• news

جنگ جو ہماری علیحدگی کا باعث بنی

جنگ ایک تباہ کن عمل ہے جس سے فاتح اور مفتوح دونوں تباہ ہو جاتے ہیں۔ انسانی جانوں کے ضیاع کے علاوہ انسانیت کی تذلیل، معاشرتی اور معاشی تباہی، ایک لمبے عرصے کے لیے جنگ لڑنے والی قوموں کی کمر توڑ کے رکھ دیتی ہے۔ قوموں کی اخلاقی اقدار کو روند ڈالتی ہے۔ ذہنی سوچ کو مفلوج کر دیتی ہے۔ معاشرتی ڈھانچا ریزہ ریزہ کر دیتی ہے۔ قومی یکجہتی پر برے طریقے سے اثر انداز ہوتی ہے اور جنگ کا خمیازہ آنے والی نسلوں کو کئی سالوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔ پاکستان اور بھارت جتنا دل چاہے 1965ء کی جنگ کی تاویلیں پیش کریں، سالانہ فتح کے جشن منائیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ دونوں ممالک تباہی سے دوچار ہوئے۔ بھارت کے لیے یہ جنگ کشمیری بغاوت کی بنیاد ثابت ہوئی جہاں اب تک تقریباً ایک لاکھ انسان موت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ بھارت کی سات ڈویژن با قاعدہ فوج اور تقریباً تین ڈویژن پیراملٹری فورس مل کر بھی حالات قابو میں نہیں لا سکے۔ جن بوتل سے باہر آ چکا ہے جسے واپس ڈالنا کم از کم بھارت کے بس سے باہر ہو چکا ہے اور جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے اس جنگ نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر مہر ثبت کر دی اور اس سلسلے میں سیاسی تشریحات محض لفاظی ہیں۔ عوام کو بے وقوف بنانے کی چالیں ہیں۔ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی اینٹ 6 ستمبر 1965ء کو ہی رکھ دی گئی تھی۔
ہم پاکستانی بہت ہی جذباتی اور جھوٹے تخیلات میں رہنے والی قوم ہیں۔ ہر کام میں اپنی بہادری کے قصے سننا چاہتے ہیں۔ حقیقت کو نہ تو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ ہی حقیقت کا مقابلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس جنگ کو کئی سال گزر چکے ہیں۔لوگوں نے اس جنگ پر بہت کچھ لکھا۔ ہماری فوج کے بہادری کے قصے بھی لکھے گئے۔ 6 ستمبر کو ڈیفنس ڈے بھی مناتے ہیں۔ فتح کے جشن بھی مناتے ہیں۔ درسی کتابوں میں بہادری کے قصے بھی درج ہیں لیکن قوم یہ نہیں جانتی کہ اس جنگ کا اصل ذمہ دار کون تھا۔ کس شخص نے یہ جنگ شروع کی اور اس کے کیا مقاصد تھے؟ یہ چیز تا حال قوم کی نظروں سے اوجھل ہے یا جان بوجھ کر اوجھل رکھی گئی ہے جس سے میں پردہ اٹھانا چاہتا ہوں۔ گو میرے جیسے غیر اہم شخص سے ایسی کہانی بے موقع لگتی ہے لیکن بطور پاکستانی میرے دل پر کافی عرصہ سے بوجھ ہے جو آج میں یہ کہانی سپردِ قلم کر کے ہلکا کر رہا ہوں۔
ستمبر 1965ء میں عین دوران جنگ ہمارا کورس پاکستان ملٹری اکیڈمی سے پاس آؤٹ ہوا۔ کچھ عرصہ ایبٹ آباد میں ٹھہر نا پڑا اس کے بعد پوسٹنگ ڈھا کہ مشرقی پاکستان بطور سنسر آفیسر ہو گئی۔ ہمارا دفتر جنرل پوسٹ آفس ڈھا کہ میں تھا اور ہمارے فرائض میں تمام ڈاک کو سنسر کرنا تھا۔ ڈاک کی سنسر سے مجھے پتا چلا کہ ڈھا کہ اور کلکتہ کے درمیان بڑا گہرا رابطہ ہے اور یہ رابطہ عوام کی جڑوں تک اترا ہوا ہے۔ اس رابطے کے تجزیے سے ہماری ٹیم کو یہ بھی اندازہ ہوا کہ مشرقی اور مغربی پاکستان کا اتحاد محض وقتی ہے جو زیادہ سے زیادہ دس سال مزید رہ سکتا ہے۔ یادر ہے کہ میں اس ٹیم کا سب سے جونیئر آفیسر تھا۔ اس وقت چونکہ اس قسم کی بات کرنا قومی مفاد کے خلاف تھا لہٰذا کوئی لفظ زبان پر نہ لائے مبادا کہ انٹیلی جنس والے سن کر رائی کا پہاڑ بنالیں۔
دوسری بات جس کا مجھے پہلی دفعہ اس ڈاک کے سنسر سے احساس ہوا وہ ہمارے اس وقت کے محترم وزیر خارجہ کی شخصیت تھی۔ بہت سے بنگالی نوجوانوں کا خیال تھا کہ یہ آدمی بہت چالاک اور پاکستان کے مفادات کے خلاف کام کرنے والا شخص ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس قسم کے جملوں یار پورٹنگ سے دکھ ہوتا کیونکہ ذوالفقار علی بھٹو (مرحوم) میری پسندیدہ شخصیت تھے۔ مجھے یقین تھا کہ یہ آدمی ایک نہ ایک دن صدر پاکستان بنے گا اور اس کی قیادت میں پاکستان بہت ترقی کرے گا لیکن بنگالیوں کے غیر سرکاری تجزیے میرے لیے پریشان کن تھے۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کہ یہ لوگ اس عظیم انسان کے خلاف کیوں ہیں۔ مجھے ایسا احساس ہوا جیسے کوئی اس شخص کے خلاف زیر زمین تحریک چل رہی ہو لیکن میری نہ تو اتنی سیاسی سوجھ بوجھ تھی اور نہ اتنے رابطے کہ اس بات کی تہہ تک پہنچ سکوں۔ میں یہی سمجھتا تھا کہ شاید کچھ بنگالی سیاسی لیڈر اور خصوصاً مجیب الرحمن کیمپ سیاسی حسد کی وجہ سے یہ سب کچھ کر رہے تھے۔
پھر ایک دن ایک نجی تقریب میں کچھ بنگالیوں نے اس جنگ سے بیزاری ظاہر کی۔ جب میں نے وجہ پوچھی تو ایک پروفیسر گویا ہوئے کہ’یہ بے مقصد جنگ ہے جس کی سزا مشرقی پاکستان کو بھی بھگتنی پڑے گی۔‘’بے مقصد کیسے؟‘ میں نے پوچھا۔ اسی پروفیسر صاحب نے جواب دیا،’جنگ لڑنا مذاق نہیں، جنگ ہمیشہ کسی مقصد کے لیے لڑی جاتی ہے اور اس کے لیے سالوں تیاری کی جاتی ہے۔ اگر اس کا مقصد حصول کشمیر ہے تو یہ بہت ہی بیہودہ، بے ڈھنگی اور جاہلانہ کوشش ہے۔ اس طرح نہ ہم بھارت سے کشمیر لے سکتے ہیں اور نہ وہ ہمیںکشمیر دیں گے۔ اس جنگ کا زیادہ سے زیادہ مقصد یہ ہو سکتا ہے کہ غلط حالات میں غلط طریقے سے جنگ لڑا کر قومی فوج کی تذلیل کرائی جائے۔ ‘یہ سن کر میرا سر گھومنے لگا کہ پروفیسر صاحب کیا کہہ رہے ہیں۔ میں نے پھر ذرا کرخت لہجے میں اعتراض کیا، ’یہ جنگ تو ہم پر تھوپی گئی ہے۔‘ پروفیسر صاحب پھر مسکرائے، بیئر کی ایک چسکی لی اور تحمل مزاجی سے بولے، ’مائی ڈیئر ینگ مین، یہ جنگ ہم پر تھوپی نہیں گئی، ہم نے کوشش کر کے اپنے گلے ڈال لی ہے۔ ہم نے بیٹھے بٹھائے بغیر کسی تیاری کے مقبوضہ کشمیر میں ریڈرز بھیجے انھیں مجاہدین کا نام دیا اور توقع یہ کہ بھارت ہمارے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے گا۔ ہمارے معزز وزیر خارجہ بیان دیتے ہیں کہ بھارت بین الاقوامی سرحد پار نہیں کرے گا۔ کیوں؟ کیا پاکستانی عوام بے وقوف ہیں یا بین الاقوامی دنیا؟ ینگ مین، یہ پاکستان کو ذلیل کرنے، بین الاقوامی دنیا میں تنہا کرنے اور سب سے بڑھ کر پاکستان کو دولخت کرنے کی بہت گہری سازش ہے۔ اور مزید یہ کہ فوج کی تذلیل۔‘ اب اس کی یہ کھری کھری باتیں میرے بھی دل کو لگنے لگیں۔ میں نے بیتابی سے پوچھا کہ ’یہ سازش کس غدار نے کی ہے اور کیوں؟‘ پروفیسر صاحب نے جواب دیا، ’جذباتی نہ ہوں، لفٹین صاحب۔ میں لفظ غدار تو استعمال نہیں کرتا لیکن ایسے سازشی لوگ کوئی پوشیدہ بھی نہیں۔ آپ اپنے وزیر خارجہ اور اس کی ٹیم کو کھنگال لیں۔ ساری کڑیاں مل جائیں گی۔‘ یہ سن کر مجھے اپنے کانوں پر یقین نہ آیا۔ میں نے تپ کر پھر پوچھا، ’تو کیا ہمیں کشمیر کو بالکل بھول جانا چاہیے؟‘ ’نہیں، قطعاً نہیں، قو میں اپنے مقاصد حاصل کرنے کے لیے بعض اوقات موقع کی تلاش میں صدیاں انتظار کرتی ہیں۔ ہمیں یہ مسئلہ ہر صورت میں زندہ رکھنا چاہیے۔ اگر ہم نہیں تو ہماری نسل میں سے کوئی نہ کوئی شخص یہ مسئلہ ضرور حل کرے گا۔ ‘پروفیسر نے سمجھانے کے انداز میں بتایا۔ اب اس ساری بحث سے مجھے ڈپریشن سا ہونے لگا۔ میں چونکہ شراب کا عادی نہیں تھا، لہٰذا اپنے حصے کی کوک کی بوتل مشکل سے ختم کی۔ اٹھنے کا ارادہ کر رہا تھا کہ خوش قسمتی سے میزبان نے کھانے کے لیے بلایا۔ جیسے تیسے کر کے دو لقمے لیے اور شکریہ ادا کر کے واپس میس کے کمرے میں آگیا۔ 
……………………(جاری)

سکندر خان بلوچ

سکندر خان بلوچ

ای پیپر-دی نیشن