• news

رہائشی پلاٹ ،بے گھری اور جذبہ حب الوطنی 

1977ء میں بھٹو مخالف 9جماعتوںکا اتحاد مقتدر قوتوں کے اشارے کے بغیر ممکن نہ تھا۔ ان نوجماعتوں میں ایک طرف نیشنل عوامی پارٹی جیسی سیکولرجماعت تھی اور دوسری جانب جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے پاکستان جیسی مذہبی جماعتیں۔ سبھی سیاستدان باہم شیر و شکر ہو گئے۔اب اہلحدیث ، شیعہ ، اہلسنت اور دیوبندی علماء کو اک دوسرے کی امامت میں نماز ادا کرنے میں کوئی عار نہ تھا۔ پھر الیکشن دھاندلیوں کے خلاف تحریک بحالی جمہوریت شروع ہو گئی۔ کیا یہ تحریک بحالی جمہوریت محض رفیق احمد باجوہ کی خطابت کے باعث تحریک نظام مصطفی میں ڈھل گئی یا اس سلسلہ میں کچھ دیگر عوامل بھی کار فرما تھے ؟ اس سوال کا جواب تحقیق طلب ہے۔ پھر فوج آگئی۔ شریعت بنچ آگیا۔ایوب دور اور بھٹو دور کی تمام زرعی اصلاحات غیر اسلامی قرار دیدی گئیں۔ اب جاگیرداری ٹھاہ والی بات سرے سے ہی ختم ہو گئی۔ شریعت بنچ جاگیرداروں کی پشت پرآن کھڑا ہو گیا۔ حد ملکیت والا قصہ کہانی ختم ہو گیا۔ ہندوستان میں جاگیرداری خالصتاً انگریزوں کا تشکیل کردہ ادارہ ہے۔ مغل دور میں کسی منصب دار کو بخشی گئی جاگیر صرف اس کی زندگی تک کیلئے ہوتی تھی۔ یہ وراثت میں منتقل نہیں ہوتی تھی۔ ہندوستان میں پہلی مرتبہ
 Bangal Permanent Settlement Act of 1793
کے تحت مستقل بنیادوں پر زمین کی ملکیت کے حقوق دیئے گئے۔ یہ اہتمام اپنے وفاداروں کا ایک مستقل طبقہ پیدا کرنے کیلئے کیا گیا۔ پاکستان میں سبھی جاگیردار گھرانوں کو جاگیریں ان کی 1857ء کی جنگ آزادی میں فوجی خدمات کے باعث ملی تھیں۔ ایک مشاعرہ میں ضمیر جعفری نے نوابزادہ نصر اللہ خاں کو اپنا کلام پڑھتے سناتو عرض کرنے لگے کہ حضور! آپ تو ہمارے قبیلے کے آدمی ہیں۔ آپ سیاست میں کیا لینے آگئے ؟‘‘نوابزادہ نے برجستہ جواب دیا کہ’’ سیاست میں ، میں لینے نہیں دینے آیا ہوں‘‘۔ اس جواب میں ایک جاگیردار کی مالی آسودگی اور رعونت ٹپکتی تھی۔ ان کی یہ ساری مالی آسودگی ان کے دادا اللہ داد خاں کے ’’کارناموں‘‘ کی مرہون منت تھی۔ اللہ داد خاں نے 1857ء میں بنگال رجمنٹ نمبر 68کے’’ بھگوڑے ‘‘سپاہیوں کے قتل کرنے میں انگریزوں کی مدد کی اور اس صلہ میں جاگیر پائی۔ تاریخ پاکستان کا ایک چبھتا سا سوا ل ہے کہ 1934-35ء میں بے جان مسلم لیگ میں جو نئی جان پڑی ، یہ سارا کچھ یو پی میں ہوا تھا۔ یو پی کے اکابرین جن میں نمایاں چوہدری خلیق الزماں تھے ، کیا چاہتے تھے؟ کیا انہیں قیام پاکستان میں اپنی جاگیروں کا تحفظ دکھائی دے رہا تھا ؟ جبکہ دوسری جانب کانگریس میں پٹیل سمیت سبھی صف اول کے رہنما جاگیرداری کے مخالف تھے۔ پھر مسلم لیگ میں شامل ہونے والے یہ اکیلے جاگیردار نہیں رہے۔ پنجاب ، سندھ کے سبھی جاگیردار جوق در جوق مسلم لیگ میں شامل ہوتے چلے گئے۔ ہندوستان نے آزادی کے فوراً بعد حد ملکیت مقرر کر کے جاگیرداری سے نجات حاصل کر لی۔ ادھر پاکستان میں جاگیرداروں کے مسلم لیگ پر قبضے کی وجہ سے ایسے امکانات ممکن نہ رہے۔ مشرقی پاکستان مسلم لیگ نے جاگیرداری کے خلاف قرار داد پاس کی تھی۔ بصارت اور بصیرت رکھنے والے اس قرارداد کو بنگلہ دیش کی خشت اول قرار دیتے ہیں۔ آج زرعی ٹیکس نہ لگانے اور زمین کی حد ملکیت مقرر نہ کرنے پر پارلیمنٹ میں مکمل اتحاد پایاجاتا ہے کیونکہ تاحال پارلیمنٹ پر جاگیرداروں اور بڑے زمینداروں کا غلبہ ہے۔ زرعی ٹیکس کے خلاف وہی بودی دلیل سامنے لائی جاتی ہے اور جاگیردار یکدم کاشتکار بن جاتا ہے۔ زراعت کو غیر نفع بخش پیشہ ظاہر کیاجاتا ہے لیکن ہر سال بڑھنے والا فی ایکڑ ٹھیکہ کبھی زیر بحث نہیں آتا۔یہ ٹھیکہ انکم میں شمار ہی نہیں کیا جاتا۔ سرکاری زمینوں کی بخشیش کچھ 1857ء سے ہی خاص نہیں یہ گول مول چکر اب تک چلتا آرہا ہے۔ اکیسویں صدی کے شروع میں ملتان میں روزنامہ ’’نوائے وقت‘‘کے دفتر کا افتتاح کرتے ہوئے مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے سابق صدر پاکستان جناب محمد رفیق تارڑ نے قوم کو خبردار کیا تھا کہ آئندہ جنگ زمین کے مالکوں اور بے مالکوں کے درمیان ہوگی۔ انہوں نے قوم کو خبردار کیا کہ زمین کو جس طرح مڈل کلاس طبقے کے پائوں کے نیچے سے سرکایا جا رہا ہے ، یہ ایک خونی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔ اگر اس مسئلے کا کوئی حل تلاش نہ کیا گیا تو ملکی تباہی ، بربادی کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ ان کے بعد یہ مسئلہ کسی نے نہیں اٹھایا۔ جذبہ حب الوطنی بھی احساس ملکیت کے خمیر سے پیدا ہوتا ہے۔ میرا ملک اور میرے شہر سے بات ہوتی ہوئی میرے گھر پر آن ٹکتی ہے۔ جس ملک میں میرا گھر ہی نہیں وہ میرا ملک کتنا ہے ؟ یہی بات شاعر لاہور شعیب بن عزیز نے بھی کہی کہ میں بستی کی خیر اس لئے بھی مانگتا ہوں کہ بستی کے ان گھروں میں ایک گھر میرا بھی ہے۔ فیض نے بھی اپنی پنجابی شاعری میں اللہ میاں سے’’ جیونے کی نکر ‘‘یعنی گھر کا مطالبہ کیا ہے بصورت دیگر کسی اور رب کی تلاش کی دھمکی بھی دی ہے۔ آج ایک فیملی کیلئے رہائشی پلاٹ دانہ گندم کی طرح ہی ضروری ہے۔ کیا ان حالات میں رہائشی پلاٹوں کی ذخیرہ اندوزی غلہ کی طرح ہی ناجائز نہیں ؟ علمائے دین اس مسئلے پر خاموش اسلئے ہیں کہ ہمارے ملک میں سبھی صاحب حیثیت با اختیار پلاٹوں کے تاجر بن گئے ہیںاور یہ لوگ ہی زندگی کی ایک بنیادی ضرورت رہائشی پلاٹوں کی مہنگائی کا باعث ہیں۔ ہمارے سارے مسائل اندرونی ہیں اور ان کا حل بھی ملک کے اندر موجود ہے۔ صرف عدل ، انصاف کی ضرورت ہے۔ انتہائی تکلیف دہ بات یہ ہے کہ 2018ء کے الیکشن میں مسلم لیگ ، تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اورمذہبی جماعتوں سمیت کسی نے انتخابی مہم میں ملکیت زمین کے سنجیدہ مسئلے کو ٹچ نہیں کیا۔ آج پاکستان میں متوسط طبقے کا کوئی آدمی گھر خریدنے کی سکت نہیں رکھتا۔ریاست مدینہ میں ہائوسنگ سوسائیٹیز یا رہائشی پلاٹوں کے نام کی کوئی شے نہیں تھی۔ شاید اسی لئے زکوٰۃکے نصاب کی فہرست میں رہائشی پلاٹ اور ہائوسنگ سوسائیٹیوں کی فائلیں شامل نہیں۔ علماء اس پر واضح موقف اختیار کرنے سے کترا رہے ہیں۔ زمین کے چار استعمال ہیں۔ عمارت ، کھیت ، جنگل ، پارک۔ رہائشی کمرشل پلاٹ کے نام سے مہذب ملکوں میں کوئی چیز نہیں ہوتی۔ وہاں رہائشی پلاٹ کی تعمیراتی مدت گزر جانے کی صورت میں ہر سال جرمانہ کی سزا ہے۔ اگر یہی پاکستان میں ممکن ہو تو رہائشی پلاٹوں کی قیمت عام آدمی کی پہنچ میں آسکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن