• news
  • image

حلقہ ارباب مایوساں کا بیان 

آرمی چیف نے کنونشن سنٹر کے سیمینار میں چونکا دینے والا خطاب کیا اور یہ پیش گوئی کی کہ سال بھر میں پاکستان کی معاشی کایا کلپ ہو جائے گی۔ ان کی پیش گوئی محض امید پرستی پر نہیں ہے۔ امید پرستی کی بنیاد پر تو ایسے دعوے ہر کوئی کر سکتا ہے اور کرتا بھی ہے کہ فکر مندیش، سب ٹھیک ہو جائے گا۔ جنرل عاصم منیر صاحب کی اس پیش گوئی کے پیچھے کئی باتیں ہیں اور ان میں سے ایک وہ پکے وعدے ہیں جو چین، سعودی عرب، قطر اور امارات نے پاکستان میں سرمایہ کاری کے حوالے سے کئے ہیں، پھر کچھ وجوہات یقین کی یہ بھی ہیں کہ قدرتی، معدنی اور زرعی وسائل کی بہتری کیلئے دوسرے ممالک نے تعاون کے وعدے بھی کئے ہیں۔ 
_____
سنا ہے کہ سیمینار میں ہونے والی آرمی چیف کی تقریر پر ”حلقہِ ارباب مایوساں“ کا احتجاجی اجلاس بھی ہوا ہے جس میں جنرل عاصم منیر کے اس فقرے کا سختی سے نوٹس لیا گیا ہے کہ مایوسی مت پھیلائیں۔ مایوسی کی کوئی وجہ نہیں اور ہم پاکستان کو ترقی کے عروج پر لے جائیں گے۔ 
حلقہ ”ارباب مایوساں“ نے آرمی چیف کے ان فقرات پر سخت مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے شکوہ کیا ہے کہ مایوسی پھیلانا ہماری ذمہ داری ہے بلکہ ہمارا عزم عالی شان ہے اور جنرل صاحب نے ھمی کو مایوس کر دیا ہے جس سے ہمیں سخت مایوسی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس پر ہم ہر عالمی پلیٹ فارم پر احتجاج کریں گے اور امریکہ اور یورپی یونین سے مداخلت کی اپیل کریں گے۔ 
حلقہ مایوساں نے اپنے پریس ریلیز میں مزید کہا ہے کہ اس طرح کی تقریروں سے ہماری ان تمام کوششوں پر پانی پھر سکتا ہے جو ہم عرصہ ڈیڑھ سال سے جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاکستان کا ڈیفالٹ، خانہ جنگی، سری لنکا، ہانگ کانگ کے شعلے وغیرہ کے عنوان سے ہماری جملہ مہمات تاریخ ساز ناکامی سے دوچار ہونے کے بعد بھی ہم مایوس نہیں ہوئے کیونکہ ہمارے قائد انقلاب نے امید کا دیا جلائے رکھا ہے لیکن افسوس کہ جنرل صاحب نے یہ دیا بجھا دیا ہے جو کہ ہمارے بنیادی انسانی حقوق اور حقیقی آزادی پر تباہ کن حملہ ہے۔ اربابِ حلقہ مایوساں نے بہت جلد ایون فیلڈ کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں جدوجہد حقیقی آزادی کے بہت سے روشن ستارے ا ور روشن ستاریاں شرکت کریں گی۔ جملہ مظاہرین کو ہدایت کی جاتی ہے کہ وہ بازوﺅں پر سیاہ پٹیاں اور سروں پر سیاہ بالٹیاں اوڑھ کر شریک ہوں کیونکہ تازہ ترین الہامات کے مطابق قبر میں پہلا سوال بالٹی ہی کے بارے میں ہو گا۔ 
_____
نامور انصاف پسند رہنما اعتزاز احسن نے گزشتہ روز اخبار نویسوں سے خطاب کیا۔ خطاب میں انہوں نے اخبار نویسوں کو اپنا مدعا سمجھانے کی کوشش کی لیکن لسانی اور ذہنی لکنت کے باعث ٹھیک سے سمجھا نہ سکے۔ صرف ایک فقرہ سمجھ میں آیا کہ کوئی جائے آرمی چیف کو سمجھائے اور انہیں ٹھیک مشورہ دے۔ 
یہ تو پتہ نہیں چل سکا کہ ٹھیک مشورے کی نوعیت کیا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ ”کوئی تو سمجھائے“ کہنے کی ضرورت انہیں کیوں آپڑی۔ قافلہ حقیقی آزادی کے بچے کھچے توپ خانے کی سب سے بڑی توپ تو وہ خود ہیں، انہیں کسی اور کی تلاش میں سرگرداں ہونے کی کیا ضرورت ہے، وہ خود کیوں جا کر وہ گراں قدر مشورہ آرمی چیف کو نہیں دے دیتے۔ آرمی چیف سیاستدانوں سے نہیں ملتے لیکن اعتزاز احسن بطور سیاستدان کب کے ریٹائر ہو چکے۔ امید ہے کہ سیاستدانوں سے نہ ملنے کی شرط کا اطلاق ریٹائرڈ سیاستدانوں پر نہیں کیا جائے گا، اس لئے وہ فی الفور مل لیں۔ 
کوئی تو سمجھائے ، برسبیل تذکرہ اور ازراہ تفنّن لکھنو کے ایک نواب کے ساتھ پیش آنے والا واقعہ یاد آ گیا۔ ان کے آنگن میں سانپ نکل آیا۔ موصوف اس وقت خواب گاہ میں نیم دراز پان اور حقّہ سے لطف اندوز ہو رہے تھے کہ اچانک ہانپتی کانپتی ملازمہ اندر داخل ہوئی اور بولی کہ قبلہ، آنگن میں سانپ نکل آیا۔
نواب صاحب اسی لمحے اچھلے اور ریلنگ پر کھڑے ہوئے چلائے، ارے کسی مرد کو بلاﺅ جو ا س سانپ کو مارے۔ 
_____
خدا پرویز الٰہی کی مشکل دور کرے۔ گزشتہ روز عدالت پیشی پر تقریباً رو ہی پڑے، لغوی معنوں میں نہیں بلکہ معنوی معنوں میں۔ موصوف کو جیل میں سیکنڈ کلاس کی سہولت حاصل ہے لیکن فرمایا کہ وہاں کیڑے مکوڑے ہیں، میرے پاﺅں سوج گئے ہیں۔ یہ ذرا نئی بات ہے، کیڑے تو سب جسم سے لپٹ جاتے ہیں، ہر عضو کو اپنی رہگذر بنا لیتے ہیں لیکن چودھری صاحب کے صرف پاﺅں میں کاٹتے ہیں، کیوں؟ ہو سکتا ہے، وہ مہمان گرو کی قدم بوسی کا شرف حاصل کر رہے ہوں۔ 
موصوف نے ہسپتال بھجوانے کی درخواست بھی کی۔ ایسی درخواست وہ پہلے بھی کر چکے ہیں اور تب ڈاکٹروں نے کہا تھا کہ انہیں کوئی بیماری نہیں، خوب ہٹےّ کٹّے ہیں، ہسپتال کیوں بھجوائیں۔ 
اب دیکھئے اس درخواست کا کیا جواب آتا ہے۔ آپ سے چودھری شجاعت نے ملاقات کی۔ دوران ملاقات پرویز الٰہی اپنے سپوت پر برس پڑے کہا، اس نے مجھے مصیبت میں پھنسا دیا ہے۔ یہ تو سپوت صاحب پر الزام تراشی ہے اس لئے کہ سپوت صاحب نے تو سبز باغ محض دکھائے تھے۔ آپ نے آﺅدیکھا نہ تاﺅ، باغ میں گھس پڑے۔ سپوت کے سنائے سہانے خوابوں میں آ گئے۔ اسے تو طفل ناتجربہ کار کی رعایت مل سکتی ہے، آپ تو اور گرگ عمر رسیدہ و باراں دیدہ تھے ، پھر بھی سوچا نہ سمجھا، بس کود گئے کہ عمر بھر کی وزارت اعلیٰ پکّی۔ 
دراصل آپ جو کچھ بھی تھے، شجاعت کے دم قدم سے تھے آپ کے سپوت تو اربوں روپے ساتھ لے کر سپین کے عشرت کردہ کو نکل گئے اور وہاں خواب کدوں کو حقیقت کی شکل دے دی اور آپ کو نذر زنداں کر دیا اور اب آپ کا فون بھی نہیں سنتے۔ خدا کسی سلف کو ایسا خلف نہ دے۔ 
_____

epaper

ای پیپر-دی نیشن