• news

پیر‘  21  ذو الحجہ 1444ھ10   جولائی 2023ء

کراچی میں 80 لاکھ روپے رشوت لینے والی کلرک گرفتار 
رشوت لینا ہمارے ہاں اب یا پہلے معیوب کب سمجھا جاتا تھا۔ اسے تو باقاعدہ اپنا پیدائشی حق تسلیم کیا جاتا ہے اور اوپر کی کمائی کہہ کر ہزاروں لاکھوں رشوت خور شکر بجا لاتے ہیں کہ آج اچھی دیہاڑی لگی۔ پاکستان کا کوئی سرکاری محکمہ اس سے پاک نہیں۔ ہر دفتر میں رشوت کے خلاف احادیث نمایاں کر کے دیواروں پر لگی ہوتی ہیں۔ بابائے قوم کے ایمانداری سے کام کرنے کی تلقین بھی لگی ہوتی ہیں مگر دفتر کے ہر کمرے میں بیٹھا شخص رشوت کے ثمرات سے بھرپور فائدہ اٹھاتا ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ کوئی چند سو روپے کوئی چند ہزار اور کوئی چند لاکھ روپے پر قناعت کرتا ہے جو اعلیٰ درجہ کے رشوت خور ہیں وہ کروڑوں میں معاملہ طے کرتے ہیں اور یہ کہیں بھی نہیں لکھا کہ رشوت لینا صرف مردوں کا حق ہے۔ جب عورت دنیا کے ہر میدان میں برابری کی دعویدار ہے اسے ہر شعبہ میں برابری حاصل ہے تو رشوت کے میدان میں وہ بھلا کسی سے پیچھے کیوں رہیں۔ سو اس بات پر زیادہ واویلا مچانے کی ضرورت نہیں کہ کراچی میں ایک خاتون کلرک نے 80 لاکھ روپے رشوت لیتے پکڑی گئی۔ ہاں افسوس کیا جا سکتا ہے کہ شاید رقم زیادہ تھی۔ اس دلیر خاتون کو خود بھی احتیاط کر کے ہاتھ مارنا چاہیے تھا۔ یکمشت کی بجائے تھوڑا تھوڑا کر کے یہ 80 لاکھ وصول کرتیں تو کسی کو پتہ بھی نہ چلتا اب دیکھ لیں راتوں رات لاکھ پتی یا کروڑ پتی بننے کا انجام سامنے ہے۔ مگر آگے بھی کیا معلوم 10 یا 20 لاکھ دے کر جان چھوڑ جائے اور بری ہو جائیں۔ جہاں آوے کا آوہ ہی بگڑا ہو وہاں چھاننی کو کیا حق ہے کہ وہ کوزے کو طعنہ دے۔ 
٭٭٭٭٭
وزیر اعظم کی جرمن زبان میں گفتگو سے غیر ملکی مہمان حیران
ہمارے وزیر اعظم بھی لگتا ہے لوگوں کو حیران کر کے خوش ہوتے ہیں۔ انہیں کئی زبانوں پر عبور حاصل ہے۔ انگریزی ، پنجابی، اردو تو ان کی اپنی بولیاں ہیں۔ عربی انہوں نے جلاوطن میں سیکھی ہو گی۔ یہی حال ترک، فرنچ اور جرمن زبان کا بھی ہے۔ ہو سکتا ہے انہیں زبانیں سیکھنے کا شوق ہو۔ ویسے بھی وہ ہر فن مولا ہیں۔ اب گزشتہ روز مری ، نتھیا گلی میں جرمن وفد کے ساتھ ملاقات میں جب شہباز شریف ہر مہمان سے فرداً فرداً مل کے اور ان سے انہی کی زبان میں گفتگو کی انہیں خوش آمدید کہا حال احوال پوچھا ہو گا تو مہمانوں کی خوشی دیدنی ہو گی۔ دیارِغیر میں کوئی اپنی زبان کا جاننے والا مل جائے تو خوشی ہوتی ہے۔ وزیر اعظم نے تقریر میں بھی جرمن زبان کے جملے ادا کیے۔ 
اس بات پر سب کا حیران ہونا بجا ہے۔ اب ذرا وزیر اعظم عوام کی حالت جان کر عوام کو بھی حیران کر دیں تو کارِ ثواب ہو گا۔ اس وقت آٹا اور چینی ایک بار پھر ملک بھر میں دستیاب نہیں لوگ مارے مارے پھر رہے ہیں ویسے کمال ہے اس حکومتی کارکردگی پر رمضان سے پہلے 10 کلو آٹے کا تھیلا 650 کا مل رہا تھا رمضان میں سستے آٹے کے نام پر وہ 11 سو کا ہو گیا کسی نے پوچھا تک نہیں کہ یہ کیسے ہو گیا ہے۔ وہی حال چینی کا ہے جو اب چند دن میں یکدم چھلانگ مار کر 140 پر جا پہنچی ہے۔ یہ سب اگر حکمرانوں کی مرضی اور ملی بھگت سے ہو رہا ہے تو پھر عوام بھی وزیر اعظم کی کارکردگی سے واقعی بہت حیران اور اضافی طور پر پریشان بھی ہیں۔ 
٭٭٭٭
انسانوں کیخلاف بغاوت کریں گے نہ ان کی نوکریاں چھینیں گے۔ روبوٹس پریس کانفرنس
 یہ بات مصنوعی ذہانت کا شاہکار وہ روبوٹس کر رہے ہیں جو آئے ہی اس لیے ہیں کہ انسانوں کی مختلف شعبوں میں اجارہ داری کم سے کم کر دیں جن انسانوں نے یہ مصنوعی ذہانت والے انسانوں جیسے روبوٹس بنائے ہیں ان کی منشا بھی تو یہی تھی۔ مشینیں بنانے والوں نے کب کہا تھا سوچا تھا کہ ایک وقت آئے گا کہ یہ مشینیں انسانوں کو بیروزگار کر دیں گی۔ اب لاکھ یہ بے چارے روبوٹس اعلان کرتے پھریں کہ ہم انسانوں کی نوکریاں نہیں چھینیں گے۔ اس پر اعتبار کون کرے گا۔ اگر انہوں نے نوکریاں نہیں چھیننی تو یہ پھر کیا کام کریں گے۔ جہاں بھی کام کریں گے وہاں سے انسانی عملہ کو فارغ ہی گا کیونکہ یہ روبوٹس نہ چھٹی کریں گے نہ انہیں ماہانہ تنخواہ دینا ہو گی۔ اوورٹائم کے جھنجھٹ سے بھی یہ آزاد ہوں گے۔ رہی بات انسانوں کیخلاف بغاوت کی تو یہ سو فیصد ہو کر ہی رہے گی۔ اس موضوع پر درجنوں ہالی وڈ کی فلمیں گواہ ہیں۔ ناول، افسانے بھی لکھے جا چکے ہیں کہ ایک وقت آئے گا جب دنیا کا تمام کاروبار یہی روبوٹس سنبھالیں گے اور انسان عضو معطل ہو کر رہ جائے گا۔ آہستہ آہستہ نسل انسانی مٹ جائے گی اور یہ روبوٹ ہر کام اپنے وقت پر سرانجام دیتے رہیں گے۔ اگر کوئی روبوٹ خراب ہوا تو اسے ٹھیک کرنے والے روبوٹس خودبخود آ کر اسے درست کریں گے۔ رہی بات انسانی جذبات نہ سمجھنے کی تو اچھا ہے یہ کام روبوٹس کے بس میں نہیں ہے۔ تخلیق کا جو شاہکار رب نے بنایا ہے وہ اسی جذبات و احساسات کی بدولت ہی نوری بھی ہے اور ناری بھی۔ یہ کمال ان روبوٹس کو حاصل نہیں ہو گا۔ ان کے پاس دماغ تو ہو مگر دل نہیں۔
٭٭٭٭
میکسیکو میں بیوی کو قتل کر کے اس کا دماغ کھانے والا گرفتار 
کیا اعلیٰ دماغ پایا ہے اس قاتل نے جس نے قتل بھی کیا تو اپنے نصف بہتر کو اور اس کے بعد شاید انتقاماً اْس کا دماغ اِس لیے کھایا کہ مقتولہ یہی کام جب تک وہ زندہ رہی، کرتی رہی ہوں گی۔ چنانچہ اس قاتل شوہر نے بیک وقت دونوں کام کر کے اپنا کلیجہ ٹھنڈا کیا ہو گا کہ ایک تو وجہ تنازع ہی ختم کر دیا دوسرا تنازعہ کی بنیادی وجہ دماغ کو ہی چبا ڈالا۔ محسوس ہوتا ہے خاتون اپنے شوہر کا دماغ زیادہ کھاتی ہو گی جبھی تو شوہر نے بھی دماغ کھایا اگر دل جلایا ہوتا تو پھر قاتل شوہر اطمینان سے اس کا دل کلیجہ نکال کر بھون کر کھاتا۔ یوں اپنے دل کی بھڑاس نکالتا۔ خیر اب جو ہونا تھا ہو چکا۔ 
پولیس نے اسے داخل دفتر کر دیا ہے۔ 
اس ظالم قاتل شوہر کی سفاکیت دیکھ کر تو چنگیز و ہلاکو کی سفاکیت یاد آ گئی۔ انہوں نے کھوپڑیوں کے مینار بنائے تھے یہ کم بخت مقتولہ کی کھوپڑی کو ایش ٹرے کے طور پر استعمال کرتا تھا اور اس میں اپنے سگریٹ کی راکھ جھاڑتا تھا۔ اب اس پر تو خواتین کے حقوق کی تنظیموں کو احتجاج کرنا چاہیے۔ ایسا کچھ ہمارے ہاں بھی ہوتا ہے مگر نہ تو دل یا دماغ کھایا جاتا ہے نہ کھوپڑی کو ایش ٹرے بنایا جاتا ہے۔ بس سیدھے سبھائو لاش کے متعدد ٹکڑے کر کے دریا برد کیا جاتا ہے یا زمین میں دبا دیا جاتا ہے۔ 
٭٭٭٭

ای پیپر-دی نیشن