یوم تقدیس قرآن، اظہار رائے کی آزادی کا غلط استعمال اور میاں نواز شریف!!!!!
سویڈن میں قرآن پاک کی بےحرمتی کے خلاف پاکستان میں یوم تقدیس قرآن منایا گیا ہے۔ شاید ہم کم سے کم یا زیادہ سے زیادہ یہی کر سکتے تھے۔ حکومتی سطح پر بھی سویڈن میں ہونے والی اس مذہبی دہشت گردی کے خلاف آواز بلند کی گئی ہے۔ وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے بھی قوم کے جذبات کی ترجمانی کرتے ہوئے احتجاج کیا ہے۔ پارلیمنٹ نے اپنا کردار ادا کیا ہے۔ مغرب نے مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کے لیے اظہار رائے کی آزادی کے قانون کو اس گھٹیا ترین طریقے سے استعمال کیا ہے کہ ان پر کم سے کم سخت ترین الفاظ استعمال کر کے مذمت کی جا سکتی ہے۔ یہ جو اظہار رائے کی آزادی کے چیمپیئن بنے پھرتے ہیں انہیں کشمیر اور فلسطین میں آزادی کے لیے جانیں قربان کرنے والوں کی آوازیں تو سنائی نہیں دیتیں۔ انہیں فلسطین میں زخموں سے چور بچوں اور مظالم برداشت کرنے والی بہادر خواتین کا بہتا خون اور ان کی چیخیں تو سنائی نہیں دیتیں۔ یہ آزادی اظہار کے قانون کا کیسا استعمال ہے کہ لاکھوں انسانوں کو قید کر لیا جائے ان سے بنیادی حقوق چھین لیے جائیں، انہیں مذہبی آزادی حاصل ہو نہ انہیں گھومنے پھرنے کی آزادی ہو، وہ پکاریں، وہ بولنا چاہیں تو ان کی آواز کو ہمیشہ کے لیے خاموش کروا دیا جائے۔ اس وقت اظہار رائے کی آزادی کے چیمپیئن کہاں چھپے رہتے ہیں۔ کہاں دبک جاتے ہیں، اس وقت ان کی آواز کیوں نہیں نکلتی۔ انہیں چیختے چلاتے درد سے کراہتے بچوں کی آواز سنائی نہیں دیتی۔ کیا ان مظلوموں چیخ و پکار آزادی اظہار رائے کے زمرے میں نہیں آتی۔ دوسری طرف یہ دوہرا معیار رکھنے والے بڑے بڑے ممالک اسلامی دنیا کے دلوں پر حملہ کرنے والے ہر عمل کو اظہار رائے کی آزادی کا نام دے کر بچ نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ جان بوجھ کر کرتے ہیں۔ کبھی تاجدار انبیاءخاتم النبین حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم کی شان میں گستاخی کرتے ہیں کبھی قرآن کی بےحرمتی کرتے ہیں۔ کیا یہ دنیا میں بسنے والے کروڑوں مسلمانوں کے دلوں پر حملہ نہیں ہے۔ کیا یہ عمل مسلمانوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے مترادف نہیں ہے۔ کوئی کیسے اس حد تک جا سکتے ہے کہ آزادی اظہار کے نام پر تمام حدوں کو عبور کر جائے۔ سویڈن میں بھی عدالت نے اس خبیث کو روکنے کے عمل کو آزادی اظہار رائے کے خلاف کہا اور پھر وہ ہوا جس نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو احتجاج پر مجبور کیا کیونکہ اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ مسلم دنیا نے سویڈن میں قرآن مجید کی بےحرمتی پر سخت احتجاج کیا ہے اور شاید اس احتجاج کی وجہ سے ہی سویڈن میں قرآن مجید اور دیگر مقدس کتابوں کی بےحرمتی کو غیر قانونی قرار دینے پر غور کر رہی ہے۔
سویڈن کے وزیر انصاف گونار اسٹرومر کے مطابق "قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعے نے سویڈن کی سلامتی کو نقصان پہنچایا ہے۔ اس واقعے کے بعد سویڈن حکومت قرآن پاک یا دیگر مقدس کتابوں کی بے حرمتی کو غیر قانونی قرار دینے پر غور کر رہی ہے۔"
سویڈن میں قرآن پاک کی بے حرمتی پر دنیا بھر میں مسلمان سراپا احتجاج ہیں اور کئی ممالک میں ریلیاں نکالی جا رہی ہیں ۔ وزیراعظم شہباز شریف کہتے ہیں کہ "سانحہ سویڈن پر پوری امتِ مسلمہ مضطرب ہے۔ میرے اہل وطن! بات ہو قرآن کی تو قوم ایک ہے۔ ایک بد بخت کے ہاتھوں قرآن پاک کی بے حرمتی کے دلخراش واقعے پر اپنے جذبات اور احساسات کا اظہار کرنے کے لیے یوم تقدیس قرآن کے عنوان سے ہم ملک گیر پرامن احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔ قرآن ہمارے قلب میں ہے قرآن ہمارے لیے صرف قرات نہیں بلکہ جینے کا قرینہ ہے۔ "پارلیمنٹ میں اظہار خیال کرتے ہوئے وزیراعظم نے کہا کہ "قرآن کی بے حرمتی میں ملوث شخص کو نشانِ عبرت بنانا چاہیے۔ تمام ممالک کو سمجھنا چاہیے کہ مسلمان اب اس حرکت کو برداشت نہیں کریں گے۔ اگر آئندہ کسی نے ایسی حرکت کی تو کوئی ہم سے گلہ نہ کرے۔"
مسلم امہ کو اب تقسیم اور انتشار سے نکل کر اتفاق اور اتحاد کا سفر شروع کرنا پڑے گا ۔ ملکی اختلافات، کاروباری اختلافات یا علاقائی اختلافات اپنی جگہ ہیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلّم تو سب کے ہیں قرآن پاک تو سب کا ہے۔ مسلم امہ کو باہمی اختلافات کو ختم کرتے ہوئے مغرب کے اثر سے نکل کر اپنی طاقت کو بڑھانا ہو گا ۔ ورنہ مغربی طاقتیں ایسے کاموں سے باز نہیں آئیں گی ۔ یہ ہمارے دشمن ہیں اور ان کے ملکوں میں ہونے والے ایسے واقعات کے پیچھے ایک خاص قسم کی سوچ ہے ۔ یہ مسلمانوں کو پہنچنے والی تکلیف کا اندازہ لگانے کے لیے ایسی حرکتیں کرتے رہتے ہیں ۔ مذمت تو سب کافی عرصے سے کر رہے ہیں امت مسلمہ کو اب ایسے کام کرنے والوں کی مرمت کے لیے لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا۔ امت مسلمہ کو جاگنا ہو گا۔ او آئی سی کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔
احتساب عدالت لاہور نے سابق وزیراعظم اورمسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی غیر قانونی پلاٹ الاٹمنٹ ریفرنس سے بریت کے فیصلے میں کہا ہے کہ ریکارڈ بتاتا ہے کہ نواز شریف کوسیاسی انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ اس وقت کی حکومت نے نیب حکام کو نوازشریف کا سیاسی کیریئر تباہ کرنے پر مجبور کیا۔ ملک کے تین بار کے وزیراعظم نواز شریف کی ساکھ کو تباہ کیا گیا۔ اس فیصلے کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ بحث ہو رہی ہے کہ میاں نواز شریف چوتھی بار ملک کے وزیراعظم بنیں گے۔ مسلم لیگ ن کی قیادت ہر دوسرے دن اپنے قائد کی وطن واپسی کی خواہش کا اظہار کرتی ہے۔ میاں نواز شریف کی جماعت چاہتی ہے کہ وہ انتخابات سے پہلے وطن واپس آئیں اور انتخابی مہم کی قیادت بھی کریں۔ ویسے تو پاکستان کی سیاست میں آپ اگلے لمحے کا کچھ نہیں کہہ سکتے اندازہ لگانا بہت مشکل ہوتا ہے لیکن پھر بھی یہ محسوس ہوتا ہے کہ ابھی تک نواز شریف کی وطن واپسی کا فیصلہ نہیں ہوا۔ اگست کا تیسرا ہفتہ اس حوالے سے اہم ہو سکتا ہے۔ جب تک نگران حکومت نہیں بن جاتی اس وقت تک ایسی کسی بھی آمد بارے کچھ کہنا قبل از وقت ہو گا۔ میاں نواز شریف کے چاہنے والوں کی خواہش ضرور ہے کہ وہ وطن واپس آئیں ہو سکتا ہے میاں صاحب چکر لگا بھی لیں لیکن یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ دوبارہ باہر جانا پڑا تو کیا ہو گا۔
آخر میں عابی مکھنوی کا کلام
بستر پہ بیمار پڑے تھے
بابا جانی کروٹ لے کر
ہلکی سی آواز میں بولے
بیٹا کل کیا منگل ہو گا؟
گردن موڑے بِن میں بولا
بابا کل تو ب±دھ کا دِن ہے
بابا جانی س±ن نہ پائے
پھر سے پوچھا کل کیا دِن ہے؟
تھوڑی گردن موڑ کے میں نے
لہجے میں ک±چھ زہر مِلا کے
منہ کو کان کی سِیدھ میں لا کے
دھاڑ کے بولا
ب±دھ ہے بابا !!! ب±دھ ہے بابا۔!!! ب±دھ ہے بابا !!!
آنکھوں میں دو موتی چمکے
س±وکھے سے دو ہونٹ بھی لرزے
لہجے میں ک±چھ شہد مِلا کے
بابا بولے بیٹھو بیٹا
چھوڑو دِن کو دِن ہیں پ±ورے
ت±م میں میرا حصہ س±ن لو
بچپن کا اِک قِصّہ س±ن لو
یہی جگہ تھی میں تھا ت±م تھے
ت±و نے پ±وچھا رنگ برنگے
پھولوں پر یہ ا±ڑنے والی
اِس کا نام بتاو¿ بابا
گال پہ بوسہ دے کر میں نے
پیار سے بولا تِتلی بیٹا
ت±و نے پ±وچھا کیا ہے بابا؟
پِھر میں بولا تِتلی بیٹا
تِتلی تِتلی کہتے س±نتے
ایک مہینہ پ±ورا گ±زرا
ایک مہینہ پ±وچھ کے بیٹا
تِتلی کہنا ت±و نے سِیکھا
ہر اِک نام جو سِیکھا ت±و نے
کِتنی بار وہ پ±وچھا ت±و نے
تیرے بھی تو دانت نہیں تھے
میرے بھی اَب دانت نہیں ہیں
تیرے پاس تو بابا تھے نا
باتیں کرتے کرتے ت±و تو !!
تھک کے گود میں سو جاتا تھا
تیرے پاس تو بابا تھے نا
میرے پاس تو بیٹا ہے نا
ب±وڑھے سے اِس بَچے کی بھی
بابا ہوتے س±ن بھی لیتے
تیرے پاس تو بابا تھے نا
میرے پاس تو بیٹا ہے نا
میرے پاس تو بیٹا ہے نا