بلوچستان میں دہشت گردی کی اٹھان،حکمرانوں کیلئے لمحہ فکریہ
بدقسمتی سے بلوچستان ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں نظر آ رہا ہے۔ کچھ عرصہ سکون کے بعد یکدم یہاں جس طرح دہشت گردی پھن اٹھانے لگتی ہے۔ اس سے بہت سے سوال جنم لیتے ہیں۔ اول تو یہ صوبہ نہایت حساس ہے۔ دوئم یہاں پٹھان، بلوچ ، براہولی ، مکرانی، ہزارہ کے ڈومیسائل رکھنے والے بھی آباد ہیں (جن کی بڑی تعداد 1990ءکے بعد لسانی، قوم پرستی اور مسلکی بنیاد پر شروع ہونے والی دہشت گردی کی وارداتوں کے نتیجے میںدیگر صوبوں میں منتقل ہو گئے مگر 1947ءیا اس سے پہلے کے آباد پنجابی شہری یہیں مقیم ہےں۔ مسلکی تحریکوں کو افغانستان اور ایران سے اسلحہ تربیت اور پیسہ فراہم ہوتا ہے۔ جو یہاں شیعہ سنی اختلاف کو ہوا دیتے ہیں۔ اس طرح قوم پرستی کی تحریکوں کو ان دو ممالک کے علاوہ بھارت سے بھی بھرپور امداد ملتی ہے۔ بھارت کی مالی مدد کی وجہ سے ایران اور افغانستان میں کئی علیحدگی پسند گروپوں کے کیمپ قائم ہیں۔ ان قوم پرست تحریکوں کے سرغنہ یورپ میں خود ساختہ جلاوطنی کی زندگی بسر کرتے ہیں۔ اسی طرح سرگرم رکن بھی ایران، بھارت ، افغانستان یا یورپ میں روپوشی کی زندگی بسر کرتے ہیں، جن میں سے کئی وہاں باہمی چپقلش کی وجہ سے مارے بھی گئے ہیں۔ ان میں بہت سے وہ لاپتہ افراد بھی شامل ہیں جنہیں ان کے گھر والے ڈھونڈ رہے ہیں۔
گزشتہ روز شیرانی کے علاقہ دھانہ سر، کیچ مکرانی اور مونان لورالائی میںیکے بعد دیگرے دہشت گردوں نے جس طرح آرمی اور پولیس کے کیمپوں پر حملہ کیا انہیں نشانہ بنایا اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ کچھ عرصہ میں سکیورٹی فورسزنے نہایت کامیاب کارروائیاں کر کے متعدد دہشت گردوں کو مار گرایا اور 2 بڑے دہشت گرد سرغنوں نے اپنے ساتھیوں سمیت ریاست مخالف سرگرمیوں سے تائب ہو کر امن سے زندگی بسر کرنے کے لیے ہتھیار بھی ڈالے۔ سکیورٹی فورسز کی ان کامیابیوں سے دہشت گرد بوکھلا گئے ہیں۔ بلوچستان کے وسیع اور احساس علاقے میں آرمی اور دیگر سکیورٹی فورسز جس طرح قدم قدم پر دہشت گرد عناصر سے نبرد آزما ہے، اس پر محب وطن حلقے انہیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں۔ اس وقت خود بلوچستان کی سیاسی جماعتوں نے بھی صوبے میں بدامنی پھیلانے والوں کیخلاف سخت ایکشن کا مطالبہ کیا ہے۔ بی این پی (مینگل) نے گزشتہ روز بلوچستان سے پنجاب ،سندھ اور خیبر پی کے جانے والی تمام مرکزی شاہراو¿ں پر گھنٹوں دھرنا دیا اور صوبے میں امن و امان کی حالت بہتر بنانے کے اقدامات پر زور دیا۔
صوبائی وزیر اعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے پاک فوج کے جوانوں اور پولیس والوں کی شہادت پر گہرے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کے عزم کا اعادہ کیا ہے۔ انہوں نے وفاقی حکومت پر بھی زور دیا ہے کہ وہ بلوچستان کے حصے کی واجب الادا ترقیاتی فنڈز کا اجرا جلد از جلد کرے ورنہ وہ اور ان کی حکومت اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرے گی۔ بلوچستان جیسے حساس اور بڑے صوبے میں ترقیاتی فنڈزکے اجرا سے عوام کے مسائل حل ہوں گے تو علیحدگی پسندوںمیں مرکز گریز رجحان کا خاتمہ ہوسکے گا۔ دریں اثنا بلوچستان پولیس کے سربراہ نے چمن جیل سے فرار ہونے والے 17 خطرناک قیدیوں کے فرار کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے جیل کے تمام عملے کو معطل کر دیا ہے اور جیل کے سپاہی کو مار کر اسلحہ چھین کر بھاگنے والے قیدیوں کی فوری گرفتاری کے لیے آپریشن تیز کرنے کا حکم دیا ہے۔
ویسے بھی اب حکومت کے پاس مختصر وقت ہی بچا ہے اگست میں قومی اسمبلی تحلیل کرنے کا پکا فیصلہ کرلیا گیا ہے قومی اسمبلی کے تحلیل ہوتے ہی بلوچستان میں بھی اسمبلی کی آئینی مدت مکمل ہونے کے بعد عام انتخابات کے لیے نگران حکومت کا قیام عمل میں آجائے گا یہ فیصلہ بھی ہوچکا ہے کہ عام انتخابات نومبر میں کروائے جائیں گے اور آئندہ جیتنے کی صورت میں مقتدر حلقوں کی کوشیش ہوگی کہ میاں شہباز شریف کو ہی وزارت عظمی کا حلف دلوایا جائے مگر سننے میں آرہا ہے کہ نواز شریف چوتھی مرتبہ وزرات عظمی حاصل کرنے کے لیے خاصی محنت کر رہے ہیں ویسے انکی یہ کوشیش رنگ لا سکتی ہے مسلم لیگ ن کی مضبوط وکٹ پنجاب ہے تنظیمی طور پر پنجاب میں موثر اور محنتی قیادت کی ضرورت ہے رانا ثنا اللہ بطور وزیر داخلہ صوبائی صدر کی ذمہ داریاں نہیں نبھا پارہے جس سے وفاق کی ضمانت صوبہ پنجاب سے صرف نظر برتاجا رہا ہے میاں نواز شریف محترمہ مریم نواز صاحبہ کو چاہیے کہ مضبوط موثر اور پارٹی کے وفادار ساتھی کو پنجاب کی صدارت کی پگ سونپ دیں جو چندے پر گزارا کرنے کی بجائے اپنی جیب سے پارٹی فنڈ لگا سکے تاکہ پچھلے چند سالوں سے پارٹی کارکنوں ووٹرز اور عہدیداروں کی محرومیاں دور کرکے پارٹی میں نئی روح پھونکی جاسکے اس منصب کے لیے رانا محمودالحسن اور سعود مجید کے نام زیر غور ہیں میرٹ پر دیکھا پرکھا جائے تو رانا محمودالحسن کی بجائے چوہدری سعود مجید پنجاب کی پگ سنبھالنے کے لیے موزوں ترین شخصیت ہیں سعود مجیدنے تنظیمی سرگرمیوں میں بھی کافی کام کیا ہوا ہے اگر محترمہ مریم نواز سعود مجید کے حق میں فیصلہ کریں گی تو آئندہ عام انتخابات میں انکے من پسند رزلٹ انے سے کوئی نہیں روک سکے گا سعود مجید ویسے بھی صاحب حیثیت کاروباری صاف کردار کی حامل شخصیت ہیں جنوبی پنجاب کی سیاسی پہیلیوں کو بھی خوش اسلوبی سے حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔