امریکی آئین اورقرآن
امریکا کی تاریخ میں وائٹ ہاو¿س میں کسی مسلمان مہمان کے اعزاز میں پہلا افطار تھامس جیفرسن نے1805ءمیں دیا۔ یہ مہمان ایک تیونسی سفارت کار سلیمان ملیملی تھے۔نیز یہ بھی ایک تاریخی اتفاق ہے کہ 1786ءمیں کسی بھی بیرونی طاقت سے امریکا کا پہلا معاہدہ مسلمان ملک مراکش کے ساتھ ہوا۔ اس معاہدے میں صدر تھامس جیفرسن نے اہم کردار ادا کیا۔ ایک مفکر کا قول ہے کہ وہ قوم جو اپنے اسلاف کے کارناموں سے بے خبر ہے اس قابل نہیں کہ دنیا میں زندہ رہے، بد قسمتی سے ھماری قوم ایک ایسی ہی قوم ہے۔آزادی کی وہ نعمت جو پروردگار کا عظیم عطیہ ہے ایک طویل جنگ کے بعد حاصل کی گئی ہے ، کسی کی دی ہوئی خیرات نہیں ، وقت کی اشد ضرورت ہے کہ پاکستان کے بچے بچے کے دل میں حصول پاکستان کی جدوجہد کی تاریخ نقش کردی جائے۔ آزادی تو مل گئی مگر بابائے قوم کی وفات نے نہ قوم بنانے کی مہلت دی نہ نظام اور دستور ترتیب دینے کا موقع میسر آ سکا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کا مقصد مسلمانوں کے لیئے ایک آزاد ریاست کی تشکیل تھی جہاں اقلیتوں کے حقوق کی پاسداری ہو سکتی۔ آئین قرآن ہوتا اور نظام مصطفی ہوتا مگر دینی اور سیاسی شعبدہ بازوں نے پاکستان کو آدھا تیتر آدھا بٹیر بنا دیا نہ دین رہا نہ ہی ولایتی نظام رائج ہو سکا۔دو سو برس قبل صدر جیفرسن کی جانب سے اپنے مہمان کے اعزاز میں دی جانے والی یہ ضیافت وہائٹ ہاو¿س میں دیا گیا پہلا افطار عشائیہ تھا۔ یہ تاریخی افطار ڈنر 9 دسمبر 1805ءکو وہائٹ ہاو¿س کے مہمان سیدی سلیمان میلملی کے اعزاز میں دیا گیا تھا جو عثمانی سلطنت میں شامل صوبہ تیونس کے گورنر کے سفیر تھے۔ انہوں نے بحیثیت سفیر واشنگٹن میں چھ ماہ تک خدمات انجام دیں۔ میلملی رمضان کے مہینے میں امریکہ پہنچے تھے۔ جب امریکی صدر جیفرسن نے انہیں صدارتی محل میں دعوت دی تو ان کے مذہبی عقیدے کے احترام میں صدر کی ہدایت پر ضیافت کا روایتی وقت 3:30 بجے دوپہر سے بڑھا کر غروبِ آفتاب کردیا گیا تھا۔ صدر جیفرسن کی اسلام کے بارے میں معلومات انہیں قانون کے مطالعے کے دوران میں حاصل ہوئی تھیں۔ صدر جیفرسن نے اپنی ذاتی لائبریری کے لیے دو جلدوں پر مشتمل انگریزی ترجمہ قرآن بھی خریدا تھا۔ صدر جیفرسن کی یہی لائبریری 1815ء میں موجودہ لائبریری آف کانگریس کے قیام کی بنیاد بنی تھی۔ اسلام نارتھ امریکا میں کئی سو سال سے موجود ہے۔ اٹھارھویں صدی عیسوی میں قرآن کا انگریزی ترجمہ برطانیہ کے پرونسٹنٹ اور اس کی امریکی کالونیوں میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی کتاب بن گیا تھا۔ اس کا مطالعہ کرنے والوں میں سے ایک صدر تھامس جیفر سن تھے۔ جیفرسن کے ذاتی قرآنی نسخے نے2019ء کے اوائل میں اس وقت توجہ حاصل کی جب کانگریس کے لیے منتخب ہونے والی پہلی مسلمان خاتون راشدہ طلیب نے اعلان کیا کہ وہ تقریب حلف برداری میں اپنا حلف اس نسخہ پر دیں گی۔یہ پہلی بار نہیں تھا کہ کانگریس کے کسی ممبر نے صدیوں پرانے نسخہ قرآنی پر حلف دینے کی بات کی، کیتھ الیسن وہ پہلے کانگریسی رکن تھے جنہوں نے2007ءمیں ایسا کیا۔ اس نسخہ قرآنی کا استعمال امریکہ میں اسلام کی طویل اور اہم تاریخ کے خاکے کو اجاگر کرتا ہے۔ راشدہ طلیب نے کہا کہ ایسا کرنا میرے لیے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیونکہ بہت سے امریکی اس قسم کا احساس رکھتے ہیں کہ جیسے اسلام امریکا میں کچھ عرصہ پہلے ہی درآمد ہوا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسلمان امریکا میں بالکل آغاز سے موجود ہیں اور امریکا کے لگ بھگ چار بانی راہ نما کانگریس کے موجودہ ارکان سے زیادہ اسلام کے بارے میں جانتے تھے۔ آسٹن کی یونیورسٹی آف ٹیکساس میں تاریخ کی پروفیسر اور کتاب ”تھامس جیفرسن کا قرآن اسلام اور بانیان “(Thomas Jefferson's Quran - Islam and the Founders))کی مصنفہ ڈینیز اے اسپیل برگ لکھتی ہیں کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں قرآن کو برطانیہ اور نارتھ امریکا کے پرونسٹنٹ فرقے میں انتہائی مقبولیت حاصل ہوئی اور لوگوں نے اس کے مطالعہ میں بڑے پیمانے پر دل چسپی لی، کیونکہ لوگ اسے ایک قانون کی کتاب کے طور پر لے رہے تھے اور ان کا خیال تھا کہ اس طرح وہ مسلمانوں کو سمجھ سکیں گے جن سے وہ پہلے ہی سلطنت عثمانیہ اور شمالی افریقہ میں میل جول رکھے ہوئے تھے۔جب جیفرسن نے قانون کے طالب علم کی حیثیت سے قرآن کا نسخہ حاصل کیا تو اس کی وجہ عثمانی قانون کے سمجھنے میں اس کی دل چسپی بتائی جاتی ہے۔ ایک مضمون نگار لکھتا
ہے ”ہوسکتا ہے کہ اس (مطالعہ قرآن ) کا ورجینیا کے مذہبی آزادی کے قانون کے لیے جیفرسن کے ارادے میں دخل بھی ہو جو کہ یہودی اور غیر یہودی، عیسائی اور مسلمانوں (جنہیں جیفرسن نے Mahometanکا نام دیا ہے)، ہندو اور ہر مذہب کے ماننے والوں کے لئے عبادت کے حق کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے، مورخین کے مطابق جیفرسن نے قانون پڑھنے والے نوجوان طالب علم کے طور پر ”اسلام کے عالمی نظامِ قانون پر پڑنے والے اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے “ قرآن کا نسخہ خریدا تھا۔ یہ گویا کہ ایک اعتراف ہے اس بات کا کہ دنیا کے دیگر قوانین نے اسلامی قانون کے اثرات کو قبول کیا ہے۔مورخین کے اس قول کو سترہویں اور اٹھارویں صدی عیسوی میں مغرب کے تعلیمی نصاب میں اسلامی علوم کے دخل اور ان کی اہمیت اور اعلیٰ مقام کے ثبوت کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ بعض مورخوں کا گمان یہ بھی ہے کہ اس وقت جیفرسن اور یورپ کے بہت سے لوگ اس بات سے ناواقف تھے کہ اسلام افریقہ کے ان علاقوں میں بھی کتنی دور تک پھیل چکا ہے جو عثمانی سلطنت کے زیرنگیں نہیں ہیں۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ انہیں اس بات کا احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ نارتھ امریکا کے بہت سے غلاموں کا مذہب وہی ہے جس کا یہ لوگ مطالعہ کر رہے تھے۔ بعض محققین تخمینہ لگاتے ہیں کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں جنوبی امریکا لائے گئے غلام مردوں و عورتوں میں سے بیس فی صد مسلمان تھے۔ جیفرسن کا قرآنی نسخہ جارج سیل نامی برطانوی وکیل کا ترجمہ تھا جو اس نے1734ءمیں کیا تھا۔ اس ترجمہ کا مقصد یہ بتایا کہ اس طرح پرونسٹنٹ عیسائی قرآن کو سمجھ کر اس کے خلاف بحث کر سکیں گے۔ اس زمانے میں تقابلی قانون پر بہترین کام جرمن دانش ور سیموئیل وان پفن دروف کی ’قانونِ فطرت و اقوام ‘ (The Law of Nature and Nation ) کے نام سے کتاب کی صورت میں موجود تھا جس سے جیفرسن نے کافی اثر لیا۔ خود جیفرسن کی قانونی تحاریر میں کسی اور سے زیادہ قرآن کا حوالہ دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ کا آئین پہلے صدور جان آدم اور تھامس جیفرسن نے تشکیل دیا تھا۔ تھامس جیفرسن نے آئین ترتیب دیتے وقت قرآن سے بھی مدد حاصل کی۔ بد نصیبی سے مسلمانوں نے قران کو پس پشت ڈال کر خود کو بھی کنفیوز کیا اور اپنے منافقانہ رویوں سے اسلام کو بھی مسخ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔