امریکی قیدیوں کی رہائی کے لیے ایران کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں،وائٹ ہاﺅس
واشنگٹن(این این آئی)وائٹ ہاﺅس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے کہا ہے کہ جو بائیڈن کی انتظامیہ ایران میں زیر حراست امریکیوں کو رہا کرنے کے لیے تہران کے ساتھ بالواسطہ مذاکرات کر رہی ہے۔انہوں نے اس بات کا اظہارامریکی ٹی وی کوایک خصوصی انٹرویو میں کیا۔جیک سلیوان نے بتایا کہ ہم بالواسطہ طور پر ایران کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں، مگر جوہری معاملے پر کوئی براہ راست بات چیت نہیں ہوئی۔انہوں نے کہا کہ یہ بالواسطہ بات چیت ہم نے قیدیوں کے بارے میں کی ہے، کیونکہ یہ ہمارا فرض ہے کہ امریکی شہریوں کو گھر واپس لانے کی کوشش کریں۔اس انٹرویو میں انہوں نے کہا کہہم کسی بھی حکومت سے جس طرح بھی ممکن ہو سکے بات کرتے ہیں، جیسا کہ ہم روسی حکومت سے بلاجواز حراست میں لیے گئے امریکیوں کے بارے میں کررہے ہیں۔انہوں نے ایران کے ساتھ مذاکرات کو اپنے شہریوں کو گھر واپس لانے کے لیے حل تلاش کرنے کی کوشش قرار دیا۔تاہم انہوں نے کہا کہ اس وقت میرے پاس کوئی نئی معلومات نہیں ہیں کہ ہم کسی حتمی نتیجے پر پہنچے ہوں۔واضح رہے کہ اس وقت تین ایرانی نڑاد امریکی شہری عماد شرقی، مراد طاہباز اور سیاماک نمازی ، جبکہ شہاب دلیلی نامی امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کرنے والا ایک شہری ایران کی جیل میں قید ہیں۔امریکہ سمیت متعدد مغربی ممالک اس سے قبل اپنے شہریوں کو دوہری شہریت کے حامل افراد کو ایران کا سفر کرنے سے خبردار کر چکے ہیں۔دوسری جانب ایرانی حکام عموماً ان قیدیوں پر جاسوسی یا ایران کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے کا الزام لگاتے ہیں۔انٹرویو میں انہوں نے پابندیوں سے متعلق جوہری معاہدے کی مدت ختم ہونے کے قریب پہنچنے کے حوالے سے امریکہ کے ممکنہ اقدامات کے بارے میں بات کی۔تہران اور ماسکو کے درمیان ہتھیاروں کے میدان میں تعاون کی روشنی میں، ایران کے ہتھیاروں کی فروخت کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ امریکہ نے یوکرین کے شہریوں کو مارنے کے مقصد سے ڈرون (روس کو) فراہم کرنے کے لیے ایران پر پابندیاں عائد کی ہیں۔قومی سلامتی کے مشیر نے ایران کے خلاف ان اقدامات کے تسلسل پر زور دیتے ہوئے کہاکہ ہم نے یہ قیمت مشترکہ جامع ایکشن پلان کی ان شقوں کے ختم ہونے سے پہلے عائد کی ہے،امریکہ نے ایرانی ہتھیاروں کے پروگراموں خصوصاً بیلسٹک میزائل پروگرام کے آپریٹرز اور حامیوں پر کئی پابندیاں عائد کیں۔ دوسری جانب تہران کا دعویٰ ہے کہ اس کے میزائل پروگرام کا 2015 میں 5+1 ممالک کے ساتھ طے پانے والے جوہری معاہدے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وائٹ ہاو¿س