ایسٹ انڈیا کمپنی پارٹ 2
تحریک انصاف سمیت دیگران سے آئی ایم ایف ٹیم کی ملاقات پر مجھے 423 سال قبل لندن میں قائم ہونے والی ایسٹ انڈیا کمپنی کی یاد آگئی۔ ملکہ الزبتھ اول نے لندن کے دو سو کے لگ بھگ تاجروں کو محض تجارت کے لیے اجازت نامہ جاری کیا تھا لیکن پولیٹیکل انجینئرنگ، محلاتی سازشوںاور طاقت کے بل بوتے پر ایسٹ انڈیا کمپنی طاقتور ترین ملٹی نیشنل کمپنی بن گئی۔ اس نے انڈیا کو نہ صرف سونے کی چڑیاسمجھا بلکہ اسے بری طرح لوٹا۔ اس کے بعد1944ء میں ایسٹ انڈیا کمپنی پارٹ ٹو وجود میں آئی، اس کا نام انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ( آئی ایم ایف) رکھا گیا۔ آئی ایم ایف نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے برعکس براہ راست کاروبار کرنے کی بجائے مالی مدد کے نام پر سود پر قرض دینے کا کاروبار شروع کیا۔ 190 رکن ممالک پر مشتمل آئی ایم ایف نے نہ فوج بنائی، نہ جتھے ،نہ براہ راست کاروبار کیا بلکہ عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کے نام پر ترقی پذیر اور تیسری دنیا کے ممالک کو سود مرکب پر مبنی قرضوں کے جال میں پھنسا کر غلام ابن غلام بنالیا۔
وطن عزیزمیں آئی ایم ایف کی سیاسی جماعتوں سے ملاقاتوں پر کئی سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ پہلا یہ کہ پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی ہے کیا؟ کون ایسے کنٹرول کرتا ہے ؟ اس کی ریڈ لائین کیا ہے؟ کیاکسی بھی سیاسی رہنما کوریاست سے بالاتر ہوکر کھلی اجازت ہے کہ وہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک یا کسی بھی ملک سے رابطہ کرے؟ کیا آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک سمیت کوئی بھی بین الاقوامی ادارہ یا کسی بھی ملک کے سفیر کو یہ اجازت ہے کہ وہ براہ راست اپوزیشن کے کسی بھی رہنما سے ملتا پھرے اور اس کے تحفظات سنتا رہے؟ ان معاملات کو کون دیکھتا ہے؟ کون کنٹرول کرتا ہے؟ کون اس پر جزا اور سزا کا تعین کرتا ہے؟ کوئی اس پر کوئی اقدام بھی کرتا ہے یا نہیں؟
موجودہ ملکی صورتحال میں بڑا سوال یہ نہیں ہے کہ آئی ایم ایف کی ٹیم نے تحریک انصاف، پیپلز پارٹی و دیگر سیاسی جماعتوں سے ملاقات کی؟ بڑا سوال تو یہ ہے کہ کیا ہماری ریاست کی آنکھیں بند ہیں؟ کیا ریاست اس قدر کمزور ہے کہ آئی ایم ایف کے اس عمل کو براہ راست پاکستان کی داخلہ پالیسی میں مداخلت سمجھتی ہی نہیں؟ وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر بلال اظہر کیانی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف نے وسیع مقاصد کے لیے پی ٹی آئی ودیگرسیاسی جماعتوں سے ملاقات کی جبکہ سنجیدہ حلقے خوب جانتے ہیں کہ آئی ایم ایف کی جانب سے سیاسی جماعتوں سے ملناپاکستان کی سیاست میں کی جانے والی کھلم کھلا دخل اندازی ہے۔ تحریک انصاف کی جانب سے عام انتخابات کے انعقاد کو یقینی بنانے کے لیے آئی ایم ایف کو مداخلت کی درخواست کرنا انتہائی خوفناک عمل ہے،اس نے کس برتے پر یہ مطالبہ کیا ؟آئی ایم ایف نے جو اس پر جواب دیا وہ بھی قابل فکر ہے،کیا کسی نے سنا ہے کہ بھارت کے کسی سیاست دان نے آئی ایم ایف کو اپنے ملک میںالیکشن کی تاریخ مقرر کروانے کی درخواست د ی ہو؟
کسی نے سنا ہو کہ بھارت کے اپوزیشن لیڈران نے کبھی آئی ایم ایف کو خط لکھا ہو کہ بھارتی حکومت کو قرض ہی نہ دیا جائے کہ وہ واپس نہیں کرے گی؟ میری تو ہنسی نکل گئی جب نمائندہ آئی ایم ایف نے بیان دیا کہ ان ملاقاتوں کا مقصد انتخابات سے پہلے آئی ایم ایف کے نئے سپورٹ پروگرام کے لیے تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں کی حمایت حاصل کرنا ہے۔ کون سنجیدہ اورمتوازن دماغ اس وضاحت پر یقین کرے گا۔ یہاں ایک اور سوال کھڑا ہوتا ہے کہ کیا آئی ایم ایف نے حکومت کے ساتھ معاہدہ دیگر سیاسی جماعتوں سے پوچھ کر کیا تھا؟ میں تو سمجھتا ہوں کہ موجودہ معاشی بحران میںآئی ایم ایف قرض کا حصول آخری راستہ تھا جس سے ہماری معاشی بحالی کی امیدیں وابستہ تھیں ۔ ضرورت کے وقت قرض لینا بری بات نہیں لیکن معیشت کوبحال نہ کرنا اور مستقل قرض پر قرض لیناشدید بے قاعدگی ہے جس کی وجہ سے ملک اپنے پیروں پر کھڑے نہیں ہوپاتے ہیں۔ آئی ایم معاہدے کے بعدسٹاک ایکسچینج میں چڑھائو اور ڈالر کی قیمت میں اتار مثبت واقعات ہیں۔ امید ہے آنے والے دنوں میں تمام سیاسی جماعتیں میثاق معیشت پر عمل کرتے ہوئے سیاسی استحکام پیدا کریں گی تاکہ عوام کوشدید ترین مہنگائی سے واقعی ریلیف مل سکے۔
آخری بات جسے ہمیں یاد رکھانا ہوگاوہ یہ ہے کہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرِ معیشت بنجامن فریڈمین کا کہنا ہے کہ یہ جاننا ناممکن ہے کہ آئی ایم ایف کی مداخلت نے کسی ملک کے معاشی صورتحال کو بہتر بنایا یا بدتر۔ بنجامن فریڈمین جیسے نام نہاد ماہرین معیشت مخصوص ایجنڈے کے تحت سچ نہیں بلکہ اس امر کی تکرار جان بوجھ کر تکرارکرتے ہیں تاکہ کنفیوژن برقرا ر رہے ۔ اصل حقیقت تو یہ ہے کہ اکنامکس سے دلچسپی رکھنے والے کے بچے بچے کو پتا ہے کہ عالمی معیشت کو مستحکم کرنے کا نعرہ لگانے والا آئی ایم ایف عملی طور پر جس ملک میں بھی یہ گیا وہاں مہنگائی سے عوام کودیوالیہ کرڈالا۔