ایف آئی اے ، نیب ،آڈیٹر جنرل پر مشتمل کمیٹی قائم
اسلام آباد (نامہ نگار) پبلک اکاﺅنٹس کمیٹی (پی اے سی) نے تحریک انصاف دور حکومت میں دیے جانے والے 3ارب ڈالر قرضوں کی تحقیقات کیلئے ایف آئی اے، نیب اور آڈیٹر جنرل پر مشتمل کمیٹی بنا دی جبکہ کمیٹی نے 15روز میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی ہے، کمیٹی نے نادرا کا ڈیٹا لیک ہونے اور این ٹی ایل میں کرپشن کے حوالے سے بھی ایف آئی اے حکام کو انکوائری کرکے رپورٹ جلد از جلد کمیٹی کے سامنے پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سینیٹر طلحہ محمود کمیٹی اجلاس کے دوران چیئرمین پی اے سی کی جانب سے گذشتہ اجلاس کے دوران سعودی عرب میں پاکستانی عازمین کو درپیش مشکلات کے حوالے سے ریمارکس پر برہم نظر آئے اور اجلاس میں آتے ہی چیئرمین پی اے سی نور عالم خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میں آپ کا احتساب کرنے آیا ہوں، آپ نے کمیٹی کا بیڑہ غرق کیا ہے۔ پی اے سی کا اجلاس چیئرمین نور عالم خان کی سربراہی میں گزشتہ روز ہوا۔ اجلاس میں کمیٹی ارکان کے علاوہ سیکرٹری داخلہ سمیت آئی جی ایف، آئی جی اسلام آباد، چیئرمین سی ڈی اے، آڈیٹر جنرل آف پاکستان اور دیگر حکام نے شرکت کی۔ اجلاس کے دوران چیئرمین کمیٹی نور عالم خان نے کہاکہ کل ان کیمرا اجلاس میں تین ارب ڈالر کے قرضوں کا معاملہ آیا اور گورنر سٹیٹ بنک کی جانب سے جو لسٹ دی گئی ہے اس میں بینکوں کے نام نہیں تھے۔ کمیٹی کے رکن سید غلام مصطفی شاہ نے کہا کہ اس معاملے کو نیب یا ایف آئی اے کو بھیجیں۔ کمیٹی کے رکن برجیس طاہر نے کہاکہ یہ ایسا قومی سوال تھا جو میں نے ہی خزانہ کمیٹی میں اٹھایا کہ تین ارب ڈالر جو کہ 9 ہزار ارب روپے بنتے ہیں اس ملک کے 620 افراد ملک کو لوٹ کر کھا گئے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ ایف آئی اے اور نیب کو معاملہ دینے کی تجویز کی حمایت کرتے ہیں۔ کمیٹی کے رکن افضل ڈھانڈلا نے کہاکہ اتنا پتہ چل جائے وہ قرضہ جس مقصد کے لئے دیا گیا وہ اس کے لئے استعمال ہوا ہے یا نہیں۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ اگر کسی بھی وزارت میں کوئی غلط کام ہوا ہے تو وہ جواب دہ ہے۔ انہوں نے کہاکہ کوئی بھی قانون سے مبرا یا آگے نہیں ہے۔ ہماری کسی کے ساتھ کوئی ذاتیات نہیں ہوتی۔ انہوں نے کہاکہ چیئرمین نیب کو کہتا ہوں میرے اثاثے پہلے دیکھے۔ کمیٹی کی رکن وجیہہ قمر نے کہا کہ میڈیا میں آنا شروع ہو گیا کہ معاملہ بند کردیا گیا۔ جس پر چیئرمین کمیٹی نے کہا کہ تین ارب ڈالر بہت بڑی رقم ہے۔ ہم یہ معاملہ ایف آئی اے، نیب اور آڈیٹر جنرل کو دیں گے۔ پبلک اکا¶نٹس کمیٹی نے ایف سی فورس کیلئے اسلحہ کی خریداری میں کئی سالوں کی تاخیر کا نوٹس لیتے ہوئے معاملے کی فوری انکوائری کرنے کی ہدایت کی ہے ، رقم ادا کردی تھی تاہم انہیں مطلوبہ اسلحہ فراہم نہیں کیا گیا ہے سیکرٹری داخلہ اور سیکرٹری ڈیفنس پروڈکشن معاملے کی فوری تحقیقات کریں۔اجلاس کے دوران آڈٹ حکام نے بتایا کہ ایف سی خیبر پختونخوا نے سوات اور مالاکنڈ کے شورش زدہ علاقوں میں تعینات ایف سی اہلکاروں کیلئے 3ہزار سے زائد کلاشنکوف کی خریداری کیلئے پی او ایف فیکٹری واہ کو 27کروڑ روپے سے زائد ادا کئے گئے بعدازاں پی او ایف واہ کی جانب سے ڈلر ریٹ میں اضافے کی وجہ سے مذید 72لاکھ روپے سے زائد مانگے گئے جو ادا کردیئے گئے مگر ابھی تک ایف سی کو اسلحہ اور ایمونیشن فراہم نہیں کی جاسکی ہے شیخ روحیل اصغر نے کہاکہ ایف سی جوان شدید خطرات میں اپنی ڈیوٹیاں سرانجام دیتے ہیں ان کو جدید اسلحہ فراہم کرنا بے حد ضروری ہے ۔
کمیٹی