• news
  • image

آئی ایم ایف کی نمائندہ کی عمران خان سے ملاقات

تحریک انصاف کے دیرینہ حامیوں کی کثیر تعداد 9 مئی کے بعد سے کافی اداس دِکھ رہی تھی۔کئی برسوں سے عمران خان کا سینہ پھلا کر دفاع کرنے کی وجہ سے چرب زبانوں کے ایک بڑے گروہ نے گزشتہ حکومت میں نمایاں اور بارعب عہدے حاصل کیے تھے۔ ان کا اخلاقی فرض تھا کہ مشکل کی اس گھڑی میں گھروں میں خوف سے دبک کر بیٹھے کارکنوں کو تھوڑی بہادری دکھاتے ہوئے حوصلہ دیتے۔ وہ مگر ہماری سیاسی تاریخ کے تناظر میں نسبتاً ’معمولی‘ تپش بھی برداشت نہ کر پائے۔اس ضمن میں سب سے زیادہ مایوس عثمان بزدار نے کیا۔طاقت ور حلقوں کی رائے اور فریادکومسلسل نظرانداز کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم انھیں ’وسیم اکرم پلس‘ ثابت کرنے کی کاوش میں جتے رہے تھے۔اس کے علاوہ بھی کئی نام ہیں۔ان کی تفصیلات میں الجھ گیا تو اس کالم کے کلیدی موضوع سے بھٹک جاﺅں گا۔
جمعہ کے دن تحریک انصاف کے اداس کارکنوں کو تسلی دینے کے لیے اہم پیش رفت ہوئی ہے۔اسلام آباد میں تعینات آئی ایم ایف کی نمائندہ سابق وزیر اعظم سے خصوصی ملاقات کے لیے لاہور کے زمان پارک گئیں۔شاہ محمود قریشی کے علاوہ مذکورہ ملاقات میں عمران خان کی معاشی ٹیم کے سرکردہ افراد نے ذاتی موجودگی کے علاو ہ انٹرنیٹ کے ذریعے بھی شرکت کی۔ واشنگٹن میں موجود پاکستان سے متعلق ڈیسک کے انچارج بھی زوم کی سہولت کے ذریعے اس میں شریک ہوئے۔
جو ملاقات ہوئی وہ ہرگز ’خفیہ‘ نہیں تھی۔ اس کے آغاز سے قبل آئی ایم ایف کے اسلام آباد آفس نے بلکہ مختصر بیان کے ذریعے اس کا مقصد بیان کردیا تھا۔ پاکستان کو دیوالیہ سے بچانے کے نام پر طویل اور مشکل ترین مذاکرات کے اختتام پر ایک معاہدے کے خدوخال طے ہوئے ہیں۔ ممکنہ معاہدے کے مطابق عالمی معیشت کا نگہبان ادارہ پاکستان کو آئندہ نومہینوں کے دوران تین ارب ڈالر مختلف اقساط میں فراہم کرے گا۔ ان کے حصول کے لیے مگر لازمی ہوگا کہ حکومت بجلی کے نرخوں کو بتدریج بڑھاتی رہے اور پٹرول کی خریداری پر مزید ٹیکس بھی وصول کرے۔ جس رقم کا وعدہ ہوا ہے اس کا حصول جاری رہا تو 12 اگست کے بعد قائم ہونے والی نگران حکومت دیوالیہ کے خوف سے مفلوج محسوس کرنے کے بجائے انتخابات کے انعقاد پر توجہ دے سکتی ہے۔آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کی شرائط پر عمل درآمد اس کے لیے ’سیاسی نقصان‘ کا باعث بھی نہیں ہوگا۔ انتخابی مہم کے دوران تاہم چند اہم سیاسی جماعتیں آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کو لوگوں کے جذبات بھڑکانے کے لیے ’متنازعہ‘ بناسکتی ہیں۔ آئی ایم ایف مذکورہ اقدام کی پیش بندی کرنا چاہ رہا ہے۔اسی باعث حکومت کے علاوہ سیاسی جماعتوں کی قیادت سے بھی رابطوں کو مجبور ہوا۔
ہمارے کئی دوست یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ’پاکستان کی تاریخ‘میں آئی ایم ایف نے ’پہلی بار‘ اپنے ساتھ ہوئے معاہدے پر عمل داری کے لیے حکومت کے علاوہ اپوزیشن میں موجود سیاسی جماعتوں سے بھی رابطہ کیا ہے۔1990ءکی دہائی سے قبل کی تاریخ کی بابت مجھے ذاتی طورپر مستند معلومات میسر نہیں۔ 1993ءمیں تاہم جب ’کاکڑ فارمولے ‘کے تحت معین قریشی راتوں رات واشنگٹن سے بلواکر ہمارے وزیر اعظم بنائے گئے تو میں ایک متحرک رپورٹر تھا۔ نگران ا ور ’عبوری‘ ہوتے ہوئے بھی معین قریشی کی حکومت نے آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ پر دستخط کیے تھے۔ آئی ایم ایف نے مذکورہ معاہدہ کی جزئیات اور تفصیلات سے محترمہ بے نظیر بھٹو کے اسلام آباد کے ایف ایٹ والے گھر جاکر آگاہ کیا تھا۔ نواز شریف سے براہ راست رابطوں کی مجھے خبر نہیں۔ان کے معاشی مشیر اور اہم رہنما سرتاج عزیز صاحب البتہ ان دنوں ہوئے معاہدے کی تفصیلات سے آئی ا یم ایف اور نگران حکومت کی جانب سے ’باخبر‘ رکھے گئے تھے۔
یہ بیان کرنے کے باوجود میں آئی ایم ایف کی اسلام آباد میں تعینات نمائندہ کا خصوصی طورپر لاہورجاکر عمران خان سے ملاقات کو ’معمول‘ تصور نہیں کروں گا۔ گزشتہ کئی دنوں سے سابق وزیر اعظم کا نام پیمرا کے لائسنس یافتہ چینلوں پر لیا نہیں جاسکتا۔اس کے علاوہ ہر روز کوئی نہ کوئی ایسی پیش رفت ’اچانک‘ ہوجاتی ہے جو اس خدشے کو تقویت پہنچاتی ہے کہ سابق وزیر اعظم کی گرفتاری کا دن ’قریب تر‘ ہورہا ہے۔اگر وہ گرفتار ہوگئے تو اسلام آباد کے کئی ’باخبر‘ صحافی انھیں آئندہ انتخاب میں حصہ لینے کے لیے ’نااہل‘ ہوتا بھی دیکھ رہے ہیں۔
پراسرار سرگوشیوں میں عمران خان کے سیاسی مستقبل کے بارے میں جن خدشات کا اظہار ہورہا ہے ان کے ہوتے ہوئے آئی ایم ایف کی نمائندہ کا باقاعدہ اعلان کے بعد سابق وزیر اعظم سے ملاقات کے لیے لاہور جانا ’معمول‘ کا واقعہ ہو نہیں سکتا۔ سفارتی کنایوں کا طالب علم ہوتے ہوئے میں بلکہ اصرار کروں گا کہ مذکورہ ملاقات کے ذریعے عالمی معیشت کے نگہبان ادارے نے یہ پیغام دیا ہے کہ اس کی دانست میں عمران خان وزارت عظمیٰ سے فراغت کے باوجود ہمارے سیاسی منظر نامے کے اہم ترین کرداروں میں شامل ہیں۔آئی ایم ایف پاکستان سے ہوئے معاہدے پر کامل عمل درآمد یقینی بنانے کے لیے ان سے ملاقات کی ضرورت محسوس کرتا ہے۔ذاتی رائے کے اظہار کے باوجود میں گہری اداسی کے بعد فخر محسوس کرتے ثابت قدم عاشقان عمران خان کی اس سوچ سے اتفاق نہیں کرتا کہ آئی ایم ایف پاکستان کے ساتھ طے ہوئے معاہدے کو اس وقت تک عملی صورت دینے کو تیار نہیں تھا جب تک اسے قائد تحریک انصاف کی ’منظوری‘ فراہم نہ ہوتی۔میری دانست میں سابق وزیر اعظم کو فیصلہ سازی کا اہم ’شراکت دار‘ تسلیم کرتے ہوئے بھی آئی ایم ایف کا بنیادی مقصد انھیں یہ باور کروانا تھا کہ وہ اور ان کی جماعت انتخابی مہم کے دوران آئی ایم ایف سے ہوئے معاہدے کو متنازعہ بنانے سے گریز کریں۔ نظر بظاہر اس ضمن میں ’تسلی‘ دے دی گئی ہے۔تحریک انصاف اس سے گریز کرتی تو ہمارے عوام اور دنیا کو دانستہ سفاکی کے ساتھ پاکستان کو دیوالیہ کی جانب دھکیلتی محسوس ہوتی۔ آئی ایم ایف کو دی ’تسلی‘ تحریک انصاف کو 12 اگست کے بعد بروقت انتخاب کے حصول میں بھی مدد فراہم کرے گی اور فی الوقت سابق وزیر اعظم کا اصل سیاسی ہدف ان کا حصول ہی تو ہے۔

epaper

ای پیپر-دی نیشن