یومِ تقدیس قرآن کے ذریعے پاکستان کا ملحدوں کو ٹھوس پیغام
وزیراعظم شہباز شریف کی اپیل پر پوری قوم نے جمعۃ المبارک کا دن یوم تقدیسِ قرآن کے طور پر منایا۔ اس سلسلہ میں ہر مکتبہ زندگی کے لوگوں‘ سیاسی اور سماجی تنظیموں اور دینی و ملی فورمز کی جانب سے سویڈن میں عدالتی فیصلہ کے تحت اور پولیس کی سرپرستی و تحفظ میں قرآن پاک کو جلانے کی ناپاک جسارت کیخلاف ملک بھر میں جلسوں‘ جلوسوں کے ذریعے غم و غصے کا اظہار کیا گیا اور حرمتِ قرآن کے تحفظ کے عہد کا اعادہ کیا گیا۔ گزشتہ روز پاریمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں بھی ایک مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی اور ملک گیر احتجاج کی اپیل کرتے ہوئے کہا گیا کہ ہر پاکستانی قرآن کریم کے تقدس کا پرچم لے کر اپنے گھر سے نکلے اور احتجاج میں شریک ہو۔
وزیراعظم شہبازشریف نے جمعرات کو جاری کئے گئے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کے ذریعے سویڈن سمیت پوری دنیا پر زور دیا جارہا ہے کہ اسلام سمیت تمام مذاہب‘ مقدس ہستیوں اور عقائد کا احترام کیا جائے۔ ناموسِ قرآن ہمارے ایمان کا حصہ ہے‘ سویڈن سمیت دنیا بھر میں کہیں بھی قرآن کریم کی بے حرمتی کسی مسلمان کو برداشت نہیں اس لئے دنیا کی تمام امن پسند‘ مہذب اقوام اور عالمی ادارے سوا ارب مسلمانوں کے دل دکھانے‘ ان کیلئے مقدس اور محترم شعائر اور علامات کیخلاف نفرت پھیلانے اور اسلاموفوبیا کے واقعات روکنے کیلئے کردار ادا کریں۔ شہبازشریف نے اپنے پیغام میں باور کرایا کہ دنیا کو شیطان صفت کرداروں کے حوالے کرنا عالمی امن کیلئے خطرہ ہے۔ ہمیں دنیا کو بے امنی‘ نفرت اور انتشار کے جہنم میں دھکیلنے سے روکنا ہوگا۔ ہم کمزور نہیں‘ جواب دینا آتا ہے۔ اگر دوبارہ ایسی حرکت کرنے کی کوشش کی گئی تو پھر اس کیخلاف مسلم دنیا کے ردعمل پر کوئی گلہ نہ کرے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد میں بھی اس امر کی توقع کی گئی کہ آئندہ اس طرح کے واقعات نہیں ہونے دیئے جائیں گے۔ قرارداد میں اسلامی سربراہی کانفرنس (اوآئی سی) پر زور دیا گیا کہ اسلاموفوبیا کے سدباب اور مستقبل کی منصوبہ بندی کیلئے اس فورم کو ٹھوس طریقے سے بروئے کار لایا جائے۔ ہم اظہار رائے کیخلاف نہیں‘ مگر اسکی آڑ میں کسی کے مذہب اور مقدس شخصیات کی بے حرمتی‘ پراپیگنڈہ اور زہر پھیلانے کی دنیا کا کوئی قانون اجازت نہیں دیتا۔ ہمیں اسلامی دنیا کے ساتھ مل کر مضبوط آٰواز اٹھانی ہے۔ پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیراعظم کی جانب سے بجا طور پر اس بات کا نوٹس لیا گیا کہ سویڈن کی پولیس نے ایک خبیث شخص کو قرآن پاک کی بے حرمتی کی اجازت دی۔ کسی نے سوچا بھی نہیں تھا کہ کسی معاشرے میں پولیس اپنی سکیورٹی میں ایک خبیث اور لعنتی کو ایسی مذموم حرکت کی اجازت دیگی۔ ہمیں اس خبیث شخص کی خباثت کو عبرت کا نشان بنانا چاہیے۔ ہم اس معاملہ میں قانونی چارہ جوئی بھی کر رہے ہیں۔ مشترکہ اجلاس میں تمام پارلیمانی لیڈران اور اقلیتی ارکان نے بیک آواز ہو کر سویڈن کے دل آزار واقعہ کی مذمت کی اور عالمی برادری بالخصوص لبرل اور سیکولر ممالک سے مطالبہ کیا کہ دنیا میں امن مقصود ہے تو اس طرح کے ملعونین کیخلاف سخت ایکشن لیا جائے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حرمتِ قرآن کریم اور ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم کا تحفظ ہر مسلمان کے ایمان کا حصہ ہے جس کیلئے وہ کٹ مرنے کو بھی ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ ذاتِ باری تعالیٰ کی جانب سے حضرت نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائے گئے دینِ اسلام میں سب سے زیادہ شرف انسانیت پر زور دیا گیا ہے۔ بلاشبہ یہ انسانیت کی فلاح اور سلامتی کا دین ہے جس کیلئے حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو رحمۃ اللعالمین کے مقدس لقب سے سرفراز کیا گیا اور امت کی بخشش کی فضیلت سے نوازا گیا۔ اسلام نے امن و آشتی اور صلہ رحمی کا درس دیکر اسلامی فلاحی ریاست کے تصور کو اجاگر کیا ہے۔ بلاشبہ فلاحِ انسانیت پر مبنی دینِ اسلام نے روز قیامت تک قائم و برقرار رہنا ہے اور حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی فضیلت و مقام اللہ جل شانہ کے آخری رسول کا ہے جس پر مہرتصدیق مقدس الہامی کتاب قرآن کریم کے ذریعے ثبت کی گئی ہے۔ اس طرح ختم نبوت صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان ارکانِ اسلام کا حصہ ہے جس کے منکرین کی سزا بھی قرآن مجید میں ہی متعین کردی گئی ہے۔ اسکے برعکس ختم نبوت کی منکر الحادی قوتوں کا اپنا ایجنڈا ہے جس کا انکی جانب سے اور انکی سرپرستی میں شاتمین کی جانب سے شعائر اسلامی کی مختلف ہتھکنڈوں سے توہین‘ قرآن مجید کی بے حرمتی اور شانِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں گستاخی کی صورت میں وقتاً فوقتاً اظہار کیا جاتا ہے۔
الحادی قوتوں کو اس کا موقع بھی مسلم امہ میں درآنے والی فرقہ بندیوں‘ فروعی تنازعات اور ایمان کی کمزوریوں کو بھانپ کر ملا ہے۔ اسلام کی نشاۃ ثانیہ مسلم امہ کی انہی کمزوریوں کی نذر ہو گئی جس کے احیائ کیلئے مسلم دنیا کو امت واحدہ کے قالب میں ڈھلنے کی ضرورت ہے اور الحادی قوتوں کی اصل سازش یہی ہے کہ مسلم دنیا کو فرقوں‘ گروہوں اور فروعی مسائل میں الجھا کر امت واحدہ والی قوت نہ بننے دیا جائے کیونکہ امت واحدہ کی طاقت کے سامنے الحادی قوتوں کو اپنی موت نظر آتی ہے۔ اس میں مسلم امہ کا اجتماعی المیہ یہی ہے کہ مسلم ریاستوں کی قیادتیں اپنے اپنے مفادات کی اسیر ہو کر آپس میں الجھی اور باہم جنگ و جدل پر آمادہ رہتی ہیں جو درحقیقت الحادی قوتوں کا ایجنڈا ہے۔ اگر مسلم دنیا جو آج ڈیڑھ ارب کے قریب نفوس پر مشتمل ہے‘ اتحاد و ایقان کے ساتھ اپنا تشخص اجاگر کرے تو کسی ملحد و مشرک کو اتحادِ امت میں نقب لگانے کی جرات نہ ہو۔ وہ ہمارے بطور امتِ واحدہ اتحاد کا اندازہ لگانے کیلئے ہی اہانتِ رسول و قرآن جیسے پلید اور مکروہ واقعات کا ارتکاب کرتے ہیں جس کیلئے انہوں نے انسانی آزادیوں بشمول آزادیظہار کے اپنے وضع کردہ قوانین کو ڈھال بنا رکھا ہے جبکہ وہ اپنے مذاہب و عبادات کیخلاف کوئی لفظ تک سننے اور برداشت کرنے کے روادار نہیں ہوتے اور شعائر اسلامی کیخلاف اپنی گستاخیوں کو وہ آزادیظہار کے کھاتے میں ڈال کر اپنا حق گردانتے ہیں۔ چنانچہ اہانتِ رسول و قرآن کے واقعات کسی فردِ واحد کی مکروہ سوچ نہیں بلکہ یہ الحادی قوتوں کے مسلمانوں کو مشتعل کرکے دین اسلام پر ملبہ ڈالنے کے باقاعدہ ایجنڈے کا حصہ ہے۔ ڈنمارک اور سویڈن میں گستاخانہ خاکوں کی نمائش کی حرکت بھی اسی ایجنڈے کے تحت کی گئی۔ فرانس کے صدر میکرون نے بھی اسی ایجنڈے کے تحت گستاخانہ خاکے خود آویزاں کرائے اور اب سویڈن کے عراقی نڑاد باشندوں کو بھی اسی ایجنڈے کے تحت عدالت اور پولیس کے تحفظ میں قرآن مجید کو نذر آتش کرنے کی ملعون و مکروہ حرکت کی اجازت دی گئی جس پر مسلمانوں کی دل آزاری فطری امر ہے اور اسی بنیاد پر آج پوری مسلم دنیا اور دنیا بھر میں سویڈن کی سرزمین پر مسلمانوں کے مذہبی تہوار عیدالاضحی کے روز ہونیوالی اس قبیح حرکت کی مذمت کی جارہی ہے اور احتجاجی جلوس نکالے جا رہے ہیں۔ اسلامی ممالک کی تنظیم او آئی سی نے بھی ہنگامی اجلاس بلا کر اس حرکت کا سخت نوٹس لیا ہے اور سویڈش حکومت کو ایسے کسی واقعہ کا اعادہ نہ ہونے دینے کا کہا ہے۔
پاکستان میں تو پوری قوم بلاامتیاز مذہب اس قبیح حرکت پر سراپا احتجاج ہے اور جمعۃ المبارک کو یوم تقدیس قرآن کے طور پر منا کر سویڈن سمیت تمام الحادی قوتوں کو ٹھوس پیغام دیا گیا ہے تاہم یہ محض رسمی احتجاج ہی ہے جس سے الحادی قوتوں کے راہ راست پر آنے کا کوئی امکان نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سویڈن میں سرکاری سرپرستی میں کی گئی توہین قرآن کی پلید حرکت پر پوری مسلم دنیا او آئی سی کے پلیٹ فارم پر یکسو ہو کر ایسے واقعات کے سدباب کیلئے عملی اقدامات اٹھائے۔ مسلم ممالک میں سویڈن کی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے اور اسکے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرلئے جائیں۔ ہمارے رسمی احتجاجات سے تو ان رذیلوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔