہے، کیا لوگوں کو یہ سمجھ ہے کہ کون ملک کو ڈیفالٹ کے دہانے پر لے کر گیا، کون تھا جو ہر روز کہتا تھا کہ ملک ڈیفالٹ ہونے والا ہے، انہیں قرض نہ دیں یہ لٹیرے ہیں کھا جائیں گے۔ اب ڈیفالٹ سے بچے ہیں تو یہ ذمہ داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے کہ وہ ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل سے نکالےں۔ ہم کتنی مرتبہ آئی ایم ایف جائیں گے اگر ہم پندرہ بیس مرتبہ یا اس سے زیادہ مرتبہ آئی ایم ایف سے معاہدہ کر چکے ہیں تو پھر سب سے اہم بات یہ ہے کہ ہم اصلاحات کی طرف نہیں بڑھ رہے بنیادی طور پر ہمیں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ہمیں معاشی نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنا ہے۔ اپنے نظام کو بہتر بناتے ہوئے اپنے پاوں پر کھڑا ہونا ہے۔ سینیٹر مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ آئی ایم ایف ایک آزمایا ہوا ناکام تجربہ ہے۔ یہی بات حکمرانوں، کاروباری افراد، صنعتکاروں اور ملک میں اہم فیصلے کرنے والوں کو بھی سمجھنا ہو گی۔ ہمیں توانائی کے بحران کا سامنا ہے، ٹیکس کا بوسیدہ نظام ہے، ہر طرف وسائل کا ضیاع ہے، کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ قرض لیتے ہیں، گیس باہر سے منگواتے ہیں بجلی کی قلت ہے لیکن راتوں کو شاپنگ مالز کھلے ہوئے ہیں۔ سورج کی روشنی کا کوئی استعمال نہیں ہے۔ ٹیکس نہیں دیتے لیکن فلاحی کاموں میں خرچ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ حکومت ٹیکسوں پر ٹیکس عائد کیے جاتی ہیں۔ ان حالات میں تنخواہ دار طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے لیکن کسی کو فکر نہیں ہے۔ سب قرض کی مے سے خوش ہیں۔
بجلی مہنگی ہو رہی ہے گرمیوں میں بھی گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے۔ فیصل آباد کی پاور لومز انڈسٹری بند ہو رہی ہے۔ بجلی کی قیمت سے پاور لومز سیکٹر بحران کا شکار ہے۔ موجودہ بجٹ بھی اس بحران کا مداوا نہیں کر سکا۔ مہنگی بجلی کی وجہ سے انڈسٹری بند ہو رہی ہے۔ ہنر مند بے روزگار ہو رہے ہیں۔ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کے بعد شرائط کے تحت گیس اور بجلی مزید مہنگی ہونے کا خدشہ ہے جب کہ پیٹرولیم لیوی میں بھی اضافہ بھی دیوار پر لکھا نظر آ رہا ہے۔ پٹرول اور ڈیزل پرلیوی میں دس روپے فی لٹر تک اضافے کی گنجائش موجود ہے۔ یہ اضافہ بھی براہ راست عام آدمی کو متاثر کرے گا۔ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں تقریباً چار روپے فی یونٹ تک مزید اضافے کا امکان ہے۔ گیس کے ٹیرف میں پچاس فیصد تک اضافے کی سمری حکومت کسی بھی وقت منظور کر سکتی ہے۔ آئی ایم ایف معاہدے پر خوشیاں منانے اور اسے ایک دوسرے کی کامیابی قرار دینے والوں نے ہی مشکلات سے بھی نکالنا ہے۔
ایک طرف تو یہ خبریں ہیں دوسری طرف گذشتہ روز کاروباری دنیا سے پہلی خبر پاکستان سٹاک ایکسچینج سے تھی جس کے مطابق سٹاک ایکس چینج میں پہلی بار کاروبار کے آغاز پر تاریخ رقم ہوئی۔آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کی ڈیل کے بعد کاروبارکے پہلے دن زبردست تیزی دیکھنے میں آئی اور پاکستان سٹاک ایکسچینج کی تاریخ میں پہلی بار کاروبار کا 2230 پوائنٹس اضافے کے ساتھ آغاز ہوا۔ کاروبار کے آغاز پر ہی ہنڈریڈ انڈیکس یکدم 5.3 فیصد اوپر گیا جس کے بعد کاروبار ایک گھنٹے کےلئے روک دیا گیا۔کاروبار کے آغاز پر ہی ہنڈریڈ انڈیکس 43 ہزار کی سطح عبور کر گیا اور انڈیکس 2068 پوائنٹس اضافے سے 43521 تک جا پہنچا۔ یہ رجحان اچھا ہے۔ پاکستان کے لوگوں نے بہت مشکل وقت دیکھا ہے۔ عام آدمی کی چیخیں نکل رہی ہیں۔ لگ بھگ پونے تین سو روپے لٹر پٹرول خرید خرید کر ہمت جواب دے چکی ہے۔ ڈالر کو اپنی اصل قیمت پر واپس لانا ضروری ہے۔ جب تک اسحاق ڈار ڈالر کو قابو نہیں کریں گے اس وقت تک سہولت کا کوئی امکان نہیں ہے۔
خبر یہ بھی ہے کہپاکستان تحریک انصاف نے سابق وزیر اعلی خیبر پختونخوا پرویز خٹک کو سابق منتخب ارکان اسمبلی کو پارٹی چھوڑنے کیلئے اکسانے اورشوکاز نوٹس کا جواب نہ دینے پر پارٹی سے نکالنے کا اصولی فیصلہ کر لیا ہے۔ ویسے پی ٹی آئی کے فیصلہ سازوں کا بھی بھلا کوئی حال ہے جس شخص پر یہ الزام ہو کہ وہ جماعت کے لوگوں کو پارٹی چھوڑنے پر اکسا رہا ہے کیا وہ خود جماعت میں رہے گا۔ ایسے وقت میں جب لوگ خود چھوڑ کر جا رہے ہیں لوگوں کو شوکاز نوٹس بھیجنے یا انہیں بھڑکانے کی کیا ضرورت ہے۔ پی ٹی آئی کو تو لوگوں کی ضرورت ہے انہیں لوگوں کا خیال رکھنا چاہیے وہ اس کے بجائے شوکاز نوٹس کا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔ نہ انہوں نے اقتدار میں رہتے ہوئے اپنے لوگوں کو اہمیت دی اور مشکل میں بھی شوکاز نوٹس جاری کر رہے ہیں۔ کون جانتا ہے کہ پرویز خٹک کو نوٹس بھیجنے والے کو چند دن بعد کوئی اور ایسا ہی نوٹس بھیج دے۔ پاکستان تحریک انصاف اپنی لگائی ہوئی آگ میں جل رہی ہے۔ لگ بھگ دو دہائیوں یا اس سے بھی زیادہ وقت تک ساتھ رہنے والے آج اگر راہیں جدا کر رہے ہیں تو اس میں صرف چھوڑ کر جانے والے ہی بے وفا نہیں شوکاز نوٹس جاری کرنے والوں کا بھی اس میں بہت بڑا حصہ ہے۔ ویسے پرویز خٹک نے بھی شوکاز نوٹس کے ساتھ بہت اچھا سلوک کیا ہے۔ اب وہ کوئی سرکاری ملازم تو ہیں نہیں کہ نوٹس کا جواب دیتے پھریں پرویز خٹک تو یہ بھی کہہ سکتے تھے جنہیں سب نے جواب دے دیا ہے وہ مجھ سے جواب مانگ رہے ہیں۔ بہرحال یہ صورتحال افسوسناک ہے کہ ملک کے سیاست دانوں نے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے ملک و قوم کا بہت وقت اور پیسہ ضائع کر دیا ہے۔ اس سے بھی افسوسناک رویہ پی ٹی آئی کے ان چند افراد کا ہے جو نو مئی کے دلخراش واقعات کی ملکی سطح پر مذمت کے باوجود اکڑ کر بیٹھے ہیں۔ غلطی تسلیم کرنے کے بجائے آج بھی دفاعی اداروں کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ جانے کب سدھریں گے۔
آخر میں ساغر صدیقی کا کلام
وہ بلائیں تو کیا تماشا ہو
ہم نہ جائیں تو کیا تماشا ہو
یہ کناروں سے کھیلنے والے
ڈوب جائیں تو کیا تماشا ہو
بندہ پرور جو ہم پہ گزری ہے
ہم بتائیں تو کیا تماشا ہو
آج ہم بھی تری وفاو¿ں پر
مسکرائیں تو کیا تماشا ہو
تیری صورت جو اتفاق سے ہم
بھول جائیں تو کیا تماشا ہو
وقت کی چند ساعتیں ساغر
لوٹ آئیں تو کیا تماشا ہو