ڈو اینڈ ڈائی
پچھلے چار پانچ سال سے ہم معاشی لحاظ سے بہت پیچھے چلے گئے ہیں۔ ملکی کرنسی کی قدر ٹکے برابر نہیں رہی۔ سرمایہ کاری بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔ ایکسپورٹ کا شعبہ ذبوں حالی کا شکار ہے۔ صنعتیں لاگر اور بیمار ہیں۔ مہنگائی عروج پر ہے۔ بے روزگاری اور غربت کی طوفانی مار ہے۔ اس کے علاوہ ملک اور معاشرے کو بے شمار مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کی بنیادی وجہ ملکی سیاست میں بدترین بگاڑ، معاشی عدم استحکام اورپالیسیوں میں عدم تسلسل ہے۔ 2018ء سے ملک کو مشکلات اور چیلنجز سے نکال کر معاشی بقا اور خوشحالی کے دعوے ،وعدے ، اعلانات اور یقین دہانیاں کی گئیں مگرعملی طور پر ان اعلانات ، پالیسیوں اور وعدوں میں خلوص نہ تھا۔ ملکی مفاد کم اور ذاتی یا پارٹی مفادات زیادہ تھے اسی وجہ سے نتائج قوم کے سامنے نہ آسکتے۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے ہم کشکول لے کر یا تو بھیک مانگ رہے یا پھر آئی ایم ایف سے قرض۔ قرض یا امداد کی قسط سے وقتی طور پر ملک ڈیفالٹ ہونے سے آج تک بچ گیا لیکن معیشت میں استحکام نہیں آیا۔
ہمارے لیے برطانیہ، امریکا، یورپ اور عرب ممالک میں امن، خوشحالی اور استحکام قابل غور ہے۔ ان ممالک نے ترقی کے جو زینے طے کیے اس کے پیچھے کوئی راکٹ سائنس ہے۔ پائیدار پالیسیاں اور مثبت حکمت عملی اور ان میں تسلسل ہی ان ممالک کی کامیابیوں کا بنیادی راز ہے۔ ہم یہاں بیٹھ ہر وقت سسٹم کا رونا روتے ہیں۔ جہاں موقع ملے تو جمہوریت اور آمریت کی بحث چھیڑتے ہیں۔ ٹھیک ہے یورپ میں بہتر جمہوری نظام بھی وہاں کی ترقی کی ایک وجہ ہے لیکن سعودی عرب ، قطر اور دیگر ممالک میں بادشاہت ہے۔ ایک فرد یا خاندان پورے ملک کا نظام چلا رہا ہے تب بھی وہاں معاشی اور سیاسی استحکام ہے۔ عوام خوشحال ہیں۔ ان ممالک کے حکمران نہ صرف اپنی قوم کے ساتھ مخلص ہیں بلکہ یہاں روز گار یا دیگر شعبوں میں خدمات سرانجام دینے والے خارجی لوگوں کے لیے بھی بڑا دل رکھتے ہیں۔ یہاں انصاف کا بول بالا ہے۔ قانون اور آئین کی رٹ قائم ہے۔ مجال ہے کوئی اوئے کرکے قانون کی خلاف ورزی کرسکے۔ ممکن ہی نہیں کہ کوئی ملکی نظام میں بگاڑ پیدا کرنے کی معمولی کوشش کرسکے۔
اپنے ملک اور قوم کا حال اس کے برعکس ہے۔ یہاں نہ سیاسی استحکام ہے نہ ہی معاشی بقا۔ امن و امان کی صورتحال بھی کب کی سیاست اور سیاستدانوں کی انا اور ان کی نااہلی بھینٹ چڑھ چکی ہے۔ معاملہ روز بہ روز گھمبیر ہوتا چلا جارہا ہے اور ہم ڈو اینڈ ڈائی والی پوزیشن پر آچکے ہیں۔ آج نہیں تو کبھی نہیں والا فقرہ بار بار تقاضا کررہا ہے سیاسی استحکام کے ساتھ ساتھ پالیسیوں میں تسلسل رکھنے کی عادت ڈال دیں۔ اب ملک کو ذاتی مفادات کی بھینٹ چڑھانے کی کوئی گنجائش نہیں۔ اب من مرضی اور من پسند فیصلوں سے ملکی نظام نہیں چل سکتا۔ اب پارٹی کی خاطر ملک کو داؤ پر لگانے کے حربے کام نہیں آئیں گے۔ اب جس نے بھی سیاست کرنی ہے یا حکمرانی کا خواہش مند ہے اسے اپنے پلے سے یہ بات باندھ لینی چاہیے کہ ملک کی خاطر سیاست کریں گے تو ان کی سیاست کو دوام ملے گا۔ ملکی خدمت ہی آگے جانے کا سرٹیفکیٹ ہوگا۔
یہ اچھا ہوا سیاسی و عسکری نے معاشی سمت درست کرنے کے لیے سپیشل انوسٹمنٹ فیسلی ٹیشن کونسل بنائی اور اس کے ذریعے پائیدار اور جاندار فیصلے کرنے کا عزم کیا۔ اس کا اظہار کونسل کی ایپکس کمیٹی کے اجلاس میں ہوا۔ اس کی جھلک نئی انوسٹمنٹ پالیسی کی صورت میں آئے گی جس کے تحت پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے والے غیر ملکی سرمایہ کاروں کو نہ صرف مکمل تحفظ دینے کی یقین کرائی گئی بلکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کم سے کم ایکویٹی کی شرح بھی ختم کردی گئی۔ نئی انوسٹمنٹ پالیسی کے تحت غیر ملکیوں کو اسلحہ اور آتشی انڈسٹری سمیت 6 صنعتوں کے علاوہ تمام شعبوں میں سرمایہ کاری کرنے کی اجازت دے دی گئی۔ انھیں پورا منافع اپنے ملک کی کرنسی میں بیرون ملک بھیجنے کی اجازت ہوگی۔ نئی پالیسی کا مقصد 20 سے 25 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔
موجوہ حکومت نے ملک میں زراعت کے فروغ کے لیے لینڈ انفارمیشن مینجمنٹ سسٹم کے قیام کا فیصلہ بھی کیا ہے۔ منصوبے کے تحت جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا۔ کسانوں کو موسمی تبدیلیوں، فصلوں کی سیٹیلائٹ نگرانی، پانی،کھاد اور اسپرے کے استعمال کے بارے میں بروقت معلومات دی جائے گی، اس کے علاوہ کسانوں کو منڈیوں تک براہ راست رسائی ملے گی۔
حکومت کے یہ دونوں اقدام قابل تحسین ہیں مگر ماضی ہمارے سامنے ہیں۔ پچھلی حکومتوں نے بھی اسی طرح سرمایہ کاری اور زراعت کے فروغ کے لیے ہنگامی فیصلے کیے، طرح طرح کی پالیسیاں متعارف کرائیں مگر وہ پالیسیاں حکومت بدلنے کے ساتھ ہی بدل گئیں یا بالکل ہی ختم کردی گئیں۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ہم جو ایک قدم آگے بڑھتے ہیں تو ناقص حکمت عملی اور پالیسیوں میں عدم تسلسل کے باعث پھر دو قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صاحب اقتداراور دیگر فیصلہ سازوں نے ملک کی بہتری کے لیے کمر کس لی ہے۔ وقت نے ہمیں سدھرنے کے کئی موقع دیے جو ہم نے ضائع کردیے اب موقع ضائع کرنے کی گنجائش ہی نہیں بچی۔ ملک کو سیاسی عدم استحکام اور معاشی بحران سے نکالنے کے لیے اب بھی اگر نئی داستان رقم نہ کی گئی تو پھر ہماری بھی داستان نہیں رہے گی داستانوں میں۔ آج نہیں تو کبھی نہیں!
٭…٭…٭